ایک عظیم آدمی کا قوم پر احسان


ہم باغیچے میں زرد گھاس کے فرش پر بیٹھے تھے۔ وہیں ایک طشتری میں چائے کے دو کپ پڑے تھے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور سرما کی نرم نرم دھوپ خوب لطف دے رہی تھی۔ میں نے ان کے چہرے پر چھائی طمانیت کو رشک سے دیکھتے ہوئے پوچھا ”میاں گل بادشاہ صاحب، آپ کی اس بے پناہ خوشی کا راز کیا ہے؟“

میرا سوال سن کر وہ کچھ دیر سوچتے رہے۔ انہوں نے خشک پڑے گھاس کے میدان پر نگاہ دوڑائی اور پھر ان کی نگاہ کچھ دور موجود کیاریوں کی قطار پر جم گئی جس میں مرجھائے ہوئے پھول اور بوٹے دنیا کی بے ثباتی کا مظہر تھے۔ چائے کی ایک چسکی لے کر انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے ”صاحب بات یہ ہے کہ خوشی دل کے اندر ہوتی ہے۔ بندہ وہ کام کرے جو اس کا دل کہتا ہے تو خوشی اس کا مقدر بن جاتی ہے“ ۔

میں نے حیران ہو کر کہا ”میاں صاحب، وقت کہاں ملتا ہے اپنی مرضی سے کچھ کرنے کو۔ سو غم ہوتے ہیں روزگار کے اور دوسری ذمہ داریوں کے“ ۔

انہوں نے قہقہہ لگایا اور پھر چائے کی ایک چسکی لے کر کہنے لگے “صاحب یہ تو بہانے ہیں۔ وقت ہر ایک کے پاس ہوتا ہے۔ روپے پیسے کا بندوبست خدا خود ہی کر دیتا ہے۔ شرط بس یہ ہوتی ہے کہ بندے کی نیت ہو کام کرنے کی۔ اب آپ مجھے ہی دیکھ لیں کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود بڑے بڑے منصوبے کامیابی سے مکمل کر لیتا ہوں۔ یہ سامنے دیکھیں میرا پراجیکٹ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا کہانی ہے؟”

میں نے سامنے موجود پراجیکٹ کو ایک مرتبہ پھر غور سے دیکھا۔ اس کے ارد گرد مداحوں کا ہجوم تھا جو بنانے والے کو داد دے رہے تھے۔ پھر ان سے سوال کیا ”کیا کہانی ہے اس کے پیچھے؟“

وہ کہنے لگے

صاحب ایک دن میں سارا دن کام کرنے کے بعد نڈھال ہوا پڑا تھا تو سوچنے لگا کہ زندگی کا کچھ مقصد ہونا چاہیے۔ یہ کیا کہ ہر روز صبح سے شام تک ایک ہی کام کرتے رہو۔ میرا حال بھی ان مرجھائے ہوئے پھولوں کی طرح ہے۔ اب میں آج مر جاؤں تو مٹی میں مل جاؤں گا۔ بال بچے بھی کچھ عرصے بعد مجھے بھلا دیں گے۔ کچھ ایسا کام کرنا چاہیے کہ میرا نام تاریخ کے پنوں پر ثبت ہو جائے۔ اپنے لیے تو سب جیتے ہیں۔ دوسروں کے لیے زندہ رہنے والے نایاب ہیں۔ اگر مجھے ایک پرمسرت زندگی گزارنی ہے اور ہمیشہ زندہ رہنا ہے تو کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ جو بھی دیکھے کہے کہ یہ بڑا کام میاں گل بادشاہ نے کیا تھا۔

کیوں نہ کوئی ایسا کام کروں جس سے قوم اور دنیا کو فائدہ پہنچے اور میرا نام بھی امر ہو جائے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ آمدنی قلیل تھی، چیل کے گھونسلے میں ماس مل جائے گا مگر میرے بٹوے میں نوٹ نہیں۔ خواب اونچے تھے۔ اب اگر میں آپ جیسا ہوتا تو ہمت ہار دیتا لیکن میں ثابت قدم رہا اور اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے میں جت گیا۔

سب سے پہلے میں نے میں نے ساتھی بلائے کہ ایک اور ایک مل کر گیارہ ہو جاتے ہیں۔ ہم نے باہم مشورہ کیا اور ایک ایسا عظیم الشان پراجیکٹ بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو قوم کی امنگوں کی ترجمانی کرے۔ لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آئیں۔ اس کے ساتھ سیلفیاں کھنچوائیں۔ یہ یاد رکھیں کہ پاکستان کس مقصد کے لیے بنا تھا۔ انہیں وطن عزیز اور عالم انسانیت کے لیے ہماری محبت اور عقیدت اس پراجیکٹ سے چھلکتی دکھائی دے۔

سب سے پہلے تو ہم نے اس پرشکوہ پراجیکٹ کا ڈیزائن تیار کیا۔ پھر اس پر آنے والے خرچے کا حساب کتاب کیا۔ ہم نے چندہ کیا تو قیمت کا ایک فیصد بھی اکٹھا نہیں ہوا تھا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ ہم پراجیکٹ کے لیے فنڈ جنریٹ کرنے کا انتظام کرنے کے لیے ایک مہم چلائی گئی۔ قطرہ قطرہ کر کے دریا بن گیا۔ ہم نے ماہرین سے بات کی تو وہ کھال اتارنے کو تیار تھے۔ یہ دریا بھی چھوٹا پڑ گیا۔ اب آپ جیسا کوئی ہوتا تو ہمت ہار دیتا، لیکن میاں گل بادشاہ نے ہمت نہیں ہاری۔ سوچا کہ یہ بڑا کام میں خود ہی کر لیتا ہوں۔

اللہ کا نام لے کر شروع کر دیا۔ ساتھیوں نے ہاتھ بٹایا۔ اور آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ پراجیکٹ مکمل ہو چکا ہے۔ اس کی تمام تعمیر ہم نے اپنے ہاتھوں سے کی۔ فنڈ جنریشن کی۔ اس کا رنگ روپ نکھارا۔ اس کی مارکیٹنگ کی۔ دور دور سے ٹی وی چینل اسے دیکھنے آ رہے ہیں۔ لوگوں میں یہ بے انتہا مقبول ہو چکا ہے۔ اور کمال دیکھیں کہ یہ اسی قلیل وقت میں کیا جو ہمیں میسر تھا۔ ہم نے کام دل لگا کر کیا اور خدا نے ہماری مدد کی۔ اب پوری قوم ہمارے نام کی مالا جپ رہی ہے۔

میں بہت ایمپریس ہوا۔ ”میاں گل بادشاہ صاحب، آپ کی محبت اور عقیدت دیکھ کر دل بھر آیا۔ اچھا، آپ نے اتنا بڑا پراجیکٹ کامیابی سے مکمل کر لیا۔ آپ یہاں کس پوسٹ پر ہیں؟“

”جی میں یہاں گریڈ چار میں مالی لگا ہوا ہوں اور اپنے ڈیوٹی کے اوقات میں ہی ہم ساتھیوں نے سب کام چھوڑ کر یہ عظیم الشان پراجیکٹ مکمل کیا ہے۔“ انہوں نے سوکھے گھاس کا تیلا توڑ کر ویران پڑی کیاری کی طرف اچھال دیا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar