کیا معیشتیں کرپشن کے ساتھ بھی ترقی کر سکتی ہیں؟


کرپشن بلا شبہ ایک فعل بد، سماجی اور معاشرتی برائی اور آئینی اور قانونی طور پر جرم کے زمرے میں شمار کی جاتی ہے۔ کرپشن کے معنی کو عموماً رشوت کے لین دین میں سمجھا اور اور استعمال کیا جاتا ہے لیکن کرپشن کے وسیع معنی ہیں۔ کیمبرج انگلش ڈکشنری کے مطابق کرپشن کی تعریف میں بددیانتی، بدعنوانی، غیر قانونی برتاؤ، فراڈ، جعل سازی، طاقت اور اختیارات کا ناجائز استعمال بالخصوص ان افراد کا جن کو طاقت اور اختیارات تقویض کیے کئئے ہیں شامل ہے۔

ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے مطابق کرپشن جمہوریت کو دھیرے دھیرے کمزور کر دیتی ہے۔ معاشی اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے۔ غربت، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور سماجی برائیوں میں مزید اضافہ کرتی ہے۔

کرپشن اور بدعنوانی کا دائرہ کار نہایت وسیع ہوتا ہے۔ ایک معمولی سرکاری اہلکار سے لے کر جو اپنی خدمات مہیا کرنے کے لئے صارف سے رشوت طلب کرتا ہے اعلی سرکاری افسران، تاجر، سرمایہ دار، کارپوریٹ کمپنیاں، سیاست دان سب ہی اس سماجی لعنت میں شامل ہوتے ہیں۔

شاید ہی کوئی ریاستی ادارہ یا سرکاری محکمہ ایسا ہو جہاں کرپشن خون کی طرح رگوں میں نہ دوڑ رہی ہو۔ چاہے وہ محکمہ پولیس ہو انکم ٹیکس، کسٹم یا ایکسایز ہو، عدلیہ ہو یا ریاستی ادارے ہوں۔ اور اب محکمہ تعلیم اور صحت بھی شدید بدعنوان اداروں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان تمام اداروں کے اپنے اپنے طریقہ واردات ہیں جن سے ملک کی عوام بخوبی واقف ہے اور ہر شہری کو روزانہ ان تمام مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔

یہ تو وہ حقائق ہیں جن سے ملک گزشتہ 70 سالوں سے گزر رہا ہے اور گزرتا رہے گا۔

لیکن اس وقت ہمارا موضوع سخن کرپشن کے ساتھ معیشت کی ترقی بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی معیشتیں کرپشن اور بدعنوانیوں کے ساتھ بھی ترقی کر سکتی ہیں۔ اگر ہم اپنے پڑوسی ممالک جو پاکستان کی ہی طرح غریب اور مفلوک الحال، معاشی اور سماجی بدحالی کا شکار ہیں، لیکن رفتہ رفتہ معاشی اور اقتصادی ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ غربت کا خاتمہ اور آبادی پر کنٹرول کر رہے ہیں، پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنا رہے ہیں تو ہمارا جواب ہو گا کہ ہاں کرپشن کے ساتھ بھی معاشی ترقی کا سفر جاری رکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ کرپشن ترقی کی راہ میں رکاوٹ ضرور بن سکتی ہے لیکن ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔

آج ہم ان ممالک کی معیشتوں کا جائزہ لیتے ہیں جہاں آج بھی کم و بیش اتنی ہی کرپشن اور رشوت ستانی ہے جتنی ہمارے ملک میں، لیکن یہ غریب اور پس ماندہ ملک معاشی اور اقتصادی ترقی کی دوڑ میں پاکستان سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔

ہم پہلے اس ملک کی مثال لیتے ہیں جو نصف صدی قبل ہمارا ہی ایک حصہ تھا۔ جسے ہم نے عضو معطل سمجھ کر کاٹ دیا تھا۔ یعنی بنگلہ دیش۔ بنگلہ دیش میں بھی ایک منتخب وزیر اعظم قتل ہوا۔ وہاں بھی فوجی انقلاب آئے، آمریت بھی مسلط رہی۔

