مولانا فضل الرحمن کو ایک مشورہ


جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا شمار ملک کے ان چند سیاست دانوں میں ہوتا ہے جن سے متعلق سنجیدہ حلقوں میں ایک رائے متفقہ طور پر پائی جاتی ہے کہ مولانا ان لوگوں میں سے ہیں جن کو مروجہ سیاست کی ہر باریکی کا علم ہے۔ سیاست کے میدان میں کون سا مہرہ کس وقت چلنا ہے یہ مولانا سے بہتر شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ مولانا فضل الرحمن کے سیاسی نظریات سے بھلے کسی کو اختلاف ہو مگر مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت کے سب قائل ہیں۔

اپنے والد مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد ایک دینی جماعت کا امیر بننا اور وہ بھی ایسے حالات میں کہ جماعت ہی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگی مولانا کے لیے ایک کٹھن سیاسی سفر کا آغاز تھا مگر مولانا نے ہمت نہیں ہاری۔ بلکہ جنرل ضیا الحق کے خلاف ایم آر ڈی میں مولانا کے قائدانہ کردار نے ثابت کیا کہ قید وبند کی صعوبتیں ان کی سیاسی جدوجہد کو روک نہیں سکتیں۔

مگر اس بار محسوس یہ ہو رہا ہے کہ سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے مولانا فضل الرحمن سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ اس بار سیاسی بساط پر مولانا کے مہرے پٹ رہے ہیں ایسا کیوں ہو رہا ہے اس پر مولانا فضل الرحمن کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ آزادی مارچ کا فیصلہ کن حالات اور وعدوں کی بنیاد پر ہوا اور اس کا اختتام کس نہج پر ہوا اس پر زیادہ بہتر تبصرہ مولانا فضل الرحمن خود ہی کر سکتے ہیں۔ تبصرہ نا سہی مولانا دل میں ضرور سوچتے ہوں گے کہ کس کس نے ان سے وعدہ خلافی کی اور کیوں کی۔ اگر آزادی مارچ میں شرکت نا کر کے کسی اتحادی نے وعدہ خلافی کی تھی تو حیرت اس بات کی ہے کہ مولانا نے پھراس بے وفا پر اعتبار کیسے کر لیا اور کیوں کر لیا۔ اگر آزادی مارچ کا مقصد پریشر ڈال کر کسی کو ڈائیلاگ کی ٹیبل پر لانا تھا تو پھر اس ڈائیلاگ کا کیا ہوا۔

اگر یہ مان لیا جائے کہ پی ڈی ایم کا قیام آزادی مارچ کی وعدہ خلافیوں کا نتیجہ ہے تو چلیں پی ڈی ایم پر ہی بات کرلیتے ہیں۔ 20 ستمبر کو 11 سیاسی جماعتوں کے بننے والے اس اتحاد کی سربراہی مولانا فضل الرحمن کو دے دی گئی۔ عمومی طور پر تاثر بھی یہی پایا جاتا ہے کہ نوابزادہ نصراللہ خان کے بعد مولانا فضل الرحمن میں وہ صلاحیت ہے کہ وہ مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر سکتے ہیں اور کسی حد تک یہ تاثر درست بھی ہے۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ مولانا کی سربراہی میں پی ڈی ایم وہ رنگ نہیں جما سکی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے اس پر مولانا کو اپنے قریبی رفقا کے ساتھ بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے ان وجوہات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے نتائج نہیں مل رہے۔

مولانا سے سوال تو بنتا ہے کہ موجودہ حکومت کی تشکیل اور انتخابی نظام پرتنقید کرنے والی پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں دوران احتجاج گلگت بلتستان کا الیکشن کیوں اور کس امید پر لڑ رہی تھیں۔ گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج توقع کے مطابق آئے تو سوال یہ ہے کہ ان انتخابات میں حصہ لے کر کیا حاصل ہوا سوائے اس کے کہ اپوزیشن کی شرکت سے یہ انتخابات جائز ہو گئے اب اس کا فائدہ کس کو ہوا اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے مختلف ضمنی انتخابات میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ کے طور پر مولانا فضل الرحمن سے بصد احترام سوال تو بنتا ہے کہ 2018 کے انتخابات اور اس کے نتیجے کے طور پر بننے والی اسمبلیوں پر آپ کا جو موقف ہے اس کے بعد ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا کیا جواز ہے۔

پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد فیصلہ ہوا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے اراکین اسمبلی کے استعفے جمع کریں اور پھر ایک متفقہ لائحہ عمل کے تحت یہ استعفے جمع کرائے جائیں گے۔ استعفے جمع ہوئے تاہم ان کے جمع کرانے پر پی ڈی ایم میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا اور شاید آگے چل کر بھی نا ہو سکے۔ اگر پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں سول سپریمیسی کی خاطر استعفی نہیں دے سکتیں تو پھر ان کے پاس آخر ایسا کیا ہے جو وہ اس سیاسی جدوجہد میں قربان کریں گی۔ 4 فروری کے پی ڈی ایم کے طویل اجلاس کے بعد دو باتوں پر اتفاق ہوسکا کہ پی ڈی ایم سینٹ کا الیکشن مل کر لڑئے گی اور 26 مارچ کو لانگ مارچ ہوگا تاہم اس کے بھی خد و خال واضح نہیں ہو سکے۔

مدعا یہ کہ پی ڈی ایم مل کر بھی وہ تاثر پیدا نہیں کرسکی جو اکیلے جے یو آئی نے آزادی مارچ کے دوران پیدا کیا تھا۔ تو پھر کیا فائدہ ایسے اتحاد کے بنانے کا اس سے تو مولانا اکیلے ہی اچھا پرفارم کر سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو سیاست میں مشورہ دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے اس لیے بصد احترام اتنا کہوں گا کہ مولانا صاحب ستر ہزار خطوط پر مت جائیے گا بلکہ بحالی جمہوریت کی جنگ میں اپنے لشکر میں ان سپاہیوں کو رکھیں جن کی تلواریں وقت آنے پر نیام سے باہر آسکیں۔

زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے آئندہ اجلاس میں چراغ بجھا کر جانے والوں کو جانے کی اجازت دے دیں۔ اس مرحلے کے بعد جو باقی رہ جائیں گے وہ نا تو استعفیٰ دینے سے گھبرائیں گے اور نا ہی لانگ مارچ اور دھرنے سے پیچھے ہٹیں گے۔ اور اگر چراغ کے دوبارہ جلنے پر مولانا اکیلے ہی خیمے میں رہ گئے تو بھی کچھ غلط نہیں ہوگا۔ بلکہ مولانا شاید پی ڈی ایم سے زیادہ بہتر پرفارم کریں گے۔ کیونکہ نئی حکمت عملی کے تحت اگر اسمبلی اجلاس کی کارروائیاں شور شرابا کر کے روکنی ہیں تو پھر محض اس کام کے لیے 11 جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ڈی ایم ایک بار پھر بیٹھ کر اخلاص کے ساتھ اپنے اہداف کا تعین کر کے ایک نئی مگر جامع حکمت عملی ترتیب دے تب جا کر کچھ ہو سکتا ہے وگرنہ کچھ نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).