غچہ دینے والا صاحب کمال اور سادہ لوگ


ایک شخص کو یہ کمال حاصل تھا کہ وہ کبھی بھی کسی کو بھی کوئی چیز بیچ سکتا ہے، کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اور جو وہ کرتا ہے وہ کسی کارنامے سے کم نہیں ہوتا۔ وہ اپنی چرب زبانی سے غچے دینے کا ماہر تھا جہاں کام دکھانا ہو، مستقل مزاجی سے اس جگہ کی منصوبہ بندی کرتا۔ پھر مجال ہے کہیں چوک جائے۔ یہ کمال اسے ورثے میں ملا تھا۔ جو اس کے پچھلوں نے طاقت، دھونس زور زبردستی حاصل کیا تھا۔

جب ان کی حقیقت دنیا کے سامنے آشکار ہوئی تو اس کے اگلے پچھلوں نے سر جوڑ کر فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے طاقت بھرم چلا جائے، روزگار کے لئے عام لوگوں کی طرح بھٹکنا پڑے، دھوکہ دہی کا کام مستقل بنیادوں پہ اپنانا چاہیے۔ الگ الگ بستیاں ڈھونڈ کر اپنانی چاہییں جہاں پکڑائی کا خوف نہ ہو اور دھوکہ دہی کا کاروبار بھی خوب جم جائے۔ آپس میں گٹھ جوڑ بھی رہے اور دکھاوے کو چھوٹی موٹی لڑائی بھی ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر کون سا وہ خود لڑائی لڑتے تھے جو فکر مند ہوتے۔ لڑنے کے لئے لوگ بہت تھے۔ تب پچھلے قطع تعلق ہوئے، اگلے رشتے بنائے گئے اور یوں نئے رشتوں کے ساتھ نئے بھیس میں یہ صاحب کمال لوگ نئی بستی میں وارد ہوئے۔

یہ غچہ دینے کے ماہر تھے۔ یہ بستی کیا تھی محلہ تھا، جہاں لوگ طبعیتاً سادہ مزاج لیکن ان پڑھ تھے۔ چند ایک سیانے تھے جو اس نے پہلی نظر میں تاڑ لیے تھے۔ وہ لوگوں کو اپنے قصے اس فخر سے بیان کرتا کہ بجائے لوگ سوال کریں وہ اس کے غچوں کو کارنامہ سمجھتے ہوئے خوب محظوظ ہوتے۔ بچے عموماً حقیقت سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ یہاں الٹی گنگا بہہ رہی تھی۔ دھوکہ مقبولیت تھا، چرب زبانی فہم اور غچہ حمکت عملی۔ لہٰذا بچے بھی اس غچے دینے والے شخص کے گرویدہ تھے، اس کے گرد گھیرا ڈالے رہتے،  مستقبل میں اس کی طرح مشہور ہونے کے خواب دیکھتے اور میٹھی گولیوں کے لالچ میں محلے کا سارا کچھا چٹھا اس کے سامنے کھول دیتے۔ اور یہی اس شخص کے باخبر محتاط رہنے کے لیے بہت تھا، یوں وہ کبھی پکڑا نہیں گیا۔ میٹھی گولیاں جو اسی محلے میں محلے والوں کے ہاتھوں کاروبار زندگی چلانے کے واسطے تیار ہو رہی تھیں، یہی میٹھی گولیاں ان کے خلاف مفاد کی گولیاں بنیں اور  انہی پہ برسنے لگیں۔

میٹھی گولیوں کا لالچ بھی عجیب پرکشش ہے۔

اصولوں پر کاروبار زندگی چلانا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ سو اس محلے میں کم زیادہ، ناپ تول کا فرق کاروباری زندگی سے نکل کر اس کی چرب زبانی سے معاشرے میں اگلی نسل پچھلی نسل، نیا یا فرسودہ نظام یا بھیڑ چال، بوڑھا یا جوان، مفاد یا اصول، عورت و مرد میں تفریق ہو کر پھیل چکا تھا۔ سب غچہ دینے والے کو بھول کر آپس میں دست و گریباں ہو گئے اور ایک دوسرے کے رہن سہن پہ پھٹکار کرنے لگے۔

محلے کی پستی پہ نالاں کوئی سیانا، اس شخص کے خلاف جب اٹھتا اگلے لمحے اس شخص کی چرب زبانی سارے کیے کرائے پہ پانی پھیر دیتی اور وہ آواز اٹھانے والا شخص محلے میں محلے والوں ہی کی طرف سے ہی مجرم، بددیانت، بدنیت اور محلے کا بدخواہ قرار پاتا، نتیجتاً وہ خیر خواہ کف افسوس بھرتا بوریا بستر اٹھا کر کہیں اور چلتا بنتا۔

محلے والوں کے کچھ دن اطمینان سے کٹتے کہ اب ان میں کوئی مجرم اور کوئی بددیانیت سیانے کے لبادے میں نہیں۔ حالات کو اس آئیڈیل طرز پر چلانے کے لئے وہ غچے دینے والا شخص آئے دن کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتا رہتا جسے محلے والے اس کی خیر خواہی گردانتے اور آپس میں ہفتوں اس شوشے پر محلے کی خدمات کے تناظر میں مباحثہ کرتے، اس کی خدمات کے معترف ہوتے۔ اس کو خراج تحسین پیش کرتے رہتے۔ بچے میٹھی گولیوں کو صحیح حلال کر رہے تھے۔ بڑوں کی بیٹھک لگانے کا انتظام کرتے، کثرت سے بٹی ہوئی میٹھی گولیوں سے اپنے من پسند بڑوں کو میٹھی گولیاں پیش کرتے، ان میں سے صرف انہی بڑوں کو بولنے کا موقعہ دیتے جو میٹھی گولیاں کھا کر میٹھا بول سکتے تھے۔ ان کی خوب پذیرائی ہوتی۔ محلے والوں سے بھی اور غچہ دینے والے سے بھی۔

چند نوجوانوں نے پذیرائی پانے کے چکر میں اس شخص کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا بیڑا اٹھایا اور اپنے ہی محلے والوں کے ہاتھوں غچہ کھا گئے۔ نہ صرف ان کی سبکی ہوئی بلکہ ان کا محلے میں مذاق اڑایا جانے لگا۔ انہی محلہ بدر کر دیا گیا۔ اس شخص نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بچوں کو خوب عبرت دلائی کہ آئندہ برائی کرو یا میری اچھائی لیکن یاد رکھو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا فرسودہ طریقہ مت اپنانا، یہ تو احمقوں میں رائج تھا۔

وہ بیوقوف تم کو اپنی طرح احمق بنانا چاہتے ہیں، دیکھو نئے زمانے کی نظر سے۔ میرے ہاتھ کیا رنگے ہوئے ہیں؟ اور بچوں نے صاف ستھرے ہاتھ دیکھ کر یک زبان ہو کر گویا گواہی دی۔ بالکل نہیں۔ بچوں نے وعدہ کر لیا جب وہ بڑے ہوں گے تو ہمیشہ اس شخص کے وفادار رہیں گے۔ بیوقوفوں کے ہاتھوں کبھی احمق نہیں بنیں گے اور اپنے ہاتھ بھی اسی آئیڈیل شخص کی طرح ہمیشہ صاف رکھیں گے۔ آخر اس شخص نے کتنی اہم مہمات سر کر کے اس محلے کو برے لوگوں سے بچایا ہے اور انہیں برے سے برے وقت میں میٹھی گولیاں مفت میں بانٹنا نہیں بھولا۔

دوسری طرف بیوقوف محلہ بغیر میٹھی گولیاں کھائے اس کی عقیدت میں بِکنے تک کو تیار تھا جو ان کی نظر میں وقتاً فوقتاً محلے کو محلے کے شرپسندوں سے بچاتا رہا ہے۔ محلہ اتنی خیرخواہی کے بعد بھی آئے دن چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ذاتی مفاد پہ محلے کا چھوٹا ہونا کوئی اتنی اہم یا توجہ طلب بات نہیں تھی جس کی طرف محلے والے دھیان لگاتے اور آپس میں پوچھتے کیسے؟ کیوں؟

اس واقعہ کے بعد بچے گویا فکر، سوچ، مستقبل اور تعلیم جیسے فرسودہ الفاظ سے آزاد ہو گئے۔

وہ ہمہ وقت مفت میٹھی گولیاں بٹورنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرتے۔ گنگا تو الٹی بہہ ہی رہی تھی اب، آوے کا آوا الٹنے والا تھا۔ بچوں کی دیکھا دیکھی محلے والے بھی غچہ دینے والے سے فرمائش کرنے لگے کہ انہیں بھی کچھ دیا جائے۔ وہ اگر کان نہ دھرتا تو دھونس دھمکی دینے لگتے، یوں محلے میں امداد، لنگر، بھیک، خیرات کا نظام متعارف ہوا۔ غچہ دینے والا بڑا پکا اور اپنے کام کا دھنی تھا۔ محلے والوں کا پکایا ہوا ان کو ہی خیرات کی صورت میں دینے لگا تھا،  جسے محلے والے احسان عظیم سمجھتے اور دعا کرتے کہ خدا ہمیشہ ان کو اسی حال میں رکھے اور ایسے مخلص شخص کا دست شفقت ان پر دراز رکھے۔

بچوں کو میٹھی گولیوں کے ساتھ خیرات بھی ملنے لگی، جس کو خیرات یا میٹھی گولی ہاتھ نہ لگتی وہی دوسرے بچے کو گولی نہ ملنے پر مورود الزام ٹھہراتا۔ بے غیرت، لالچی، ناجائز میٹھی گولی کھانے والا جیسی آوازیں کستا۔ بچوں کا قصور بھی کیا تھا، وہ اپنے بڑوں کو اپنے محلے والوں کو یہی کرتا دیکھ رہے تھے۔ ان الزام تراشیوں سے جو وقت بچ رہتا،  اس میں سب مل بیٹھتے کسی گزرے واقعے پر ٹھٹھے بازیاں کرتے اور خیرخواہ کو دشمن سمجھتے۔ اب یہی پھکڑ پن ان کے لئے چین کی بنسری تھا،  سو بجا رہے تھے۔ غچہ دینے والے کو اور کیا چاہیے تھا۔ اس نے اسی پھکڑ پن کا ایک بار پھر بھرپور فائدہ اٹھایا اور محلے میں ان کی کفالت اور داد رسی کے نام پر اپنے پنجے گاڑ لیے۔

