ہم بھی کسی کا خواب تھے


وہ الماری میں کتابیں بند کر رہی تھی یا اپنے خواب۔ درد اس پر اتنا طاری تھا کہ وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔ سی ایس ایس کا خواب دیکھنا جتنا آسان تھا ، اس کی تعبیر انتہائی مشکل تھی۔ یہ کون سی مشکل تھی جس نے اس کی کتابوں کو بند کر دیا تھا؟ آخر ایسا کیا ہوا تھا جس سے وہ اپنی قابلیت پر شک کرنے لگی تھی۔ ایسا کون سا سانحہ تھا جس سے اس کا جسم تو ٹھیک تھا مگر درد سے اس کی روح چور چور ہو چکی تھی؟ زندگی کا یہ کون سا پہلو تھا جس سے وہ خود کو کسی قابل بھی نہیں سمجھ سکی تھی؟

آپ اس وقت کہاں ہو؟ میں date پر ہوں
آپ سے یہ امید نہیں مجھے
دوشیزہ انتہائی اطمینان سے ابان سے کہہ رہی تھی۔

مگر میں سچ کہہ رہا ہوں ، ابان نے پھر سے یقین دلوانے کی کوشش کی۔ کال پر بات جاری رکھتے ہی اس نے بار میں ویٹر کو بل کا اشارہ کیا۔

دوشیزہ اپنی زندگی میں تلخیوں کے باوجود ابان پر اندھا اعتبار کرتی تھی۔ ابان نے کال کے دوران ہی اشارے سے ویٹر کو بل ادا کر دیا۔

دوشیزہ ابان کے ساتھ ہمیشہ مزے میں رہتی تھی ، وہ دوسری لڑکیوں سے تھوڑا ہٹ کر تھی۔ ابان کے تعریف کرنے پر بھی دو شیزہ دوسری لڑکیوں کی طرح اس طرح نہیں شرماتی تھی جس طرح شرمانے کا حق ہوتا۔ دونوں کا ایک ہی profession تھا جس کی وجہ سے دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ حد سے زیادہ فرینک تھے۔

دو شیزہ نے مزے میں بات آگے بڑھائی۔ کیسی ہے date آپ کی؟
بہت خوبصورت۔ ابان نے جواب دیا
مجھ سے بھی خوبصورت دوشیزہ نے پوچھا۔
ہاں مجھے تو بہت لگتی ہے۔
ٹھیک ہے اگلی دفعہ مجھ سے بات نہیں کرنا، اب اس کے ساتھ ہی date پر رہنا۔ دوشیزہ مزے میں بول رہی تھی
چائے بہت مزے کی ہے آج تو بار کے شیف نے کمال چائے بنائی؟ ابان دوشیزہ کو بتا رہا تھا۔
کون سی بار میں چائے پی جا رہی ہے؟ دو شیزہ نے پوچھا۔
وہی بار سول کورٹ جہاں تم اور میں پہلی دفعہ ملے تھے۔
دوشیزہ اب کچھ سنجیدہ ہو گئی تھی۔

اب آپ ہی وہاں جائیں گے ، میرا کوئی پرسنل کیس بھی لگا تو میں اس عدالت میں قدم نہیں رکھنے والی۔ دوشیزہ نے غصے کے عالم میں فون ہی بند کر دیا۔ دوشیزہ اب روہانسی ہو رہی تھی۔

ابان دوشیزہ کی سنجیدگی سے خوب واقف تھا مگر اس میں کوئی شک نہیں تھا بار میں چائے پی گئی تھی مگر کس کے ساتھ اور کتنی دیر۔ وہ لڑکی دوشیزہ کی کال سے پہلے ہی جا چکی تھی۔

دوشیزہ ایسی ہی تھی ، سخت دل ہونے پر آتی تو کچھ بھی نہیں دیکھتی تھی ۔ اپنی ذات کو نقصان پہنچانا اس کے لیے عام سی بات تھی۔ بربادی اس کے لیے انتہائی خاص شے تھی مگر اب اپنی زندگی میں ابان کی وجہ سے وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی تھی۔ دوشیزہ کے اس طرز عمل سے ابان خوب واقف تھا۔

