وہ بس ڈرائیور جو خدا بننا چاہتا تھا(عبرانی کہانی کا ترجمہ)


یہ ایک بس ڈرائیور کی کہانی ہے جو تاخیر سے آنے والے مسافروں کے لیے کبھی دروازہ نہیں کھولتا تھا۔ کسی کے لیے بھی نہیں۔ نہ ہائی اسکول کے مجبور بچوں کے لیے جو بس کے پیچھے پیچھے بھاگتے اور حسرت سے دیکھتے رہ جاتے، نہ ان پریشان حال لوگوں کے لیے جو ہوا سے بچاو کی جیکٹیں پہنے بس کے دروازے ایسے بجاتے جیسے وہ دیر سے نہیں آئے ہیں بلکہ بس ڈرائیور نے دیر کی ہے، یہاں تک کہ سوداسلف کے خاکی تھیلے اٹھائے ہوئی عورتوں کے لیے بھی نہیں جو اسے کانپتے ہاتھوں سے رکنے کا اشارہ کرتی رہ جاتی تھیں۔

ایسا نہیں تھا کہ وہ کمینہ انسان ہونے کی وجہ سے دروازہ نہیں کھولتا تھا، بلکہ اس کی فطرت میں تو رتی بھر کمینگی نہیں تھی۔ دروازہ نہ کھولنے کے پیچھے اس کی ایک منطق تھی۔ ڈرائیور کا خیال تھا کہ اگر، دیر سے آنے والے کسی ایک شخص کے لیے دروازہ کھولنے سے بس کی روانگی میں تیس سیکنڈ کی تاخیر ہوتی ہے تو، فرض کریں، بس کے اندر ساٹھ مسافر موجود ہیں، جو بغیر کسی کوتاہی کے بر وقت بس اسٹاپ پہنچے ہیں، مگر دیر کی وجہ سے ہر مسافر کے تیس سیکنڈ ملا کر کل تیس منٹ ضائع ہو جاتے ہیں۔ لیکن دیر سے آنے والے شخص کے لیے بس کا دروازہ نہ کھولنے سے صرف اس کی اپنی زندگی کے پندرہ منٹ ضائع ہوتے ہیں۔ لہٰذا معاشرے کے مجموعی مفاد کے لیے یہ زیادہ بہتر ہے کہ دیر سے آنے والے مسافر کے لیے دروازہ نہ کھولا جائے کیونکہ اس طرح پورے تیس منٹ کے زیاں کے بجائے صرف پندرہ منٹ ہی برباد ہوں گے۔

صرف یہی ایک وجہ تھی کہ اس نے کبھی کسی دیر سے آنے والے کے لیے دروازہ نہیں کھولا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ کسی کو بھی اس کی منطق کا اندازہ نہیں ہے، نہ بس کے مسافروں کو، نہ ہی بس کے پیچھے بھاگتے، اسے رکنے کے اشارے کرتے لوگوں کو۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ زیادہ تر لوگ بس یہی سمجھتے ہیں کہ وہ کتی کا بچہ ہے، مگر ذاتی طور پر اس کے لیے یہ زیادہ آسان تھا کہ لوگ جو سوچتے ہیں سوچتے رہیں، بس ان کی مسکراہٹیں اور شکر گزاری وصول کر لی جائے۔

مگر جب اسے مسکراہٹیں اور سپاس وصول کرنے اور معاشرے کی مجموعی فلاح کے درمیان، کسی ایک چیز کو منتخب کرنا پڑتا تو ڈرائیور خوب جانتا تھا کہ اسے کیا چننا ہے۔

ڈرائیور کے اس نقطہ نظر کی وجہ سے جو شخص سب سے زیادہ پریشان ہوتا تھا اس کا نام ایڈی تھا، لیکن کہانی کے دیگر افراد کے برعکس وہ اتنا کاہل اور لاپروا تھا کہ بس کے پیچھے بھاگنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ وہ اسٹیک اوئے نامی ایک ریستوران میں باورچی کا معاون تھا، ویسے ریستوران کے احمق مالک کو بھی کیا خوب ذومعنی نام سوجھا تھا۔ وہاں کا کھانا تو کچھ خاص نہیں ہوتا تھا، لیکن ایڈی خود بہت معصوم انسان تھا۔ بے چارہ اتنا سیدھا تھا کہ اگر اس کی بنائی ہوئی کوئی ڈش معیار کے مطابق نہیں بنتی، تو وہ اسے خود میز پر جا کر گاہکوں کو پیش کرتا اور معذرت کرتا تھا۔

