سنیے! فیری میڈوز کے رحمت نبی صاحب سنیے!۔


\"\"

آپ بیمار ہوئے تو کیا صرف آپ کے گھر والے آپ کے دوست آپ کے پوری دنیا میں چاہنے والےپریشان تھے؟
کیا آپ کی بیماری کی بابت خبر سن کر صرف مستنصر حسین تارڑ کے چہرے کی لکیریں گر جاتی تھیں؟
کیا دنیا کی معلوم تاریخ کا سب سے عظیم کوہ پیما اور آپ کاعزیز دوست رین آلوڈ میسنر ہی دل گرفتہ تھا؟
کیا چلاس کے گونر فارم کے باسی یا تتو گاؤں کے لوگ آپ کی بیماری کا سن کر اداس تھے؟
کیا کچھ امریکی آسٹریلوی یا آسٹرین خواتین افسردہ تھیں کہ یونانی مجسمہ شکست و ریخت کا شکار ہو گیا ہے؟
ارے نہیں رحمت نبی صاحب۔ سنیے۔

میں نے آج سے پانچ سال پہلے فیری میڈوز میں آپ کے ساتھ آوارہ گردی کی تھی۔ سردیاں تھیں ہر جانب برف تھی۔ ہم نانگا پربت کے بیس کیمپ تک گئے تھے۔ اس سے اگلے سال میں پھر فیری میڈوز گیا۔ آپ نہیں تھے۔ خبر ملی کہ کمر کی تکلیف کی وجہ سے بستر سے لگ گئے ہیں۔ رحمت نبی جیسا کوہ پیما۔ کوہ پرست۔ ٹریکر بیمار ہو گیا ہے۔

میں آج چار سال ہونے کو آئے ہیں فیری میڈوز نہیں گیا۔ دوستوں کا اصرار رہا لیکن میں اس قسم کے بہانے تراشتا رہا کہ وہاں رش بہت ہو گیا ہے۔ شور و غل بڑھ گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

\"\"
سچ پوچھیں تو فیری میڈوز کو رحمت نبی کے بغیر دیکھنے کا حوصلہ نہیں پاتا۔ میں اس کے بعد جب جب رائے کوٹ پل سے گذرا تو وہاں کھڑی جیپیں عجب اداس سی لگیں۔ جب کوئی جیپ رائے کوٹ پل سے نکلتے ہی فیری میڈوز کے ٹریک کی چڑھائی پر چڑھنا شروع ہوتی تھی تو کیا خوشی کے ساتھ غراتی تھی پتھروں پر ایک ایک فٹ کی چھلانگیں لگاتی تھی لیکن اب تو جب بھی کسی جیپ کو رائے کوٹ پل سے فیری میڈوز پل کی جانب جاتا دیکھو تو یوں لگتا ہے جیسے جیپ کا دل گرفتہ ہے۔ جگر دریدہ ہے۔ وہ بوجھ لادے اب صرف ایک فرض پورا کرنا چاہتی ہے۔

رائے کوٹ گلیشئر کے پانی جہاں دریائے سندھ سے ملتے ہیں میں اس جگہ کو ہمیشہ بڑے غور سے دیکھا کرتا تھا۔ رائے کوٹ گلیئشر کے پانی بہت مغرور تھے۔ گلگت بلتستان میں دریائے برالڈو اور رائے کوٹ گلیشئر کے پانیوں کو غرور جچتا بھی بہت ہے سر۔ لیکن گزشتہ چار سال سے جب رائے کوٹ گلیشئر کے پانیوں پر نظر پڑی فقیر ہی لگے۔ آپ کی جدائی ان کو عاجز فقیر کر گئی۔ وہ الہڑ شوخیاں ہوا ہو گئیں۔

پاکستان میں ایک ہی تو جنگل تھا جو ناچتا تھا۔
ایک ہی تو جنگل تھا جس کو بقا کی جنگ کا سامنا نہیں تھا۔
میں نے اپنے کانوں سے فیری میڈوز کے درختوں کو یہ گیت گاتے سنا کہ
ہم ہیں۔ ہم ہمیشہ سے ہیں۔ ہم تا ابد رہیں گے۔