دو شیزہ اپنے خواب پورے کرتے کرتے راہ میں رک جاتی تھی ۔ اس کے لیے اپنے خوابوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کرنا ایک عام سی بات تھی انتہائی جذباتی لڑکی تھی ، کوئی بھی خطرہ مول لینا اس میں کسی بھی طرح کا خوف پیدا نہیں کرتا تھا۔

دوشیزہ اور ابان کی محبت بے حد مختلف تھی ، وہ چاہ کر بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو پاتے تھے ۔ دوشیزہ اکثر ابان کے گھر آنے سے پہلے ہی گھر آ جاتی ، وہ یہ بات ظاہر تو نہیں کرتی تھی مگر اپنی بہت سی میٹنگز ابان کی سارا دن کی تھکن دور کرنے کے لیے کینسل کرتی ، ہمیشہ کی طرح آج بھی دوشیزہ گھر جلدی آ گئی تھی اور معمول کے مطابق ابان کا کورٹ اتار رہی تھی ، دوشیزہ کے چہرے سے اس کی ناراضگی ظاہر ہو رہی تھی مگر وہ اس تصویر کو ابان سے چھپانا چاہ رہی تھی۔

ابان اپنی محبت میں اظہار سے زیادہ عزت دینا اور اپنے کام سر انجام دینے کو زیادہ ترجیح دیتا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ دوشیزہ کی ہر ذمہ داری بھی پوری کرنا عبادت سمجھتا تھا ۔ دوشیزہ نے جب جو چاہا ابان کو بتائے بغیر ہی حاصل ہوا ، گہری رات سے ان دونوں کو باتیں کرنا شدید پسند تھا مگر ایسی رات ان کو قسمت سے نصیب ہوتی تھی۔

دوشیزہ کی محبت میں طویل انتظار ہی اس کے لیے اکثر آزمائش بن جاتا تھا مگر اس سب کے باوجود وہ انتہائی بے چینی سے انتظار کرتی ، کبھی کبھی ضبط ٹوٹ جانے پر ابان سے شکوہ بھی کرتی مگر ابان کی محبت کے آگے ہر شکوہ چھوٹا پڑ جاتا تھا۔

ابان عادتاً دوشیزہ کا کورٹ اتارتے ہی اس کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیٹا تھا اور دوشیزہ کو ابان کا یہ عمل کتنا اچھا لگتا تھا ، وہ کبھی نہیں بتاتی تھی۔ شاید سارا دن وہ اس خاص وقت کا انتظار کرتی تھی مگر اظہار کرنا کبھی مناسب نہیں سمجھتی تھی ، دوشیزہ کی سوچ مختلف تھی ، اس کے نزدیک محبت میں اظہار کرنا کھو دینے کے برابر تھا۔

سو اب آپ مجھ سے اپنا درد چھپاؤ گی۔ کیسا درد۔ یہ درد ہے یا اذیت۔ میری سمجھ سے باہر ہے۔ دوشیزہ ابان کی طرح زیادہ دیر بات دل میں نہیں رکھ پاتی تھی۔ ابان کے ہاتھ پکڑتے ہی وہ اپنی آنکھیں نم ہونے سے روک نہیں پاتی تھی۔ ہمیشہ کی طرح دوشیزہ بچوں کی طرح سسکیاں لے کر رونے لگی تھی ، رونے کی وجہ وہ بار میں پی جانے والی چائے تھی۔ ابان دوشیزہ کو یقین دلوانے میں بھی خوب ماہر تھا۔ ابان جس طرح دوشیزہ کو منا رہا تھا۔ جیسے چھوٹا بچہ اسکول جانے سے انکار کرے اور اس کو چاکلیٹ کے لالچ دیا جا رہا ہو۔ لاڈ پیار دو شیزہ کی کمزوری تھی ، اس سے ابان بھی خوب واقف تھا۔

