بکھرے خواب (ایک تبصرہ)۔


حساس لوگ ہمارے آج کے معاشرے کا اثاثہ ہیں اور معاشرے کی دکھتی نبض کو بھی یہی لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ ناصر محمود شیخ بھی ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے تو ایک بڑے میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں لیکن اپنے شہر واسیوں کے لئے ایک مہربان اور ہمدرد انسان ہیں جو ہر لمحہ اپنے وسیب کی فکر میں کچھ نہ کچھ کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی پہلی کتاب ”بکھرے خواب“ منظر عام پر آئی۔

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں دو طرح کے خوف کا شکار ہوا۔ پہلا خوف موٹر سائیکل سواروں کا اور دوسرا سڑکوں کا۔ پڑھتے پڑھتے کئی مرتبہ آنکھیں نم ہوئیں۔

کتاب ”بکھرے خواب“ اپنی نوعیت کی شاید پہلی کتاب ہو گی جو ٹریفک کے حوالے سے متاثرہ لوگوں کے بارے میں لکھی گئی۔ جس میں ٹریفک قوانین کا احترام نہ کرنے والوں کی وجہ سے ٹریفک حادثات کا شکار ہونے والوں کے دکھوں کی داستانوں کو ناصر محمود شیخ نے قلم بند کر کے کتابوں کی آخری صدی میں ایک نئی کتاب کا اضافہ کیا۔

اپنے مضمون ’کتاب کی کہانی‘ کو مصنف تین حصوں میں تقسیم کر سکتے تھے کہ جس میں ملتان کی تاریخ، ہڈ بیتی اور کتاب کہانی شامل ہوتے ، یوں پڑھنے والے کے لئے تین مختلف مضامین یادداشت میں رکھنے اور ریفرنس کے طور پر بیان کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔

صاحب کتاب کے حوالے سے مضامین ان کے دوستوں نے لکھے۔ جن کو پڑھنے سے ناصر محمود شیخ صاحب کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

بکھرے خواب کے جن جملوں نے بہت متاثر کیا ، آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں اور ان کو پڑھنے سے اس کتاب کی بابت آپ بہتر جان پائیں گے۔

چوہدری شریف ظفر اپنے مضمون میں شیخ صاحب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”عام لوگوں کی طرح سینے میں دل کی جگہ کیلکولیٹر نہیں لگایا“

مصنف اپنے مضمون ”کتاب کی کہانی“ میں یوں گویا ہوئے ”عربی کہاوت ہے کہ ذاتی گھر بنانے کے لئے سگھڑ عورت کا ساتھ بہت ضروری ہوتا ہے، مجھے خیال آیا کہ کتاب شائع کرنے کے لئے بھی سگھڑ دوستوں کا ساتھ ضروری ہے“

پھر لکھتے ہیں کہ ”ایک کتاب سے کچھ مواد چوری کرنے کو نقل جبکہ مختلف کتابوں سے چوری کرنے کو ریسرچ کہتے ہیں“

”ملتان کی بات کریں تو یہاں سننے، سمجھنے والے اقلیت میں اور ماننے والے اکثریت میں ہیں“
کوئی غیر سرائیکی اگر غصے کا اظہار کرے گا تو کہے گا؛ یار تم تو پاگل ہو
لیکن اگر کوئی سرائیکی اس غصے کا اظہار کرے گا تو کہے گا؛ یار تساں وی بادشاہ ہو۔

کتاب کی پہلی کہانی ”رنج و غم کی سلور جوبلی“ نے مجھے بہت رنجیدہ کیا کیونکہ اس میں جس سکول کا ذکر ہوا ہے ، اس سکول میں 1996 میں ایک ریجنل فٹبال ٹورنامنٹ کھیلنے کے لیے میں اپنے سکول کی ٹیم کے ساتھ ملتان آیا تھا اور اس دوران ہماری ٹیم نے دس دن اسی سکول میں قیام کیا تھا۔ میری ملتان سے پہلی یادداشتوں کی وابستگی اس سکول اور ٹورنامنٹ کی وجہ سے ہے۔

صفحہ 51 پر ایک متاثرہ کچھ یوں کہتی ہیں ”ابھی تو میری ٹانگ کا مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ ریڑھ کی ہڈی کی بیماری نے آن لیا۔ ایمبولینس کے غیر تربیت یافتہ ڈرائیور اور اس کے ہیلپر کی وجہ سے میں اس بیماری میں مبتلا ہوئی کیونکہ ان کے لئے زندہ اور مردہ انسانوں کو اٹھانا ایسے ہی ہے جیسے ریت کی بوری کو اٹھانا“

صفحہ 58
”گھر کی چیزیں بکتے بکتے اتنی بک گئی ہیں کہ اب میرے پاس فروخت کرنے کے لیے صرف غم رہ گئے ہیں“
صفحہ 86
”اناڑی ڈاکٹر مل کر عامر کی ٹانگ کے ساتھ کھیلتے رہے“

صفحہ 95
”لیکن اس بات کو کون محسوس کر سکتا ہے کہ مجھے اور میری والدہ کو اناڑی ڈرائیوروں نے زندگی بھر کے لئے معذور کر دیا ہے“

آخر میں حمیرا دعا کی ایک نظم
گھر سے جب نکلتے ہیں
ہم دعائیں کرتے ہیں
جس جگہ پہنچنا ہے اس جگہ پہنچ جائیں
اور شام ہوتے ہی
گھر کو اپنے لوٹ آئیں
ہر کوئی ہے جلدی میں
لوگ یونہی تیزی میں
رستوں نشانوں کو ضابطوں اصولوں کو
روندتے ہی جاتے ہیں
اک ذرا سی غفلت سے
روز خون بہتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).