یہ جگر گوشے کن کے ہیں؟


29 جنوری کے اخبارات میں ایک ہولناک خبر شائع ہوئی کہ شیخوپورہ کی 14 سالہ مصباح اقبال ٹاؤن نرگس ہلاک کی سارہ نامی خاتون کے ہاں ملازمہ تھی جو مردہ پائی گئی۔ پولیس کے مطابق اس کے جسم پر تشدد کے نشان تھے۔ لواحقین کے مطابق مصباح کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ اس کے ہاتھوں پاؤں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔

یہ صرف ایک مصباح کے خلاف جرم نہیں ہوا، آئے روز اخبارات میں ایسی کہانیاں چھپ رہی ہیں کہ گھروں میں کام کرنے والی بچیوں کو کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں یہ درندوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ نکھٹو والدین چھوٹی بچیوں کو گھروں میں ملازم رکھوا کر ان کی کمائی کھاتے ہیں۔ بعض لوگ مجبوریوں کے باعث بھی ایسا کرتے ہیں۔ ان گھروں میں چھوٹی چھوٹی بچیوں پر ”پالتو طوطا اڑادیا“ جیسی معمولی غلطیوں کی پاداش میں تشدد کیا جاتا ہے اور والدین پیسے لے کر صلح کرلیتے ہیں کچھ عرصہ قبل ایک بچی کی تصویر اخبارات میں شائع ہوئی جس کے بازو، چہرے، ٹانگیں جلی ہوئی تھیں۔

بچی نے بتایا کہ مالکن نے اسے استری سے جلایا ہے۔ ان ظالموں کو کوئی پوچھنے والا نہیں؟ یہ بچے بچیاں جن کے کھیلنے اور سکول جانے کے دن ہیں لوگوں کے گھروں میں جھاڑو دیتی اور پوچے لگاتی نظر آتی ہیں۔ ان پر ہر قسم کا تشدد روا رکھا جاتا ہے۔ امیروں کے بگڑے بچے ان کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کچھ کام کرتی ہے مگر محدود ہے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان بچوں کی باقاعدہ رجسٹریشن ہونی چاہیے۔

اس خبر سے مجھے واحدہ یاد آ گئی۔ کم و بیش 10 سال کی واحدہ کا تعلق پشاور کے قریب ایک گاؤں سے تھا۔ وہ مجھے ایدھی ہوم ملتان میں ملی جہاں میں ایدھی ہوم کے مکینوں پر ایک فیچر لکھنے گیا ہوا تھا۔ اس کی کہانی یہ تھی کہ اس کی پھوپھو لاہور کے کسی گھرانے میں ملازمہ تھی وہ اپنی اس بھتیجی کو بھی لے آئی اور ایک گھر میں ملازم کروادیا۔ ایک دن مالکن نے اسے کسی بات پر سخت مارا۔ وہ گھبرا کرباہر نکل گئی کہ وہ اپنی پھوپھی کے پاس چلی جائے گی لاہور کے انسانی جنگل میں اسے پھوپھی کہاں سے ملتی۔

ایک نیک دل شہری نے اسے روتے دیکھ کر پوچھا اور اپنے گھر لے گیا۔ اور پھر ایدھی ہوم کے سپرد کر دیا جہاں سے اسے ملتان بھیج دیا گیا۔ میں نے وہ فیچر ”نوائے وقت“ میں شائع کیا جس میں واحدہ کی تصویر بھی تھی۔ اس خیال سے کہ اس کا تعلق پشاور سے ہے میں نے اس کی تصویر ”نوائے وقت“ پنڈی میں بھی چھپوائی کہ شاید کسی کی نظر پڑجائے۔ مگر کوئی سامنے نہ آیا۔ کوئی چھ ماہ بعد مجھے پھر ایدھی ہوم میں جانے کا موقع ملا واحدہ ابھی تک وہیں تھی۔ میں نے اس فیچر کے ساتھ واحدہ کی تصویر پھر چھاپ دی۔

چند روز بعد مجھے ایدھی ہوم سے ڈاکٹر یوسف (مرحوم) کا فون آیا کہ واحدہ کے گھر والے آئے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ آپ دفتر نوائے وقت آجائیں۔ ہم بھی ادھر جا رہے ہیں۔ یہ سن کر میں جذباتی ہو گیا۔ آنکھیں بھر آئیں۔ واحدہ سے مجھے ایک قسم کا انس ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ آ گئے۔ اس کی پھوپھی بے اختیار ہو کر میرے گلے لگ کر رونے لگی۔ واحدہ کے لواحقین کا ملنا خوبصورت اتفاقات کا ایک سلسلہ تھا جس روز یہ فیچر شائع ہوا اس روز ہفتہ وار چھٹی تھی۔

انہی دنوں ایک فوجی یونٹ سالانہ مشقوں کے سلسلے میں مظفر گڑھ میں مقیم تھی۔ اس میں ایک جوان واحدہ کے گاؤں سے تھا اور وہ اس کی گمشدگی سے واقف بھی تھا وہ کہانی پڑھ کر پہلے تو خود ایدھی ہوم آیا مگر انتظامیہ نے اسے بتایا کہ بچی کو صرف والدین یا پھر خونی رشتہ دار کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ وہ جاکر واحدہ کی پھوپھی کو لے آیا۔ دو اور رشتہ دار بھی ساتھ تھے۔ سوچتا ہوں کہ واحدہ کے گھر والے پشاور سے بھی آگے کسی جگہ کے مکین تھے۔ وہ کبھی بھی نوائے وقت ملتان میں شائع ہونے والی کہانی نہ پڑھ سکتے۔ اگر وہ یونٹ مظفرگڑھ نہ آتی اور اگر آتی بھی تو اگر چھٹی نہ ہوتی تو جوان کیمپ کی بجائے فیلڈ میں ہوتا جہاں وہ اخبار نہ پڑھ سکتا۔ وہ لوگ جانے لگے تو واحدہ میرے قریب آئی اور بولی ”انکل میں آپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ ’

واحدہ خوش قسمت تھی کہ اپنے والدین سے مل گئی ورنہ اس درندہ صفت معاشرے میں جو حشر ایسی بچیوں کا ہوتا ہے وہ بہت ہولناک ہے۔

موضوع سے قطع نظر ایدھی ہوم کے مکینوں کے حوالے سے چند سطور قلم بند کی ہیں۔ ایدھی ہوم میں ایک ایسی دنیا آباد ہے جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ یہ ادارہ سینکڑوں کمسن بچے بچیوں، کچھ معذور، کچھ پاگل اور معمر مرد و عورتیں، اپنوں کے ٹھکرائے ہوئے، خون کے آنسو پیتے انسانوں کا مسکن ہے ایک گیارہ بارہ سال کی پیاری سی بچی جو ویل چیئر پر تھی لاہور کی رہنے والی تھی۔ میں نے پوچھا ”بیٹا آپ کیسے آئیں!“

کہنے لگی ”ابو چھوڑ کر گئے تھے۔“ ”کیوں؟“ ”پتہ نہیں کہہ رہے تھے تم ادھر رہو میں کچھ عرصہ بعد تم کو لے جاؤں گا۔“ ”پھر آئے ابو!“ ”نہیں کبھی نہیں آئے۔“ ”کتنا عرصہ بیت گیا ادھر؟“ ”تین چار سال ہو گئے۔“ ”بہنیں بھائی یاد آتے ہیں؟“ ”جی انکل بہت یاد آتے ہیں۔“

اس کے ساتھ ہی بچی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جب بھی وہ بچی یاد آتی ہے دل غم سے بھرجاتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد دوبارہ ایدھی ہوم جانا ہوا تو وہ بچی ادھر ہی تھی۔

وہاں مقیم ہر فرد کی اپنی کہانی ہے۔ کاش کوئی ایسا نظام وجود میں آ سکے جو ان بے آسرا لوگوں کا حقیقی سہارا بن جائے۔ یہ مظلوم لوگ معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہیں۔ آصف زرداری کی بیٹی بختاور کی شادی پر جو کھانا پیش کیا گیا اس کا ٹھیکہ پانچ ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کو دیا گیا۔ کئی دیگیں تو تیتروں کی پکائی گئیں مگر ان لوگوں کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ اس ملک کے بہت سے بدنصیب لوگ ہیں ان کی توجہ کے منتظر ہیں۔

جہاں تک گھریلو ملازماؤں کا مسئلہ ہے ان سب کی رجسٹریشن ہونی چاہیے۔ چائلڈ پروٹیکشن کے سرکاری اداروں کو اس سلسلے میں کردار اد اکرنا ہوگا۔ جو کمسن بچے ہیں انہیں گھریلو عقوبت خانوں سے نکال کر سکولوں میں داخل کروایا جائے۔ جو والدین معمر یا بیمار ہیں اور محنت نہیں کر سکتے انہیں بیت المال سے وظائف دیے جائیں یا سرکاری لنگر خانوں سے کھانا وغیرہ دیا جائے۔ جو والدین نکھٹو بن کر بچوں کی کمائیاں کھارہے ہیں ان کو جوتے مار کر گھروں سے نکالا جائے۔ کچھ نہ کچھ کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).