سینٹ الیکشن: یوسف رضا گیلانی کی ”انٹری“


گیم مزے دار ہے۔ جیت بالآخر کسی کی بھی ہو اپنے تئیں کافی رونق لگادے گی۔ عمومی تاثر یہ پھیلے گا کہ ہماری سیاست کے ”مہاشاطر“ مشہور ہوئے ”سب پہ بھاری“ نے لگائی ہے۔ ٹھوس اطلاعات کی بنیاد پر اگرچہ یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ اس گیم کا آئیڈیا پیپلز پارٹی ہی کے نسبتاً نیویں نیویں ”رہنے والے ایک رہ نما نے سوچا ہے جو“ سینئر سیاستدان ”بھی شمار نہیں ہوتے۔ بلاول بھٹو زرداری کو ان کا آئیڈیا پسند آیا۔ اپنے والد کی گماں ہوتا ہے کہ بالآخر تائید بھی حاصل کرلی۔

ان صاحب کا نام جنہوں نے یہ گیم سوچی ہے مجھے معلوم ہے۔ فی الوقت لکھنا مگر مناسب نہیں وگرنہ اس ضمن میں مزید خبریں نہیں ملیں گی۔ بہرحال ہوا یہ تھا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ایک فرزند قاسم گیلانی جنہوں نے حال ہی میں اپنے شہر ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسے کا اہتمام کرتے ہوئے انتظامیہ سے ”اٹ کھڑکا“ کے ذ ریعے میڈیا میں شہرت کمائی اس امکان کا جائزہ لے رہے تھے کہ پنجاب سے سینٹ کا رکن منتخب ہونے کی کوشش کی جائے۔ ”دوستوں“ سے روابط ہوئے تو ان صاحب نے جن کا نام لکھ نہیں رہا فرزند گیلانی کو مشورہ دیا کہ پنجاب میں منتخب ہونے کے بجائے اسلام آباد کو آزمایا جائے۔ سینٹ کی وفاق سے خالی ہونے والی دونشستوں کا انتخاب قومی اسمبلی کے ذریعے ہونا ہے۔ قاسم گیلانی کے بجائے یوسف رضا گیلانی اگر خود میدان میں اترے تو ایک سیٹ جیت کر دنیا کو حیران کر سکتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم اس تجویز کی بابت ابتدا تیار نہ ہوئے۔ کافی سوچ بچار کے بعد آمادہ ہوئے۔ حتمی فیصلہ مگر اب بھی نہیں کیا ہے۔ امید ہے کہ جمعرات کے روز اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد ذہن بنالیں گے۔

قومی اسمبلی میں 342 نشستیں ہیں۔ تحریک انصاف اور اس کے حامیوں کو یہاں 180 اراکین کی حمایت میسر ہے۔ یہ تعداد حکمران جماعت کو سینٹ کی آئندہ ماہ خالی ہونے والی نشستوں کے حوالے سے واک اوور (Walk Over) والا اعتماد فراہم کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف کی صفوں میں سے تاہم 30 کے قریب اراکین قومی اسمبلی ”خودمختار“ ہونے کو بے چین ہیں۔ وہ ڈیرے اور دھڑوں کی سیاست کرتے ہیں۔ ”بکاؤ مال“ ہرگز نہیں۔ اصل گلہ یہ ہے کہ ان کی وفاداری کو Taken for Grantedلیا جاتا ہے۔ عمران حکومت میں تگڑے عہدے ”حلقے کی سیاست“ کے محتاج سیاست دانوں کے بجائے غیر منتخب مشیروں کو سونپ دیے گئے ہیں۔ وہ ”عوامی نمائندوں“ کو میسر نہیں ہوتے۔ عمران خان صاحب مگر ان ہی میں سے دو افراد کو سینٹ کے لئے منتخب کروانا چاہیں گے اور خواہش مند ہوں گے کہ تحریک انصاف کے حامی ان کی حمایت میں سرجھکاکر انگوٹھے لگادیں۔ گیلانی صاحب میدان میں اترے تو بے تحاشا پرانے اور کئی صورتوں میں خاندانی تعلق اور واسطوں کی بدولت ہلچل مچا سکتے ہیں۔ سرائیکی وسیب کا حوالہ بھی ان کے کام آئے گا۔