اسی قسم کی ایک معذرت کے دوران اس کی ملاقات ایک لڑکی کی صورت میں ”خوشی“ سے ہوئی تھی۔ وہ لڑکی اتنی نرم دل تھی کہ ایڈی کا لایا ہوا بیف روسٹ، صرف اس وجہ سے پورا ختم کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ بچا دینے سے ایڈی کا دل ٹوٹ جائے گا۔ یہ لڑکی اسے اپنا نام نہیں بتانا چاہتی تھی اور نہ ہی اسے اپنا فون نمبر دینا چاہتی تھی، لیکن وہ اتنی اچھی تھی کہ ایڈی سے ملاقات پر راضی ہو گئی اور دونوں نے اگلے ہی دن ڈولفیناریئم پر ٹھیک پانچ بجے ملنے کا فیصلہ کیا۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ ایڈی کو ایک بیماری تھی، جس کی وجہ سے وہ زندگی میں پہلے ہی کافی چیزوں سے محروم ہو چکا تھا۔ یہ اس طرح کا مسئلہ نہیں تھا جیسے حلق کے غدود میں سوجن یا اسی قسم کی کوئی کیفیت ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود، یہ بیماری اس کو بہت نقصان پہنچا چکی تھی۔ اس بیماری کی وجہ سے وہ ہمیشہ دس منٹ دیر سے جاگتا تھا، اور کوئی الارم کلارک اسے نہیں جگا سکتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ اسٹیک اوے بھی دیر سے پہنچتا تھا، اور پھر سونے پر سہاگہ ہمارا بس ڈرائیور، جو کسی فرد واحد کے اچھے عمل کی حوصلہ افزائی کے بجائے معاشرے کی مجموعی بہتری کو ترجیح دیتا تھا۔

لیکن چونکہ اس بار، ایڈی کی خوشی داو پر لگی تھی، ایڈی نے اپنی بیماری کو شکست دینے کا فیصلہ کر لیا، اور اس لیے، وہ قیلولہ کرنے کے بجائے ٹی وی دیکھتا رہا اور خود کو جگائے رکھا۔ احتیاطاً، اس نے ایک نہیں، بلکہ یک بعد دیگرے تین الارم لگائے، اور جگانے کے لیے کال وصول کرنے کے لیے بوٹ ایپ پر آرڈر بھی دے دیا۔ لیکن یہ بیماری ناقابل علاج تھی۔ ایڈی بچوں کا چینل دیکھتے دیکھتے کسی بچے کی مانند سو گیا۔ کہیں سینکڑوں الارم بجنے کے بعد ، وہ پسینے میں شرابور جاگا، لیکن پھر وہی دس منٹ تاخیر سے۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے بغیر بس اسٹاپ کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہ تو اب بھاگنا بھی بھول چکا تھا، جب بھی اس کے پیر فٹ پاتھ چھوڑتے وہ لڑکھڑا جاتا تھا۔

آخری بار وہ چھٹی جماعت میں، اس خیال کے آنے سے پہلے بھاگا تھا کہ وہ جم کلاس چھوڑ سکتا ہے۔ ان جم کلاسز کے برعکس، اس بار وہ پاگلوں کی طرح دوڑا، کیونکہ اب اس کے پاس کچھ ایسا تھا جو وہ کھونا نہیں چاہتا تھا، اور اب اس کے سینے کا سارا درد، اور پھولی ہوئی سانس اس کی خوشی کے حصول کی راہ میں نہیں آنے والی تھی۔ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے والی تھی، سوائے بس ڈرائیور کے، جس نے ابھی ابھی بس کا دروازہ بند کر کے اسٹاپ سے نکلنا شروع ہی کیا تھا۔ بس ڈرائیور نے ریئیر ویو شیشے میں ایڈی کو دیکھ لیا تھا، لیکن جیسے کہ ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ اس کی ایک منطق تھی۔ بالکل معقول منطق۔ جو ہر چیز سے بڑھ کر تھا، انصاف کی محبت اور سادے سے حساب پر مبنی۔ مگر ایڈی کو ڈرائیور کے حساب کتاب سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اپنی زندگی میں پہلی بار، وہ کہیں وقت پر پہنچنا چاہتا تھا۔ اور اسی وجہ سے وہ بس پکڑنے کی خاطر اس کے پیچھے دوڑ نے لگا، حالانکہ اس کی کامیابی کا امکان انتہائی کم تھا۔ مگر اچانک ایڈی کی قسمت نے پلٹا کھایا، لیکن آدھا۔۔۔، بس اسٹاپ سے سو گز کے فاصلے پر ٹریفک سگنل تھا۔ اور پھر، بس کے وہاں تک پہنچنے سے لمحہ بھر پہلے، ٹریفک سگنل سرخ ہو گیا۔ ایڈی بس تک پہنچنے میں کام یاب ہو گیا، اور گرتا پڑتا ڈرائیور کے دروازے تک پہنچ ہی گیا۔ اس میں دروازہ بجانے کی بھی ہمت نہیں بچی تھی۔ اس نے بس نم آنکھوں سے بس ڈرائیور کی جانب دیکھا اور ہانپتا کانپتا گھٹنوں کے بل سڑک پر ڈھیر ہو گیا۔

