منشی خستہ حال یخ بستہ بنام غالبؔ


سنائیو مرزا۔ کیا حال ہیں۔ سنا دلی جل رہی ہے۔ دلی کیا، گرد و نواح جل رہے ہیں۔ کہیں سورج اگلے مہینے سے آگ برسانے کو تیار ہووے تو کہیں گرمیٔ گفتار امیر شہر سے رعایا کے دل پارہ پارہ ہیں۔ کلیجے جھلس رہے ہیں۔ دماغ کی نسیں پھٹنے کو ہیں۔ رگ جان میں گرم لہو ابل رہا ہے۔ شعلہ زنی سے بازار حیات بھسم ہے۔ زبانیں جلی کٹی سنا رہی ہیں۔ تالو ایسے کہ چھالے پڑے ہیں۔ چشمان خواص قہر زدہ ہیں۔ شش جہات جہنم ہے جہنم۔ بگولے اڑ رہے ہیں۔

جمنا کنارے چنگاریاں پھوٹ رہی ہیں۔ سڑکیں، جاناں کی گلی، کوچہ و بازار، بام و در، بارا دری و چوکھٹ، برآمدہ و دالاں، سب کے سب تپتے موسم کی نذر ہو گئے ہیں۔ دل دہک رہے ہیں اور داغ فراق مغلاں اور صحبت سنگھ کی جلی ہوئی دلی دہک رہی ہے۔ تلوئوں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ بے وقت حدت سے تن مفلوج ہیں۔ من نیم مردہ۔ ہر اک ماتھے پہ گرم پسینے کی بوندوں کا راج۔ ہر طرف الاؤ۔ ہر جانب ایندھن میں چٹختی ہڈیاں۔ ہر موڑ پہ اگنی ماتا کی پوجا۔ دن گزرے ہے نہ شب جائے ہے۔ اب تو لال قلعہ بھی اہل سنگھاں اور جوش دہقان سے لال پیلا ہو چکا۔

بلی ماران کے محلے کی پیچیدہ دلیلوں سی گلیاں سوکھ سکڑ کر اور پیچیدہ ہوئی ہیں۔ بڑی بی کی بے نور آنکھیں چندھیا گئی ہیں۔ بکریاں ممیانا بھول گئی ہیں۔ سوکھ کے کانٹا ہو گئی ہیں۔ گلی قاسم جان نہ ہو، کوئی آتش کدہ ہو۔ میدان رام لیلا نہ ہو، شمشان بھومی ہو۔ مزاج یاراں گرم۔ طبیعت دشمناں گرم تر۔ بیگم نواب جان کی نظر کرم گرم، بنسی دھر کا آموں کا ٹوکرہ گرم، نکڑ پہ چائے سموسے بیچنے والا چھوکرہ گرم، دل و چشم آتش، کلیجہ و جگر آتش، لبلبہ و پستان آتش، سینہ و جبیں آتش، زیر پا آتش، سر حیات آتش، پس مرگ آتش، کوچہ چیلاں آتش، پارلیمان آتش، لال کنواں آتش، دریا گنج آتش، پہاڑ گنج آتش، اس پار آتش، اس پار آتش۔ سبزہ و گل کا کلیجہ آتش۔ کوئل و بلبل کا لہجہ آتش۔ بقول آتشؔ۔

نہ پوچھ حال میرا چوب خشک صحرا ہوں۔
لگا کے آگ مجھے کارواں روانہ ہوا۔
نہ پوچھ عالم بر گشتہ طالعی آتشؔ
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے۔

میاں مرزا! یہ بھی سنا کہ یاں ملک کشمیر آ ٹپکے تھے۔ اور یاں سے ٹھندے ہو کر واپس پلٹے۔ کیوں نہ پلٹتے۔ یاں ٹھنڈ کے سوا کیا ہے۔ یاں صرف ”بات“ نہیں جمتی۔ لاکھ جماؤ نہیں جمتی۔ قدرتی طور جمانے کی چھوڑیے، خلق خدا نے مصنوعی طریقوں سے بھی جمانے کی کوشش کی۔ خود تو جم گئے مگر بات کو نہ جما سکے۔ جمانے کے چکر میں کون کہاں پہ جم گیا، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ بہر کیف یاں بات نہیں جمتی۔

اللہ جانے کیا ماجرا ہے۔ شاید۔ ”بات“ ہی اس قدر گرم ہے کہ نہیں جمتی یا صاحبان گفت و شنید کے مزاج گرم ہیں کہ جمانے میں ناکام ہیں۔ مجھے تو فرنگ پہ شک ہے۔ ملک ”چی چوں چاں“ کا بھی کام ہو سکتا ہے۔ کچھ تو ہے، ورنہ کہاں نہیں جمتی۔ دور افتادہ پہاڑوں کی چوٹیاں تو خیر جمی ہی رہتی ہیں، یاں تو ڈل و ولر بھی جم جاتے ہیں۔ کئی ماؤں کے لال، بے پرسان و بے حال، بے قیل و قال، ”آہن زاد و سنگ زاد“ نے اپنی کم مائیگی اور کس مپرسی سے ”آئس بریکنگ“ کی جان توڑ کوشش کی مگر برف پگھلی نہ ٹوٹی۔