اور پھر ہر مصرعے کے بعد درختوں کی ٹولیاں اپنے اپنے ساز بجاتی تھیں۔ تالیوں والی ٹولی تالیاں بجاتی اور سیٹی باز سیٹیاں مارتے۔ مجھے اس سنگم میں سب سے خوبصورت بات یہ لگتی کہ درختوں کی درخواست پر رائے کوٹ گلیشئر کے پانی اپنی تہوں میں پڑے پتھروں کے تعاون سے ایک تال ساتھ ملا لیتے۔ بچے اور نوجوان پائن کے درختوں کے ذمہ صرف رقص تھا۔ وہ رقص کرتے تھے۔ جنگل جھوم ہی تو اٹھتا تھا۔ سر رحمت نبی۔

پائن کے ان جنگلوں اور گلیشئر کے پانیوں کی اس خوش کے پیچھے آپ ہی تو تھے۔ آپ ہی تو تھے جنہوں نے جیپ فیری میڈوز تک نہیں آنے دی تاکہ شور نہ ہو درخت اداس نہ ہوں۔ سڑک لکڑی کو نیچے آنے کے لیے راستہ مہیا کرتی ہے اس لیے سڑک نہیں بننی چاہیے ورنہ درخت کٹنا شروع ہو جائیں گے۔ آپ ہی تو تھے جواپنے لکڑی کے ہٹ تعمیر کرنے کے لیے جنگل میں گرے درختوں کے تنے ڈھونڈتے تھے۔ کسی جیتے جاگتے ہنستے گاتے درخت کی شہہ رگ پر کلہاڑی نہیں دے ماری۔

\"\"رحمت نبی صاحب ایک راز کی بات کہوں۔ سنتے ہیں۔ وہ آپ کی نگاہوں کے ہمہ وقت سامنے جو چٹا پہاڑ رہتا تھا، وہی چٹا پہاڑ جو حجم میں دنیا کا سب سے بڑا پہاڑ ہے۔ وہی چٹا پہاڑ جس کی تفاخر سے دو گردنیں ہمیشہ تنی رہتی تھیں۔ جس کو دنیا قاتل پہاڑ نانگا پربت کے نام سے جانتی تھی۔ جس کی ایوا لانچز مشہور ہیں۔ جہاں ایک خاص بلندی پر پریاں صبح دس بجے تندور تاپتی ہیں۔ جہاں برف کے مینڈک اور برف کے سانپ ہیں۔ وہ نانگا پربت اداس ہے۔ نانگا پربت کہتا ہے دو واقعات نے اس کو بوڑھا کر دیا ہے۔ ایک جب اس کے قدموں میں دیامر سائیڈ پر معصوم غیر ملکیوں کو قتل کر دیا گیا جو اس کے عشق میں اس کی ایک جھلک دیکھنے کو مارے مارے پھرتے تھے اور دوسرا جب سے رحمت نبی کی بیماری کا سنا ہے۔

رحمت نبی آپ نے ملک کے طاقتور ادارے سے متھا لگایا، سپریم کورٹ تک کیس لڑے اور فیری میڈوز کی جنت کو برباد ہونے سے بچایا۔ آپ نے فیری میڈوز کی جنت میں ہر طرح کی تفریق ختم کی۔ اگر کوئی وزیر ہے یا بیرون ملک کا سفیر اور دوسری طرف کراچی لاہور یا کسی گاؤں کا کوئی غریب دکاندار۔ آپ نے سب کو اکٹھا بٹھایا۔ آپ ہی کا فرمان ان کانوں نے سنا کہ کیمپ فائر میں سب ایک جگہ بیٹھیں گے۔ یہ سماجی اونچ نیچ رائے کوٹ کے پل سے پہلے پہلے ایک دوسرے کو دکھایا کرو۔

آپ کی صحت یابی کی خبر سن کر رائے کوٹ کے گلیشئر کا پانی، پائن کے جنگل کا خاندان، نانگا پربت کے دو سر ، جنگل میں چرتے جانور، جیپیں، گونر فارم، مستنصر حسین تارڑ، اور میرے سمیت تمام کو ہ پرست اور فطرت پرست بہت خوش ہیں۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments