عالمی مسائل کے عالمی جواب درکار ہیں


(یوول نوح حراری – مترجم: زبیر لودھی)

یہ حقیقت عیاں ہے کہ پوری انسانیت اب ایک ہی تہذیب کی تشکیل کر رہی ہے، تمام لوگوں کو یکساں چیلنجز کا سامنا ہے اور مواقع مشترک ہیں۔ لیکن پھر بھی برطانوی، امریکی، روسی اور متعدد دوسرے گروہ قوم پرست تنہائی کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں؟ کیا قوم پرستی کی طرف لوٹنا ہماری عالمی دنیا کے بے مثال مسائل کا اصل حل پیش کرتا ہے یا یہ ایک ایسی فرار پسندی ہے جس سے انسانیت اور پوری حیاتیات کو تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں پہلے ایک وسیع افسانہ کو رد کرنا چاہیے۔ ایک عام خیال ہے برعکس قوم پرستی نہ تو انسانی نفسیات کا فطری اور ابدی حصہ ہے اور نہ ہی اس کی جڑ انسانی حیاتیات میں ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ انسان اپنے جینز کے مطابق گروہی وفاداری کے ساتھ ساتھ معاشرتی جانور بھی ہیں۔ تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ ہومو سیپئنز اور اس کے حوثی قبیلوں نے سیکڑوں ہزاروں سالوں تک ایسے گروہوں میں وقت گزارا ہے جن میں افراد کی تعداد چند درجن سے زیادہ نہیں تھی۔ انسان آسانی سے چھوٹے گروہوں (جیسے کسی قبیلے، پیدل چلنے والی کمپنی یا خاندانی کاروبار) سے وفاداری پیدا کرتا ہے، لیکن انسانوں کے لئے لاکھوں اجنبی افراد کا وفادار ہونا قدرتی امر نہیں ہے۔ اس طرح کی عوامی وفاداری صرف گزشتہ چند ہزار سالوں میں ہی ظاہر ہوئی ہے۔

لوگوں نے اجتماعی طور پر قومی اداروں کی بنیاد اس لیے رکھی کیونکہ انہیں ایسے مسائل کا سامنا تھا جن کا مقابلہ کوئی ایک قبیلہ انفرادی طور پر نہیں کر سکتا تھا۔ اس سلسلے میں ان قدیم قبائل کو دیکھا جاسکتا ہے تو ہزاروں سال قبل دریائے نیل کے کنارے آباد تھے۔ ان کے لیے دریا زندہ رہنے کے لیے خون کی مانند تھا۔ اس دریا نے ان کے کھیتوں کے سیراب کیا اور کاروبار زندگی کو رونق بخشی۔ لیکن یہ ایک ایسا اتحادی تھا جس کے بارے میں کچھ پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی تھی۔

اگر بارشیں بہت کم ہوتی تو لوگ پانی کی کمی کے سبب فصلیں کاشت نہ کر پاتے اور بھوک سے مر جاتے، لیکن دوسری اگر بہت زیادہ بارشیں ہوجاتی تو دریا اپنے کناروں کو ساتھ بہا لے جاتا اور پورے کا پورا گاؤں برباد ہوجاتا۔ کوئی قبیلہ اکیلا اس مسئلے کا حل نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ ہر ایک قبیلے کے پاس دریا کے ایک چھوٹے سے حصے کا کنٹرول تھا اور زیادہ سے زیادہ چند ایک سو مزدور رکھتا تھا۔ اس لیے ایک بڑا ڈیم بنانے اور سینکڑوں کلومیٹر نہر کھودنے کی ایک مشترکہ کوشش ہی سے طاقتور دریا کو روکنے اور اس کو سدھانے کی امید کی جا سکتی تھی۔ یہ ایک وجہ ہے جس کی بدولت قبائل آہستہ آہستہ ایک واحد قوم میں ڈھلتے گئے، جس سے انہیں ڈیموں اور نہروں کی تعمیر، دریاؤں کے بہاؤ کو قابو کرنا، سال بھر کے لیے اناج ذخیرہ کرنا اور ملک بھر کے لیے نقل و حمل اور مواصلات کے نظام قائم کرنے کی طاقت ملی۔