خود تو ٹھنڈی مٹی میں جم گئے، مگر برف ہے کہ جمی ہے۔ نہ تو آتشین ضمیر سے پگھلی نہ آتش چنار سے، نہ گرم لہو سے نہ گرمیٔ احرار سے، نہ کسی کی آشفتہ سری سے نہ کسی کی دلبری سے، نہ کسی کی جاں سوزی سے نہ زنداں سوزی سے، نہ کسی کے واویلا سے نہ کسی کی التجاء سے، نہ کسی کے گفتار سے نہ کسی کے کردار سے۔ جمی رہی ہے سالہا سال سے۔ ”برف کا زمانہ“ شاید ایسا ہی رہا ہو۔ جب ساری روئے زمین برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ شش جہات جمی ہوئی برف۔ انسانی جذبات، احساسات، خیالات، تمناؤں، آرزوؤں اور حسرتوں سمیت برف ہی برف!

وائے یار من! کیا کہویں۔ یاں تو بے موسم و بے برف بھی جم جاتی ہے۔ اور ایسا ”نمک پاشی“ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں مخلوق خداوندی کو کسی محدود خطۂ ارض میں مقید کیا جاتا ہے۔ آپ اسے زمستان کہیے یا ذمہریر۔ پھر ان کے لاکھ نہ چاہنے کے باوجود ان کے اجسام و ارواح کی خوب نمک پاشی کی جاتی ہے۔ کیونکہ نمک ہی وہ واحد شے ہے جو کسی سرد وجود کو جمائے رکھنے میں کارآمد ہے۔ اور جب زمستان کے باشان اس قدر نمک پاشی کے عادی ہو گئے ہوں تو پھر وہ بھی بے حس و حرکت کسی برف کی سل کی طرح پڑے رہنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ قطرہ قطرہ پگھل رہے ہیں اور قطرہ قطرہ ہی جی رہے ہیں۔ برف کی یہ لاشیں جس جگہ پگھل جاتی ہیں وہیں ناسور بنتا ہے، اور پھر اس ہیبت ناک ناسور پہ وہی ”نمک بر جراحت“ کے کامیاب آپریشن کیے جاتے ہیں۔ ویسے بھی یاں ”نونۂ دراغ“ بہت مشہور ہے۔ آپ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے!

داد دیتا ہے میرے زخم جگر کی واہ واہ!
یاد کرتا ہے وہ مجھے دیکھے ہے جس جا نمک
چھوڑ جانا تن مجروح عاشق حیف ہے۔
دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگیں ہیں اعضاء نمک۔

جس ناسور پہ نمک پاشی سے اثر نہیں ہوتا، وہاں تکنیکی طور جمائی جاتی ہے۔ ”دی ماڈرن وے آف ریفریجیریشن“ ۔ حیاتیاتی قلفیاں۔ سالم و ثابت، ہٹے کٹے، خوبرو اور گبرو جوان تک جمائے جاتے ہیں۔ بے یار و مددگار، بے فرن و شلوار۔ یا تو ٹھنڈ سے جمائے جاتے ہیں یا ”کولڈ شولڈر“ سے۔ گاہے برف پھسلتی ہے تو پھر دب بھی جاتے ہیں۔ یا دبائے جاتے ہیں۔ ہائے! ان برف کے تودوں کا بھی ستیاناس ہو اور ان سر خانوں مین بھی آگ لگ جاوے۔

میاں جان عزیز! جی تو چاہوے کہ کچھ اپنی سناؤں۔ کچھ آپ سے سننے کی استدعا کروں۔ مگر مجھے تو ان بے چارے ٹھنڈ کے ماروں کا غم کھائے جا رہا ہے۔ ”ہمالیائی شیت لہروں“ کے کارن ان کی ہڈیاں تک گل گئی ہیں۔ ان کا اپنا بھی قصور ہے میاں۔ جب انسانوں کی اپنی ہستی ان کے اذہان سے فراموش ہو جاتی ہے تو پھر وہ جم جاتے ہیں۔ برف کی موٹی موٹی چادروں تلے۔ اپنی ہستی اور وجود کی تکفیر اور تکذیب جذبوں کو یخ بناتی ہے۔ جس طرح روح کے نکل جانے سے جسم مردہ ہوتا ہے، اسی طرح جذبات کی تکفیر اور تکذیب سے ہستی کی نفی ہوتی ہے۔ جب روح میں روح کے اوصاف باقی نہ رہیں تو روح مردہ ہو جاتی ہے۔ جب روح اپنے خواص کھو بیٹھے تو اس کے تابع جسم ٹھنڈا ہی تو ہے۔ برف کی طرح۔ عالم رواں میں ایسی ارواح کی مشغولیت اور ان کی کارگزاری سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