دوشیزہ کا والد سرکاری ملازم تھا اور والدہ ہاؤس وائف ۔ دوشیزہ کا بچپن عام لوگوں کی طرح نہیں گزرا تھا۔  ماں کی سختی اور گھر والوں کی لاپروائی کی وجہ سے دوشیزہ کی محبت کے سوا کوئی کمزوری نہیں تھی ، پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی مگر اس کے باوجود اس کا بچپن ادھورا تھا ، بہنوں نے ماں کی سختی سے نجات پانے کے لیے وقت سے ہی اپنے حقیقی گھر آباد کر لیے تھے جب کے دوشیزہ کی مشکلات میں اضافہ ہونے کی وجہ اس کا سب سے چھوٹا ہونا تھا،  جس کی وجہ سے اس نے مزید 10 سال تلخیوں سے عمر گزاری تھی۔

پڑھائی دوشیزہ کے والد کا خواب تھا مگر سی ایس ایس کا خواب دوشیزہ کا تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح یہ خواب ابان کا بن گیا ، اس بات سے دوشیزہ اور ابان دونوں ہی بے خبر تھے۔ دوشیزہ کی فیملی اور ابان دونوں ہی چاہتے تھے کہ دوشیزہ کو سرکاری پوسٹ پر دیکھیں مگر اس خواہش کے باوجود کوئی بھی اس کو سپورٹ نہیں کر سکا حتیٰ کہ ابان کی نہ ختم ہونے والی محبت کے باوجود وہ بھی کچھ نہیں کر سکا۔

ابان کسی چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھتا تھا مگر اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہی لاہور آ گیا۔ چھوٹے سے بزنس سے اس کی زندگی کس طرح بدل گئی،  اس کے لیے یہ حیرانی کی بات تھی۔

دوشیزہ لاہور سی ایم ایچ میں پیدا ہوئی اور بچپن سے ہی اچھا لائف سٹائل ملا۔ باپ کی اچھی پوسٹ ہونے کی وجہ سے اس نے کبھی کوئی خاص کمی نہیں دیکھی تھی۔

شاید یہ بھی ایک وجہ تھی دوشیزہ اور ابان کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی تھی ۔ ابان انتہائی مطمئن زندگی گزارتا تھا اور دوشیزہ انتہائی تلخ۔ اذیت اس کی روح میں تھی یا خون میں ، یہ آج تک دوشیزہ بھی سمجھ نہیں سکی۔

ابان اور دوشیزہ کا شادی کا ارادہ تھا بہت دیر سے ہی مگر وہ دونوں  ہی career oriented تھے۔ وقت سے پہلے ابان اور دو شیزہ کی شادی کی وجہ بھی اس کی باقی بہنوں کی طرح دوشیزہ کی والدہ ہی بنی تھی۔ انسان دکھ سہتے سہتے تھک جاتا ہے۔ دوشیزہ کا حادثہ بھی ایسا ہی تھا۔

ماں باپ اور بہن بھائیوں سے جھگڑے کے بعد ابان سے انتہائی سادگی سے نکاح کی رسم ادا ہوئی۔ دوشیزہ نے ہمیشہ کی طرح اپنی شادی سے منسلک بہت سے خواب ادھورے چھوڑے تھے مگر ابان سے نکاح کی رسم سے بڑھ کر اس کا کوئی بڑا خواب نہیں تھا۔

دوشیزہ جہاں بھی جاتی ، خوابوں کا انبار بھی سر پر اٹھا کر  لے جاتی تھی۔ ابان سے شادی کے وقت وہ اپنا ایک ہی خواب ساتھ لے کر جا رہی تھی جو محض دوشیزہ کا نہیں ابان کا بھی تھا۔

سی ایس ایس۔
سی ایس ایس۔
سی ایس ایس۔
یہ واحد خواب تھا جس سے اس کا ہر خواب وابستہ تھا۔

فی الحال بہت مشکل ہو گا ، آپ کا کسی اکیڈمی میں داخلہ کروانا۔ دوشیزہ نے اپنے اس خواب کو ان ہی لمحوں ٹوٹتے دیکھا تھا جب ابان نے بھی جواب دیا۔ اس نے اپنے درد کو کس طرح دبایا تھا، اس سے ابان بھی بے خبر تھا۔

ابان کی محبت کی شدت اپنی جگہ مگر ابان اکثر ہی دوشیزہ کے دل کا حال جاننے سے قاصر رہتا۔

