ریحانہ کی انڈین کسانوں کے احتجاج سے متعلق ٹویٹ پر سوشل میڈیا رد عمل


امریکی گلوکارہ ریحانہ کی جانب سے انڈیا میں جاری کسانوں کے احتجاج سے متعلق ٹویٹ نہ صرف بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہے بلکہ اس پر انڈیا سے کافی ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔

اپنی ٹویٹ میں انھوں نے دنیا کی توجہ انڈیا میں جاری اس احتجاج اور اس میں موجود مظاہرین کی انٹرنیٹ تک رسائی محدود کیے جانے کی طرف دلائی ہے۔

امریکی گلوکارہ نے سی این این کی خبر ٹویٹ کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ ’ہم اس بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے؟‘ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کسانوں کے احتجاج کا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا ہے۔

یاد رہے کہ سنگھو، غازی پور اور ٹکڑی بارڈر کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سروسز دو فروری تک کے لیے معطل کر دی گئی تھیں اور صحافیوں، میڈیا افراد اور مظاہرین کو احتجاج کی جگہ پر انٹرنیٹ کے استعمال میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

انڈیا میں کسان زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس احتجاج کے دوران 26 جنوری کو کسان پریڈ میں پرتشدد واقعات پیش آئے تھے۔ انڈیا میں کسانوں کا دعویٰ ہے کہ 26 جنوری سے اب تک 100 سے زیادہ مظاہرین لاپتہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں کسانوں کی تحریک سے متعلق ٹوئٹر اکاؤنٹس پر پابندی کی وجہ کیا ہے؟

انڈیا کے کسان آخر چاہتے کیا ہیں؟

کیا لال قلعہ جس کے قبضے میں ہو، ہندوستان اس کا ہے؟

کیا کسانوں نے دلی کے لال قلعہ سے انڈین جھنڈا اتار کر خالصتان کا پرچم لہرایا تھا؟

ریحانہ

ریحانہ نے اپنی ٹویٹ میں انڈیا میں جاری کسانوں کے احتجاج سے متعلق سوال کیا ہے

سوشل میڈیا پر ردعمل

امریکی گالوکارہ کی ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے محمد آصف خان کا کہنا تھا ’ہماری انڈین سیلبریٹیز کہاں ہیں؟‘

جس پر نوشے کا کہنا تھا کہ ’ان میں لوگوں کی جانب سے جوابی منفی رد عمل کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں ہے، یہ تو شواہد سے واضح ہے کہ آپ انڈین حکومت کے خلاف جائیں تو آپ کو فوراً قوم مخالف قرار دے کر سنگین نتائج کی دھمکی دی جاتی ہے۔‘

ایک سوشل میڈیا صارف صُمن سبربھ کا کہنا تھا ’اب انڈیا کی کسی نہ کام کی سلیبریٹیز خود کو اس معاملے میں ملوث نہیں کریں گی کیونکہ وہ خطرہ مول لینا نہیں چاہیں گے۔ وہ پہلے ہی سشانت سنگھ راجپوت کے معاملے میں ہر جانب سے بائیکاٹ کے باعث متزلزل ہو چکے ہیں، وہ صرف فلموں کی تشہیر کریں گے۔‘

یوور ریشبھ نامی ایک ٹوئٹر صارف نے ریحانہ کو جواب دیتے ہوئے پولیس اہلکاروں کے حق میں ٹویٹ کی۔ ان کا کہنا تھا ’کیونکہ ہم ان مظاہرین کے ہاتھوں زخمی ہونے والے پولیس والوں کا علاج کرنے میں مصروف ہیں۔ جب ہم فارغ ہو جائیں گے تو اس بارے میں بات کر لیں گے۔‘

ریحانہ کی ٹویٹ کے جواب میں ان پر طنز کرتے ہوئے پرنوو مہاجن کا کہنا تھا ’کیونکہ ایک انسان کو اُس مسئلہ کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے جس کا اسے علم نہ ہو۔‘

سندھیا دتہ کو بھی رحیانہ کی ٹویٹ پسند نہیں آئی ان کا کہنا تھا ’یہ مغرب کی نام نہاد سلیبریٹیز سمجھتی ہیں کہ انھیں ہر چیز پر بولنے کا حق حاصل ہے۔ انہیں پہلے تو صرف اپنے ملک کی فکر کرنی چاہیے جہاں اس وقت مسائل کے انبار ہیں۔‘

وہیں رسمے سنگھ یہ بتاتی نظر آئیں کہ ریحانہ دراصل ’وہ آگہی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس کی اس احتجاج کو ضرورت ہے، دنیا کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔‘

پولیس جھڑپیں

جبکہ دہلی پولیس کے مطابق کسانوں کے احتجاج سے وابستہ 115 کسان دہلی کی تہاڑ جیل میں ہیں۔

کسان رہنماؤں نے کہا ہے کہ ’ان لوگوں کا طبی معائنہ نہیں کرایا گیا تھا اور ہم نے وزارت داخلہ سے ایک میڈیکل ٹیم تشکیل دینے اور ان کسانوں کا طبی معائنہ کرنے کی درخواست کی ہے۔‘

کسان رہنماؤں نے کہا ’ہماری فہرست دہلی پولیس کی فہرست سے مماثلت نہیں رکھتی ہے۔ بہت سارے نام ہیں جو ہماری فہرست میں ہیں لیکن پولیس کی فہرست میں نہیں۔ اب تک 29 افراد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘

کیا پولیس نے لوہے کے راڈ استعمال کیے؟

سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کی جارہی ہے جس سے تنازع کھڑا ہوگیا ہے اور دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ کسی بھی جوان یا افسر کو لوہے کے راڈ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی دہلی پولیس اسے استعمال کرنے جارہی ہے۔

ایڈیشنل پولیس کے ترجمان انیل متل نے بی بی سی کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر جو تصویر شیئر کی جارہی ہے وہ شاہدرہ کی ہے جہاں مقامی سطح پر ایک پولیس افسر نے تلوار کے حملوں سے بچنے کے لیے لوہے کے راڈ کے استعمال کی اجازت طلب کی تھی۔

کسانوں کا احتجاج اکتوبر تک جاری رہے گا

انڈین کسان یونین کے ترجمان اور کسان رہنما راکیش تاکیٹ نے کہا ہے کہ کسانوں کا احتجاج اکتوبر کے مہینے تک جاری رہ سکتا ہے۔ دہلی، اترپردیش کے غازی پور بارڈر پر مرکزی حکومت کے زرعی قوانین کی مخالفت کرنے والے کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے متنبہ کیا کہ ’جب تک حکومت تینوں زرعی قوانین کو نافذ نہیں کرتی ہے، کسانوں کا احتجاج ختم نہیں ہوگا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کسانوں کا مظاہرہ رواں سال اکتوبر سے پہلے ختم نہیں ہوگا‘۔

غازی پور بارڈر کے ساتھ بڑی تعداد میں پولیس فورس کی تعیناتی کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’حکومت کو محاصرہ کرنے دیں۔ کسانوں کو روکنے کے حکومتی حکمت عملی پر ردعمل ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے کھیتوں کی پیداوار بازاروں تک پہنچنے میں رکاوٹ آئے گی اور اس سے عام لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp