جھوٹ کی سوداگری کب تک!


وزیر اعظم پاکستان عمران خان پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر سیز فائر لائن کے قریبی ضلع کوٹلی کا دورہ کریں گے اور پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے زیر اہتمام جلسہ عام سے خطاب فرمائیں گے۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے دن، بھارت اور دنیا کی نظریں پاکستان کے عوام کی والہانہ محبت، سچے جذبوں اور حکمرانوں کی کشمیر بارے طفل تسلیوں پر لگی ہوئی ہیں۔

قاضی حسین احمد مرحوم، اللہ انہیں غریق رحمت کرے صدق دل سے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے 5 فروری کو باہر نکلے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر کے نام پر سیاست کرنے والوں نے اس دن کو اچک لیا۔ اس دن کی مناسبت سے کاروبار سیاست ہونے لگا۔ اب یہ مسئلہ کشمیر، حق خودارادیت اور آزادی کی ایک ”یادگار“ بن کر رہ گیا ہے۔ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ 5 اگست کو نریندرا مودی کے اقدام کے جواب میں نرم ترین الفاظ میں مذمتی بیانات کے بعد اس طرع سے یکجہتی کا دن منانا بنتا ہے؟

کیا اب اس طرع کی بے سود احتجاج نما مشقت کی ضرورت باقی رہی ہے۔ دریا کے اس پار پتھر مارنے والے اور منہ پر جھوٹ بولنے والے کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور جھوٹ بھی روانی، تسلسل اور پورے وثوق کے ساتھ، گویا سچ کا یقین ہونے لگے۔ اگر بلفرض کسی مجبوری یا گریٹ گیم کے زیر اثر تقسیم کشمیر کو قبول ہی کرنا پڑا ہے تو لوگوں کو اعتماد میں لے لیتے، بھارت نے تو غاصبانہ قبضہ کیا، پاکستان تو کشمیریوں کا بہی خواہ، وکیل اور محسن ہے۔ اصل صورتحال اور مشکل حالات سے آگاہی دینے میں حرج ہی کیا تھی۔

5 اگست 2019 کو مودی سرکار نے آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کو حذف کر کے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے بھارت کا حصہ بنا لیا اور پھر 31 اکتوبر 2019 کو جموں کشمیر اور لداخ کو یونین ٹیرٹری میں تبدیل کر دیا۔ 550 روز سے جموں کشمیر کے عوام لاک ڈاؤن میں ہیں۔ کشمیر کا الگ جھنڈا، قوانین شہریت، حقوق ملکیت، بنیادی انسانی حقوق بنانے کی آزادی یعنی معدود حق خود اختیاری بھی چھین لی گئی۔ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو دنیا سے کاٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

کاروبار زندگی معطل ہے نہتے لوگ 11 لاکھ بھارتی فوج کے معاصرے میں ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا اس صورتحال میں رد عمل کیا ہونا چاہیے تھا؟ وزیر خارجہ کا موقف کیا تھا؟ اس کی ایک جھلک 5 فروری 2019 کو دیکھ سکتے ہیں دلاسا، ہمدردی، جھوٹے وعدے اور دعوے! میں کشمیر کا سفیر بنوں گا کشمیر کاز کے لیے کسی ایک بھی ملک کا دورہ نہیں کر سکے۔ وزیر خارجہ نے گزشتہ 18 ماہ سے کشمیر کے لئے کتنے ملکوں کا دورہ کیا اور کتنے سفیروں سے ملاقاتیں کیں۔ یہ جھوٹ کی سوداگری کب تک؟

یوں محسوس ہوتا ہے کہ پانچ اگست کا بھارتی اقدام اور گلگت و بلتستان وآزاد کشمیر کو صوبائی حیثیت میں بدلنے کے اعلانات، ایک طے شدہ ایجنڈے اور ایک ہی منصوبے کے مختلف رخ ہیں۔

ٹرمپ کی ثالثی کے معنی و مفہوم آہستہ آہستہ عیاں ہو رہے ہیں۔ واشنگٹن میں تقسیم کشمیر کے فارمولے پر عمل درآمد کی یقین دہانیاں اور وعدوں نے اقتدار کو دوام بخشا۔ ریاست جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور سودا کرنے میں اہنے اور پرائے شریک ہیں اور ایک پیج پر ہیں۔ یہ بازگشت لاکھوں شہداء کے وارثان کے دکھ اور کرب میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔ کشمیریوں میں محرومی، عدم تحفظ اور مایوسی بڑھ رہی ہے۔ سر دست جموں و کشمیر کی عوام کو شناخت بچانے کا معاملہ درپیش ہے۔

ہمالین خطہ ارضی کو ٹکڑوں میں برابر بانٹنے کا صلہ۔ اقتدار کو طویل تو کر سکتا ہے مگر بھیانک نتائج سے نہیں بچا سکتا۔ یاد رکھیں جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس سے گھسیٹ کر نکالا گیا ہے کہیں کشمیریوں سے بے وفائی سے یہی حشر نہ ہو۔ عبدالبصیر تاجور نے اپنوں اور غیروں کی سوچ، رویوں اورکردار کی ”کشمیرہ بیگم“ کی زبانی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کی ہے ~

میں صدقے تمہارے کہ تم اب جواں ہو
سنو سچ تو یہ ہے میں بیوہ نہیں ہوں
میرے چند بیٹوں نے عہدوں کی لالچ
میں جا کر پڑوسی سے سودا کیا تھا
”ہمیں مال و زر دو اور اس کے عوض جا کے
کلمہ کی دستک پہ گھر میں گھسو تم
وہ عورت جو ماں ہے حسیں ہے جواں ہے
سو پہلے پڑوسی نے چھاتی کو مسلا
بہانے سے دوجے نے بھی آگے بڑھ کر
مری کوکھ اجاڑی مرا جسم نوچا
فقط سر بچا تھا سو اک تیسرا بھی
وہاں آ کے بیٹھا، مرے گال نوچے
محلے میں تینوں نے مل کر بتایا، ”یہ بیوہ ہے ہم اس کا گھر پالتے ہیں“
ڈراتے تھے بچوں کو تینوں یہ کہہ کر
اگر میں ہٹا، دوسرا آ گیا تو
”بہت تم کو مارے گا ظالم بہت ہے“
تڑپتی سسکتی تمہیں پالتی تھی
وہ ماں بیچنے والے بھائی تمہارے
انہیں تو میں دودھ اپنا ہرگز نہ بخشوں
بظاہر تمہارے محافظ بنے ہیں
انہی کے سبب ہے پڑوسی کا قبضہ
تمہاری رگوں میں جو غیرت ہے بیٹا
دراندازوں کی پاسداری نہ کرنا
مرا جسم دکھتا ہے میں ہوکتی ہوں
مگر آسرا ہے کہ تم اب جواں ہو
مرا جسم ان بھیڑیوں سے چھڑاؤ
یہ محسن نہیں ہیں یہ گھس پیٹھیے ہیں
تمہاری لیاقت کو سب مانتے ہیں
تو غیرت کرو فیصلہ کن گھڑی ہے
محلے میں بس اک تمہارے کوائف کے کاغذ میں والد کا خانہ ہے خالی
میں صدقے تمہارے کہ تم اب جواں ہو
سنو سچ تو یہ ہے میں بیوہ نہیں ہوں۔
میرے چند بیٹوں نے عہدوں کی لالچ
میں جا کر پڑوسی سے سودا کیا تھا
میں بیوہ نہیں ہوں میں بیوہ نہیں ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).