اپنے خوابوں کے ٹکرے اس نے کس طرح سنبھالے تھے ، اس درد سے اللہ کے سوا صرف دوشیزہ ہی واقف تھی۔ کسی انسان سے بچھڑنا ہو یا کسی خواب سے جدائی اس کا درد صرف اسی انسان کے گرد گھومتا ہے جو اس سے جدا ہونے کی رسم سے لطف اٹھاتا ہو۔

ماحول بے مزہ ہے تیرے پیار کے بغیر
کیسے پئے شراب کوئی یار کے بغیر

کپ میں چائے ڈالتے ہوئے دوشیزہ کس طرح ابان کی پسندیدہ غزل گا رہی تھی ، ابان نے پہلی بار دیکھا تھا۔ دوشیزہ اکثر ہی یہ غزل گنگناتی تھی مگر ابان اس سے واقف نہ تھا۔

آج پہلی دفعہ ابان دوشیزہ کے چائے کے وقت گھر داخل ہوا تھا ۔ کچھ بھی ہوتا دوشیزہ خوش ہوتی یا اداس شام میں 5 بجے کی چائے پینا فرض سمجھتی تھی اور یہ عادت اس کو اپنے گھر کے ماحول سے ملی تھی۔ ابان چائے کا اتنا شوقین نہیں تھا مگر دوشیزہ کے ہاتھ کی چائے تبرک سمجھ کر پیتا تھا۔

ابان کو دیکھتے ہی دوشیزہ خاموش ہو گئی۔
گاؤ نہ اچھا گا رہی ہو۔ ابان دروازے پر کھڑا دوشیزہ سے فرمائش کر رہا تھا۔

نہیں آپ مجھ سے اچھا گاتے ہیں ، یہ غزل آپ کی زبان سے ہی اچھی لگتی ہے ، میں تو بس آپ کے ہونے کے احساس میں گا رہی تھی۔ دوشیزہ نے مسکراتے ہوئے بات بدلی جو کہ اس کا ہنر تھا۔

ابان نے مسکراتے ہوئے پھر سے اصرار کیا۔
یہ عشق بھی ہے کتنا انوکھا معاملہ
اقرار کے بغیر، نہ انکار کے بغیر
دوشیزہ گا رہی تھی۔
پھولوں سے گر بہار  نے بھر بھی دیا تو کیا
دامن میرا اداس رہا خار کے بغیر
ابان گا رہا تھا۔
فرصت ملے تو پوچھ کبھی ان کا حال بھی
جو لوگ جی رہے ہیں تیرے پیار کے بغیر
دوشیزہ گا رہی تھی۔
اس شوخ سے بچھڑ کے ظفر اپنی زندگی
جیسے مکان ہو کوئی دیوار کے بغیر
ابان گا رہا تھا۔
ماحول بے مزہ ہے تیرے پیار کے بغیر،
کیسے پئے شراب کوئی یار کے بغیر
دوشیزہ گا رہی تھی۔

چائے کی میز پر کس طرح وہ دونوں غزل گا کر ایک دوسرے سے اظہار وفا کر رہے تھے ، اس لطف سے وہ خوب واقف تھے۔ ان کی محبت کا انداز ایسا ہی تھا۔

ابان کی محبت دوشیزہ  کے ہر خواب کی تعبیر تھی۔

مگر وہ کون تھا جو ان کے درمیان آ گیا۔ دوشیزہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ دوشیزہ کی اپنی فیملی میں ایک ہی بہن سے دل لگی تھی ۔ اس کے علاوہ اس کے دل کے قریب کوئی بھی نہیں تھا۔ ضمیمہ نے ابان کو کس طرح بدظن کیا تھا یہ ہنر صرف ضمیمہ کا ہی تھا۔ دوشیزہ ضمیمہ سے خوب واقف تھی مگر محبت کی بنا پر ہر چیز سے در گزر کر دیتی تھی۔ ایسا کیا تھا جو ضمیمہ نے ابان کو کہا۔ دوشیزہ آج تک نہیں جان سکی۔

دوشیزہ کی زندگی میں اب اس کی اعلیٰ تعلیم کی ڈگریوں کے علاوہ طلاق کے پپیرز تھے جو رسم جدائی کی نشانی تھے۔ ہم بھی کسی کا خواب تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).