ان سب فوائد کے باوجود (نہ تو قدیم زمانے میں او ر نہ ہی آج) قبائل کو ایک قوم میں تبدیل کرنا کبھی بھی آسان نہ تھا۔ اس حقیقت کے ادراک کے لیے ایک قوم کے طور پر اپنی شناخت بنانا بہت مشکل تھا۔ آپ کو خود سے ایک سوال پوچھنے کی ضرورت ہے، کیا میں اپنے ارد گرد موجود ان سب لوگوں کو جانتا ہوں؟ میں تو محض اپنی دو بہنوں اور گیارہ کزنوں کو جانتا ہوں اور سارا دن ان کی ذات اور ان کے دوستوں کے بارے میں بات کر سکتا ہوں۔

جبکہ میں اپنے ساتھ موجود آٹھ ملین اسرائیلیوں کے نام تک نہیں جانتا ہوں اور نہ ہی مستقبل میں ان سے ملنے کا کوئی امکان بھی ہے۔ بہرحال اس گروہ کے ساتھ میرا اشتراک میرے شکاری آبا کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ حالیہ تاریخ کا معجزہ ہے۔ ایک مثالیت پسند بیالوجسٹ جو صرف ہومو سیپئنز کی اناٹومی اور ارتقاء سے واقف ہیں وہ کبھی بھی اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں کہ یہ لاکھوں اجنبیوں کے ساتھ تعلقات بنانے کے قابل ہیں۔ مجھے اس بات پہ قائل کرنے کے لیے کہ مجھے اسرائیل اور اس کے آٹھ لاکھ باشندوں کے ساتھ وفادار رہنا ہے، صہیونی تحریک اور اسرائیلی ریاست کو تعلیم، پروپیگنڈے اور پرچم لہرانے کیساتھ ساتھ قومی سلامتی، صحت اور بہبود کے نظام کو تیار کرنا پڑا۔

میری اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ قومی اتحاد میں کوئی برائی ہے۔ بڑے بڑے نظام وفاداری کے گہرے احساس کے بغیر نہیں چل سکتے اور انسانی ہمدردی کے احساس کو پروان چڑھانے کے یقیناً اچھے پہلو بھی ہیں۔ معمولی سطح کی حب الوطنی بھی انسانی تخلیقات میں سب سے زیادہ فلاحی ہے۔ اس احساس پر یقین رکھتے ہوئے کہ میری قوم باقی اقوام سے منفرد ہے، اس لیے یہ میری وفاداری کی مستحق ہے اور اس کے باقی باشندوں کا احساس کرنا میرا خاص فرض ہے۔

یہ تمام تر جذبات مجھے دوسروں کی پرواہ کرنے اور ان کی طرف سے قربانیاں دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ تصور کرنا سنگین غلطی ہوگی کہ قومیت پرستی کے تصور کے بغیر ہم لبرل حیثیت میں جی رہے ہوں گے۔ بلکہ قوی امکان ہے کہ ہم قبائلی دور کے انتشار بھری دنیا میں رہ رہے ہوں گے۔ سویڈن، جرمنی اور سوئزرلینڈ جیسے پرامن، خوشحال اور لبرل ممالک سبھی قوم پرستی کا مضبوط احساس رکھتے ہیں۔ مضبوط قومی اتحاد سے محروم ممالک کی فہرست میں افغانستان، صومالیہ، کانگو اور دیگر ناکام ریاستیں شامل ہیں۔

مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بے ضرر نیشنل ازم کو جنونی قوم پرستی میں بدل دیا جاتا ہے، یہ سمجھنے کی بجائے کہ میری قوم باقی اقوام سے منفرد ہے (جو کہ تمام اقوام کے لیے طے شدہ سچا احساس ہے) میں یہ محسوس کرنے لگوں کہ میری قوم سب سے اونچی ہے، اسی کے ساتھ میری ساری وفاداریاں جڑی ہیں، اس کے علاوہ میرا کسی اور قوم کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ احساس پرتشدد فسادات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ صدیوں سے قوم پرستی پہ ہونے والی تنقید کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ یہ تنازعات کی بنیاد ہے۔

