میں احفاظ الرحمن کی بیوہ ہوں


آپ میں سے اکثر لوگ مجھے خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن کی حیثیت سے جانتے ہیں اور میں آج شام سے یہ سوچ رہی ہوں کہ اگر میں اپنے شوہر سے پہلے مر جاتی اور خواتین محاذ عمل کی کارکنان عورتوں کی تحریک کی تاریخ کے حوالے سے ہونے والے کسی جلسے میں میرے شوہر کو مدعو کرتیں تو کیا ان کا تعارف یہ کہہ کر کروایا جاتا کہ یہ مہ ناز کے رنڈوے شوہر ہیں؟ نہیں نا۔ مرد کی اپنی حیثیت اور مقام ہے، اسے ایسے لاحقوں کی ضرورت کیا بھلا۔ عورت بےچاری کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے، اسے کسی کی بیٹی پھر بیوی یا بیوہ کی حیثیت سے ہی متعارف کرایا جاتا ہے۔

میرے ساتھ آج کچھ ایسا ہی ہوا، کراچی یونین آف جرنلسٹس کے آزادی صحافت اور میڈیا کے بحران کے بارے میں ہونے والے سیمینار میں مجھے مقرر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا اس سیمینار میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ستر سالہ تاریخ کے بارے میں مرتب کی جانے والی کتاب کی رونمائی بھی کی گئی جس میں میرا مضمون بھی شامل ہے۔ اس میں میں نے بتایا ہے کہ میں 80ء کے عشرے کے اوائل میں کے یو جے کی دو مرتبہ جوائنٹ سیکریٹری اور امن ایمپلائز یونین کی صدر رہی تھی۔ ظاہر ہے میں نے اپنے مضمون میں احفاظ کی جدوجہد اور قربانیوں کا زیادہ ذکر کیا ہے، ایک تو وہ مجھ سے سینیئر تھے اور دوسرے اگر ہم دونوں ہی آزادی صحافت کی جدوجہد کے لئے خود کو وقف کر دیتے تو گھر کا چولہا کیسے جلتا۔ کم از کم احفاظ کو یہ تو اطمینان رہتا تھا کہ اگر وہ بے روزگار ہو بھی گئے تو تنگی ترشی کے ساتھ ہی سہی گھر چلتا تو رہے گا۔ بہر حال آج جب تقریر کے لئے مجھے احفاظ کی بیوہ کہہ کر بلایا گیا تو میں سوچتی رہ گئی کہ کیا کبھی کسی مرد کو بھی کسی سیمینار میں اس طرح بلایا جا سکتا ہے۔

عوامی تقریبات کی بات چھوڑئیے، گھریلو زندگی میں بھی شادی کے بعد عورت ہی اپنا نام تبدیل کرتی ہے۔ پہلے باپ کا نام اور پھر شوہر کا نام اس کی پہچان بنتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک پروگرام کے لئے میڈیا کی خواتین کے ساتھ ہماری میٹنگ ہو رہی تھی، ایک مشہور آرٹسٹ بڑے غصے سے کہنے لگیں ”میں نے تو اپنے شوہر کو کہہ دیا تھا کہ میں اپنا نام نہیں بدلوں گی، میں اپنے نام کے ساتھ باپ کا نام ہی لکھوں گی۔ ”لیکن باپ بھی تو مرد ہے“ ہم نے رسان سے کہا اور سب پر سکتہ طاری ہو گیا۔ ”آپ اپنی ماں کا نام اپنے نام کے ساتھ کیوں نہیں لکھتیں؟ ایک مرتبہ پھر خاموشی چھا گئی۔

یہ اور بات کہ مرد اگر اونچے عہدے پر فائز ہے تو اکثر خواتین اس کے حوالے سے لوگوں پر رعب جھاڑتی ہیں ’میں کرنل کی بیوی ہوں ‘والا واقعہ تو لوگوں کو یاد ہو گا۔ اسی طرح ایک ڈپٹی کمشنر کی بیوی کچھ اس طرح بات کیا کرتی تھیں ”جب ہم وہاں ڈپٹی کمشنر تھے“۔ مسئلہ ان خواتین کا ہے جو اپنی محنت، صلاحیت اور قابلیت کے ذریعے اپنے آپ کو منوانا چاہتی ہیں اور پدر سری معاشرہ ان کی شناخت اور تشخص کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستانی معاشرے نے ابھی تک ورکنگ ویمن یا ملازمت پیشہ خاتون کے تصور کو قبول نہیں کیا ہے۔ اسی لئے خواہ وہ ساری عمر ملازمت کرتی رہے، اس سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ساری گھریلو ذمہ داریاں بھی سنبھالے، بچے پیدا کرے، پالے یعنی ہم عورتوں نے مردوں کے مقابلے میں دہرا تہرا بوجھ اٹھا رکھا ہے جب کہ مرد صرف ملازمت کرتا ہے بلکہ پاکستانی معاشرے میں اب ایک نئی صورتحال پیدا ہو رہی ہے، گھریلو ملازمائیں جنہیں ’ماسی‘ کہا جاتا ہے، ان میں سے اکثریت کے مرد کوئی کام نہیں کرتے اور بہت سے نشہ بھی کرتے ہیں۔

یہ ماسیاں دوسروں کے گھروں میں کام کرنے کے بعد شام کو جا کے اپنے گھر کا پورا کام کرتی ہیں اور ہر سال ایک بچہ بھی پیدا کرتی ہیں اور شوہر سے مار بھی کھاتی ہیں۔ ان کے شوہر انہیں مانع حمل طریقے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور خود کسی قسم کی احتیاط کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم صرف ایک پدر سری معاشرے میں ہی نہیں بلکہ ایک طبقاتی معاشرے میں بھی رہ رہے ہیں۔ اور یہ طبقہ اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر چکا ہے لیکن اب بالائی متوسط شہری طبقے کے نوجوان جوڑوں میں بھی کچھ ایسے ہی معاملات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ تو دونوں ہی ہیں لیکن لڑکیاں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ لڑکے ان سے کم تنخواہ پا رہے ہیں یا بے روزگار ہیں اور یوں نت نئے سماجی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔

 سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پیسا ہی سب کچھ نہیں ہوتا، مرد کو آج تک برتری اس لئے حاصل رہی کہ وہ پیسا کمانے والے کام کرتا تھا اور عورت زیادہ تر ایسے کام کرتی ہے جن کا اسے کوئی معاوضہ نہیں ملتا، اس لئے معاشرے میں اس کو کمتر درجہ دیا جاتا ہے۔ یہی سوچ کہ عورت نے بھی ملازمت کرنا شروع کی لیکن اس کے مقام و مرتبہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، الٹا اس نے دہرا تہرا بوجھ خود پر لاد لیا۔ اور وہ بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کا ایک کل پرزہ بن گئی۔ اب جو فیمنزم کی نئی لہر آئی ہے، اس میں یہی بات کی جا رہی ہے کہ ہم جو عورتوں کے لئے اعلیٰ عہدوں کا مطالبہ کرتے رہے ہیں تو دوسرے لفظوں میں جو استحصال پہلے مرد کرتے تھے، ہم یہ کہہ رہے تھے کہ اب وہ استحصال عورت کرے۔ جب کہ ہمیں عورتوں کی ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو سرمایہ داری کے خاتمے کا مطالبہ کرے اور اسی طرح کی دوسری تحریکوں سے خود کو جوڑے تا کہ مساوات اور آزادی کی بنیاد پر ایک ایسے معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکے جہاں انصاف کے ساتھ دولت اور قدرتی وسائل سب میں تقسیم ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).