جب عقل اور وجود اور سب سے بڑھ کر منزل مقصود سے بیگانگی جذبہ و یقین کو یخ بناتی ہے تو پھر تمازت سے بھرے پرے خورشید کا پرتو بھی بے سود ہوتا ہے۔ جب انسان برف کی لاش کی طرح انسانی قدروں اور انسانی جذبات سے بے بہرہ، بے پروا اور ہر ایک قربانی کے جذبے اور مواسات کی خصلت و احساس سے عاری ہو کر کسی جمے ہوئے گلیشیئر کی طرح حالات کے ظالم موسموں کے تابع ہو جائے تو پھر محبتوں اور گرم جوشیوں کے کہکشاں بھی ان مردہ تودوں کو پگھلانے میں ناکام رہتے ہیں۔

پھر کوئی سورج چرخ نیلی فام تلے اپنی کرنوں کو یونہی ضائع نہیں کرے گا۔ پھر کوئی عشق و جذبات کی بھٹی جمے ہوئے برفانی پتلوں کو حیات جاودانی نہیں بخشے گی۔ پھر کوئی مبارک عصاء پھسلتی ہوئی قوم اور ملت کو کفر و تکذیب کے مقابلے میں کوئی سہارا نہیں دے سکتی۔ پھر کوئی مرد درویش فقر و غنا کی تپش سے مردہ روحوں کو بقا و دوام نہیں دے سکتا۔پھر جبر و استبداد، مکر و قہر، عذاب و درد، ستم ظریفی و بے وفائی جیسی ہولناکیاں اس قوم کی تقدیر ہوتی ہے۔

چچا کیا بتاویں۔ امسال تو یاں کچھ زیادہ ہی جمی۔ نل جمے۔ نلیاں جمیں۔ ٹینک و ٹینکی، تیغ و تفنگ، تیر و کمان، قلم دوات، ہل ٹریکٹر، کرسی، بلا، ریذیڈینسی، پریذیڈینسی، شاہی، پادشاہی، گلمرگ، ٹنگمرگ، فارسی، ٹنگہ فارسی، انگریزی، اردو، گالف کورس، مردانہ کورس، زنانہ کورس، ۔ مطلب سب جمادات و نباتات اور موجودات۔ اب بھی جمی پڑی ہے۔ ملک کشمیر نہ ہو ملک سائیبیریا ہو۔ ہائے ہائے۔ اب اگر اللہ میاں ڈاکٹر منیب الرحمٰن کی ہی سن لیتے۔

برف گرتی ہے اور بچوں نے برف کا آدمی بنایا ہے
ہو گیا ہے سفید ہر منظر ہر طرف اک سکوت چھایا ہے
وہ اکیلا کھڑا ہے میداں میں غیر مانوس، اجنبی، گم نام
اس کی آنکھیں فضا میں تکتی ہیں بے نوائی ہے اس کا طرز کلام
ایک جنس فضول، اس کا وجود زندگی اس کی بازی طفلاں
بے تکا سا لباس پہنے ہوئے سب کی خاطر مذاق کا ساماں
سردی روزگار خو اسکی آئی باد شمال راس اسے
شل ہوئی روح اس کی جاڑے سے جیسے جاتی رہی ہو آس اسے
پھر بھی اس کو خیال آتا ہے کاش اب یہ سماں بدل جائے
اس پہ خورشید کی نگاہ پڑے اور اس کا بدن پگھل جائے

جان من! رخصت چاہتا ہوں۔ کچھ گرم سرد کہہ چکا تو درگزر فرمائے گا۔ ”تاپ مان“ ہی کچھ ایسا ہے کہ ادھر ادھر کی نکل جاتی ہے۔ یہ وہ آتش ہے کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے۔ دل کرے تو پھر ملک کشمیر آنا۔ نئے گلیاروں میں گھماویں گے۔ تاپ مان گر ہی جاوے گا۔ فرن پہناویں گے۔ کچھ تو میاں دلی کی آگ سے راحت ہو گی۔ اور کچھ ٹھنڈے شکن آلود روحوں کی سنگت نصیب ہو گی۔ پھر جمے رہنا ہماری طرح۔ قلفی کی مانند۔ رب راکھا!

جمے رہنے پہ کمر بستہ
آپ کا خستہ حال یخ بستہؔ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).