پھر بھی قوم پرستی اور تشدد کے درمیان موجود قومیت پرستی کی زیادتیوں کو مشکل سے ہی روکا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر جب ہر قوم خود کو اپنے پڑوسیوں کی سازشوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے قومی توسیع کا جواز فراہم کرتی ہے۔ جب تک قوم نے اپنے بیشتر شہریوں کو بے مثال خوشحالی اور سلامتی فراہم کی تو وہ اس کی قیمت اپنے خون سے ادا کرنے کے لیے بھی تیار تھے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل تک بیسویں صدی کا معاہدہ بہت دلکش نظر آیا۔ اگرچہ قوم پرستی غیر معمولی پیمانے پر ہولناک تنازعات کا باعث بنی تھی، لیکن جدید فوجی ریاستوں نے صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور فلاح و بہبود کے بڑے پیمانے پر نظام بھی بنائے۔

1945 ء میں سب کچھ بدل گیا۔ ایٹمی ہتھیاروں کی ایجاد نے قوم پرست معاہدوں کے توازن کو بری طرح ہلا دیا۔ ہیروشیما کے بعد لوگوں کو اب یہ خوف نہ تھا کہ قوم پرستی محض جنگ کا باعث بنے گی، بلکہ وہ خوفزدہ ہونے لگے کہ جوہری جنگ کا سبب بنے گی۔ کلی خاتمہ کے احساس نے لوگوں کے ذہنوں کو جگایا (ایٹم بم کی کسی حد تک کمی کی بدولت) اور جو ناممکن تھا وہ امر ممکن ہو گیا اور قوم پرستی کا جن آدھے راستے میں سے واپس بوتل میں داخل کر دیا گیا۔

بالکل اسی طرح جیسے دریائے نیل کے ساحل کے قدیم دیہاتیوں نے اپنی کچھ وفاداریوں کو مقامی قبیلوں سے بہت بڑے ممالک میں منتقل کر دیا تھا۔ جو آخر کار خطرناک دریا کو روکنے میں کامیاب ہوا۔ بالکل اسی طرح اس جوہری توانائی کے دور میں آہستہ آہستہ ایک عالمی برادری مختلف اقوام کے اوپر اور ان سے بالاتر بن گئی، کیونکہ ایک ایسی جماعت ہی ایٹمی شیطان کو روک سکتی تھی۔

اس کے نتیجے میں سرد جنگ کے دوران قوم پرستی پیچھے ہٹ گئی اور بین الاقوامی سیاست کے عالمی نقطہ نظر کو جگہ ملی۔ جب سرد جنگ کا اختتام ہوا تو عالم گیریت کے مستقبل کے لیے ناقابل تلافی لہر محسوس کی گئی۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ انسان قوم پرستی کی سیاست مکمل طور پر پیچھے چھوڑ دے گا، کیونکہ یہ قدیم وقت کی یادگار ہوگی جو چند ایک پسماندہ ممالک کے باشندوں کے لیے کشش کا باعث ہوگی۔ تاہم حالیہ برسوں میں پیش آنے والے واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ یورپ اور امریکہ پر بھی روس، انڈیا اور چین کی طرح قوم پرستی کی مضبوط گرفت ہے۔ عالمی سرمایہ داری کی غیر متزلزل قوتوں سے الگ ہو کر (قومی، صحت، تعلیم اور فلاح و بہبود کے نظام کے مقدر سے خوفزدہ ہو کر) پوری دنیا کے لوگ قومیت کے تصور میں اطمینان اور سکون تلاش کرتے ہیں۔

اس سب کے باوجود، جانسن نے گل داؤدی کے اشتہار میں جو سوال اٹھایا تھا وہ آج کے دور میں اس سے کہیں زیادہ مناسب ہے۔ کیا ہم ایک ایسی دنیا کے وجود کو قائم کریں گے جہاں تمام انسان اکٹھے رہ سکیں یا پھر ہم سب تاریکی میں چلے جائیں گے؟ کیا ڈونلڈ ٹرمپ، تھریسا مے، ولادیمیر پوتن، نریندر مودی اور ان کے ساتھی قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دے کر دنیا کو بچا لیں گے یا پھر یہ موجود قوم پرست ہمارے سامنے موجود عالمگیر مسائل سے راہ فرار حاصل کرنے والے لوگ ہیں؟

اس سیریز کے دیگر حصےجرمن اور گوریلےجوہری چیلنج اور قوم پرستی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).