غچہ دینے والے نے مودبانہ گزارش کی کہ داد رسی کرنا نیکی ہے، سو وہ اس نیکی کی تشہیر نہیں چاہتا۔ وہ چاردیواری میں یہ کام انجام دینا چاہتا ہے۔ سو دادرسی کرنے کے واسطے دیواریں کھڑی ہونے لگیں۔ پھر یہی دیواریں پرانے محلے میں نئے محلے کی بنیادیں بن گئیں۔ اب وہاں دو محلے تھے۔ محلے والے تو وہی تھے لیکن فرق یہ تھا کہ اس نئے محلے میں پرانے محلے والوں کی کوئی رسائی نہیں تھی۔ البتہ غچہ دے کر چادر پھیلانے کا کام محلے والوں پہ ڈال دیا گیا۔

جتنی وسیع چادر اتنی داد رسی۔ محلے والے لالچ میں چادریں بڑی بڑی کرتے رہے، وہ صاحب کمال بھی تنگ ہوا تو چادر چھوٹی کرانے لگا۔ لالچ بری بلا ہے، سو یہ بلا دونوں سے چپک کے رہ گئی۔ چھوٹی بڑی چادریں کرتے دونوں فریق نڈھال ہو گئے۔  تب کہیں محلے کی عورتوں کا خیال آیا اور سارا ملبہ ان کے سر ان کی چادر بنا کر تھوپ دیا گیا۔

محلہ بدر کرنے والے واقعے کے بعد سمجھو پرانے محلے میں خاموشی چھا گئی تھی۔

اب آئے دن کا غچہ نہیں رہا تھا، غچہ دینے والے محلہ بدر ہو چکے تھے، یہ خاموشی گویا اب غچہ دینے والے کا حق تھی۔

اصل غچہ دینے والا اب ان کا محلے دار بن چکا تھا۔ جس کی مالی حیثیت ظاہر ہے انتہائی مستحکم تھی جو اسے انہی بیوقوف محلے والوں کی بدولت حاصل ہوئی تھی۔

محلہ چھوٹا کیا ہوا محلے پہ محلے والوں کی چلنی بند ہو گئی۔ غچہ دینے والے کی حکمت عملی کے مطابق اب اسے گلی گلی فرد فرد غچہ دینے جانے کے بجائے بیٹھے بیٹھے آرڈر سے کام چلانا تھا۔ ملازمین، نوکر چاکر اور خادم رکھ لیے گئے تھے۔ ملازمین میں وہی محلے والے شامل تھے جن کو میٹھا بولنے کی وجہ سے میٹھی گولیاں پذیرائی کی صورت عطا ہوئی تھیں علاوہ مفتے کے۔

غچے دینے کی اب ضرورت بھی کہاں رہی، ملازمین تھے جو مختلف وقتوں میں قسم قسم کے غچے دے رہے تھے۔ ان ملازمین کو رکھنے میں اس شخص نے اپنا حربہ اپنایا۔ یہ تنخواہ کہیں اور سے پاتے، حکم اس کا بجا لاتے۔ یوں غچے کے غنچے خدمت گاروں میں خدمت کے جذبے سے پھوٹنے لگے۔ نتیجتاً محلے میں خدمت گار کی بدولت ایک تیسرے محلے نے ٹاؤن کی صورت جنم لیا۔

محلے والے جو اب تک تماشائی بنے، اس کی حکمت عملی سے لطف اندوز ہو رہے تھے، اب اپنے ہی غچے میں آ گئے۔ امارت سے مرعوب اس جیسے امیر کبیر بننے کی تگ و دو میں لگے۔ کچھ حاسد ہو گئے۔ کبھی کوئی آواز پرانے محلے سے اٹھتی تو نئے محلے کے ملازمین و خادم اس شخص کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جاتے۔ اب نئے پرانے محلے کی تکرار بڑھ گئی تھی۔ ایک بار پھر غچہ دینے کا وقت آگیا تھا، ایسے میں وہ شخص کہیں سے نمودار ہوتا اور کہتا گزر جاتا یہ سب اسے حکمت عملی، ڈٹے رہنے کے مسلمہ اصولوں سے ملا ہے جو ناتجربہ کار، نا پختہ ذہن کے حامل محلے والوں کو کبھی نہیں مل سکتا۔

محلے والے پھر اس کے غچے میں آ گئے کہ وہ کچے ذہنوں کے مالک ہیں اور اب نئے پرانے محلے والے اس کوشش میں ہیں کہ کسی طور تجربہ کاری اور پختگی کو سیکھا جائے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کس سے۔

ظاہر ہے غچہ دینے والے سے بہتر نام ان کے ذہن میں نہیں، جو ان کی نظر میں صاحب کمال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).