اسے دیکھ کر ڈرائیور کے ذہن میں ماضی کی ایک یاد تازہ ہو گئی، جب وہ بس ڈرائیور نہیں بننا چاہتا تھا، اس وقت وہ خدا بننا چاہتا تھا۔ ایک طرف اس کے لیے یہ مغموم یاد تھی، کیونکہ وہ خدا نہیں بن سکا، لیکن دوسری طرف اچھی بھی تھی، کیونکہ وہ بس ڈرائیور بن گیا، جو کہ اس کی دوسری پسند تھی۔ اچانک اس کو یاد آ یا کہ ایک بار اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ خدا بن گیا، تو وہ سب کے لیے رحیم اور کریم ہو گا اور اپنی تمام مخلوق کی شنوائی کرے گا۔ لہٰذا جب بس ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے اس نے ایڈی کو سڑک پر بے حال جھکے دیکھا، تو وہ برداشت نہیں کر سکا، اور اپنی منطقی اصول اور سیدھے سے حساب کو پس پشت ڈال کر دروازہ کھول دیا، یوں ایڈی بس میں سوار ہو گیا۔ اور شکریہ ادا کرنے کی زحمت بھی نہیں کی، اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔

اس وقت سب سے بہترین بات یہ ہو گی کہ مطالعہ یہاں روک دیا جائے، کیونکہ ایڈی تو ڈولفینارئم وقت پر پہنچ گیا لیکن خوشی نہیں آئی، کیونکہ اس کا پہلے سے ہی ایک بوائے فرینڈ تھا۔ مگر وہ اتنی اچھی تھی کہ ایڈی کو یہ بات کہنے کی ہمت نہیں کر پائی، اور اس کے بجائے اس سے نہ ملنے کو بہتر سمجھا۔ ایڈی تقریباً دو گھنٹے تک خوشی کا اسی بینچ پر انتظار کرتا رہا جس پر دونوں نے ملنے کا فیصلہ کیا تھا۔

وہ وہاں بیٹھا، زندگی سے متعلق ہر قسم کے افسردہ خیالات میں ڈوبا ہوا غروب آفتاب کا خوبصورت منظر دیکھتا رہا، اور دوڑ کے باعث بعد میں ہونے والے پٹھوں کے درد کا سوچتا رہا۔ واپسی پر، جب وہ گھر پہنچنے کے لیے بے چین تھا، اس نے کچھ فاصلے پر بس اسٹاپ پر کھڑی ہوئی اپنی بس دیکھی، جس میں سے مسافر اتر رہے تھے اور سوار ہو رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اس میں بھاگنے کی ہمت ہوتی، تب بھی وہ اس کو پکڑ نہیں پائے گا۔ اس لیے وہ خراماں خراماں، ہر قدم پر جسم کے سینکڑوں تھکے ہوئے پٹھوں کے بارے میں سوچتا ہوا، چلتا رہا۔

آخر کار جب وہ بس اسٹاپ پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اسٹاپ پر ٹھہری ہوئی بس، اس کا انتظار کر رہی تھی۔ حالانکہ مسافر بس آگے بڑھانے کے لیے چیخ پکار کر رہے تھے، لیکن ڈرائیور ایڈی کی راہ دیکھ رہا تھا، اس نے ایڈی کے بس میں بیٹھ جانے تک ایکسلیریٹر کو چھوا بھی نہیں۔ جب بس نے چلنا شروع کر دیا تو اس نے ایڈی کو ریئیر ویو شیشے میں دیکھا اور اسے ایک حزن آمیز آنکھ ماری جس نے یہ سارا معاملہ کسی حد تک قابل برداشت بنا دیا۔

نوٹ : یہ کہانی اسرائیلی ادیب ایٹگر کیریٹ کی ہے ۔  عبرانی میں لکھی گئی ان کی کہانیوں  کے سینتیس زبانوں میں تراجم  ہو چکے ہیں۔ اس   کا ترجمہ انگریزی سے اسماء حسین نے کیا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).