اپوزیشن کی قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ ہے۔ غیر رسمی وسیلوں سے نواز شریف صاحب سے رابطے ہوئے تو گیلانی صاحب کو پیغام پہنچادیا گیا کہ وہ اگر خود میدان میں اترے تو حمایت فراہم کردی جائے گی۔ تعلق مولانا فضل الرحمن کا بھی گیلانی صاحب سے بہت پرانا ہے۔ ان کے والد مفتی محمود صاحب ملتان کے ایک جید مدرسے کے استاد رہے ہیں۔ مولانا نے بھی اپنی تعلیم اسی شہر میں پائی ہے۔ مولانا تاہم یوسف رضا گیلانی کو سینٹ کی نشست جیتنے کے لئے قومی اسمبلی کے میدان میں اتارنا نہیں چاہیں گے۔ انہیں ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر شک ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی جیت یقینی بنانے کے لئے گجرات کے چودھریوں پر بھی انحصار کیا جا رہا ہے۔ غالباً اسی باعث چند ہی دن قبل انہوں نے ”آج“ ٹیلی وژن کی عاصمہ شیرازی کو انٹرویو دیتے ہوئے چودھریوں کو ”ناقابل اعتبار“ قرار دیا۔ دسمبر 2019 میں جب وہ ”آزادی مارچ“ لے کر اسلام آباد آئے تھے تو انہیں عمران خان صاحب کا استعفیٰ لئے بغیر یہ شہر چھوڑنے کو چودھری برادران ہی نے مائل کیا تھا۔ مولانا کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ ہوئے وعدوں پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ چودھریوں پر اعتبار کرنے کو وہ اب کسی صورت تیار نہیں۔

چودھریوں کی حمایت ومعاونت کو یقینی بنانے کے لئے وزیر اعظم صاحب نے حال ہی میں چودھری پرویز الٰہی سے اسلام آباد میں ایک طویل ملاقات بھی کی ہے۔ اس ملاقات کے نتیجے میں تاثر یہ پھیلا کہ پنجاب اسمبلی سے سینٹ کی خالی ہونے والی نشستوں میں سے تحریک انصاف کے لئے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی ذمہ داری پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے کاندھے پر ڈال دی گئی ہے۔ اگرچہ ان کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں۔ ”خدمات“ کے عوض چودھری صاحب نے اپنی جماعت کے کامل علی آغاکے انتخاب کی حمایت بھی حاصل کرلی۔ نظر بظاہر ایسے ”مک مکا“ کے بعد چودھریوں کے لئے یقیناً مشکل ہوگا کہ وہ قومی اسمبلی میں ہوئے انتخاب کے دوران اپنے لوگوں کو خاموشی سے گیلانی صاحب کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کا حکم صادر کریں۔ پیپلز پارٹی کو اب مولانا کو قائل کرنا ہوگا کہ چودھریوں کی حمایت کے بغیر بھی ”خفیہ“ ووٹ کی برکت سے یوسف گیلانی کو سینٹ کے لئے تحریک انصاف کے ”خودمختار“ گروہ کی حمایت سے منتخب کروایا جاسکتا ہے۔ مولانا قائل ہو گئے تو گیلانی صاحب اپنا ووٹ ملتان سے اسلام آباد منتقل کروانے کے بعد سینٹ انتخاب کی تیاری شروع کردیں گے۔ ملتان سے گیلانی صاحب کا ووٹ اسلام آباد منتقل کروانا ”بریکنگ نیوز“ ہوگی۔ واضح انداز میں عندیہ دے گی کہ سابق وزیراعظم اسلام آباد سے سینٹ کے لئے منتخب ہونے کو ذہن بناچکے ہیں۔ اس کی بدولت ”سیاسی مبصرین“ ٹی وی سکرینوں پران کی جیت کے امکانات کا جائزہ لینا شروع ہوجائیں گے۔

قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کی تعداد کو ذہن میں رکھیں تو گیلانی صاحب کی جیت ناممکن نظر آتی ہے۔ وطن عزیز کی سیاست میں تاہم نظر آنے والے ”حقائق“ کو اکثر نظرانداز کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ”حقائق“ کی حقیقتاً اگر کوئی وقعت ہوتی تو صادق سنجرانی اسی روز اپنے منصب سے مستعفی ہو جاتے جب 104 اراکین پر مشتمل ایوان بالا میں 64 اراکین کی حمایت والی اپوزیشن جماعتوں نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔ سنجرانی صاحب مگر اپنے خلاف پیش ہوئی تحریک کا سامنا کرنے کو ڈٹ گئے۔ بالآخر خفیہ رائے شماری کی برکت سے اپنے عہدے پر براجمان رہے۔ گیلانی صاحب کے ضمن میں ویسی ہی ”برکت“ بروئے کار آ سکتی ہے۔

خفیہ رائے شماری کے طفیل وہ اگر سینٹ کے رکن منتخب ہو گئے تو بنیادی پیغام یہ جائے گا کہ عمران خان صاحب کو قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت میسر نہیں رہی۔ انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لئے لہٰذا تحریک عدم اعتماد پیش کرنا چاہیے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے قبل اگرچہ اپوزیشن جاعتیں گیلانی صاحب کو سینٹ بھجوانے میں کامیاب ہوجانے کے بعد انہیں ایوان بالا کا چیئرمین منتخب کروانے کی گیم بھی کھیل سکتی ہے۔ بالآخر وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوں یا نہیں لیکن عمران حکومت کے بارے میں ایسی چالوں کی بدولت ”صبح گیا یا شام گیا“ والا ماحول ہر صورت بنایا جاسکتا ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).