غربت، پس ماندگی، آبادی کا دباؤ، اور قدرتی آفات کی بھر مار سب ہی مصائب اس ملک نے جھیلے۔ لیکن اب یہ سب کچھ ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ بنگلہ دیشیوں نے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔ ان کے مسائل اور مصائب کا حل فوجی آمریت میں نہیں بلکہ جمہوریت میں پنہا تھا۔

گو کہ آج بھی بنگلہ دیش کرپشن سے خالی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جنوبی ایشیا کی گیارہ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سب سے آگے ہے۔ ایشین ڈیولپمنٹ بنک کے مطابق کووڈ اور عالمی کساد بازاری کے باوجود 2020 میں بنگلہ دیش کی شرح نمو یعنی جی ڈی پی گروتھ 5.20 فیصد تھی اور 2021 میں 6.8 فی صد رہنے کا امکان ہے۔ جب کہ ورلڈ اکنامکس فورم نے کورونا سے پہلے بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کا اندازہ 8 فی صد تک لگایا تھا۔

کورونا کی وبا سے جہاں عالمی معیشت کو کھربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ 20 لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن گئے۔ وہیں بنگلہ دیش کی ابھرتی ہوئی معیشت بھی متاثر ہوئی۔

ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019 میں بنگلہ دیش کی کل جی ڈی پی 302.6 بلین ڈالر اور فی کس آمدنی 1855 امریکی ڈالر تھی۔ جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی 272 ارب ڈالرز اور فی کس آمدنی 1284 ڈالرز تھی۔

بنگلہ دیش کی برآمدات 2019 میں 45.7 ارب یو ایس ڈالرز تھیں

اس میں سے ریڈی میڈ گارمنٹس اور ٹیکسٹایل گڈز کا حصہ 20.3 بلین ڈالرز تھا جو بنگلہ دیش کی کل برآمدات کا 44.5 فی صد تھا۔ یاد رہے اس وقت چین کے بعد بنگلہ دیش اپرل برآمدات کا عالمی لیڈر ہے۔ جب کہ پاکستان کی برآمدات گزشتہ دو دہایوں سے 20 ارب ڈالرز کے آس پاس گھوم رہی ہیں۔

سینٹرل بنک آف بنگلہ دیش کے مطابق 2020۔ 21 میں بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 42.973 بلین ڈالر ہیں۔ جس میں سے 80 فی صد زرمبادلہ برآمدات سے حاصل کیا گیا ہے۔ اس میں عالمی مالیاتی اداروں کے قرضہ جات، گرانٹ یا امداد شامل نہیں ہے۔ جبکہ گزشتہ 70 سالوں سے پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالرز سے نہیں بڑھے۔ ان میں سے ایک بڑی مقدار سمندر پار پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقومات اور عالمی مالیاتی اداروں کی امداد شامل ہے۔

اس وقت بنگلہ دیشی کرنسی ٹکہ کی قدر امریکی ڈالرز کے حساب سے 84.62 ہے جبکہ ایک ڈالر میں 160 پاکستانی روپے دستیاب ہیں۔ آئیے ایک اور غریب، پس ماندہ، اور جنگ زدہ جنوبی ایشیائی ملک سری لنکا کی معیشت کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں جو گزشتہ 30 سالہ خانہ جنگی میں تقریباً تباہ ہوجکا تھا۔ تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح سری لنکا بھی رشوت، کرپشن، اور سیاسی بدعنوانیوں میں گھرا ہوا تھا۔ جس کا ذاتی تجربہ راقم کو 1987 میں کولمبو میں ایک مختصر قیام کے دوران ہوا۔ 2009 میں سری لنکا میں تاملوں کے خاتمے کے ساتھ ہی 30 سالہ خانہ جنگی کا اختتام ہوا اور سری لنکا نے ترقی کا سفر شروع کر دیا۔ آج بھی سری لنکا میں رشوت اور بدعنوانی بھی ہے۔ سیاسی اتھل پتھل اور جوڑ توڑ بھی چل رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ترقی کا سفر بھی جاری ہے۔

ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق ایک طویل خانہ جنگی کے بعد بھی سری لنکا کی معیشت کی شرح نمو 2010۔ 2019 کے درمیان 5.3 فی صد تک رہی ہے اور فی کس آمدنی 3852 امریکی ڈالرز تھی۔ اگرچہ مختلف سیاسی اور عالمی کساد بازاری کی وجہ سے سری لنکا کی معیشت کی ترقی کی رفتار سست پڑ گئی۔ لیکن دو کروڑ آبادی والے اس جزیرے کی کل برآمدات 16.14 ارب ڈالرز اور زرمبادلہ کے ذخائر 8 بلین ڈالرز کے قریب ہیں۔

ہندوستان سے کسی بھی شعبے میں ترقی کا موازنہ کرنا نہایت احمقانہ بات ہوگی۔ اکنامکس ٹایمز کے مطابق 2019 میں بھارت کی برآمدات 330 بلین ڈالرز اور زرمبادلہ کے ذخائر 400 ارب ڈالرز سے زائد تھے۔ کیا ہندوستان میں رشوت، کمیشن، سیاسی بدعنوانیاں پاکستان سے کچھ کم ہیں۔ لیکن معاشی اور اقتصادی ترقی اور کامیاب خارجہ پالیسی کی بدولت آج ہمارا ہمسایہ ملک جی۔ 20 گروپ میں شامل ہے اور غریب اور پسماندہ ملکوں کی مالی امداد بھی کر رہا ہے۔

مضمون کی طوالت کی وجہ سے دیگر تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتیں، جو آج بھی کرپشن، کمیشن اور کک بیکس سے خالی نہیں ہیں, کا ذکر ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ ذکر کرنا ضروری ہو گا کہ جنوب مشرقی ایشائی ممالک یعنی آسیان میں دو ماضی کے جنگ زدہ ملک ایسے ہیں جن کی معاشی ترقی کی برق رفتاری پر دنیا حیران ہے وہ ہیں ویٹ نام اور کمبوڈیا جنہیں امریکیوں اور پول پوٹ حکومت نے مکمل مسمار کر دیا تھا۔ آج جب راقم کو شمالی امریکہ کے بڑے بڑے مالز اور سپر مارکیٹ میں ان دو ملکوں کے تیار کردہ اعلی ترین امریکی اور یورپین برانڈ کی مصنوعات نظر آتی ہے تو ہمیں شرم اور غصہ دونوں ہی آتے ہیں کہ ہمارا ملک کمبوڈیا اور ویٹ نام سے بھی گیا گزرا ہو گیا کہ بیرونی دنیا میں ہمیں کوئی پاکستانی مصنوعات نظر ہی نہیں آتیں سوائے شان اور نیشنل کے مصالحہ جات کے وہ بھی پاکستانی تارکین وطن کے استعمال کے لئے۔

ہمیں یہ پڑھ کر نہایت حیرت ہوئی کہ ماضی کے تباہ شدہ ملک ویٹ نام کی سالانہ ایکسپورٹ 300 ارب ڈالرز سے زائد ہے۔ جس میں ٹیکسٹائل گڈز سے لے کر سیل فون اور مشینری تک شامل ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ے کہ ویٹ نام کی سالانہ برآمدات کا 50 فی صد اس ملک کو بھیجا جاتا ہے جس نے اس ملک کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی یعنی انکل سام۔ آج دونوں ممالک کے درمیان بہت اچھے تجارتی تعلقات ہیں۔

ہماری اسٹیبلیشمنٹ کو بھی ایسے ملکوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ ازلی دشمنی چھوڑ کر اپنے پڑوسی ممالک سے دوستانہ تجارتی تعلقات قائم کرے۔ آج کے دور میں کامیاب خارجہ پالیسی کی بنیاد کسی ملک کی کامیاب معیشت ہوتی ہے۔

پاکستان میں لفظ کرپشن ایک گالی بن کر رہ گیا ہے۔ برسراقتدار حکمرانوں اور مقتدر طاقتوں نے کرپشن کو ایک ایسا ہتھیار بنا لیا ہے جس کے ذریعے کسی منتخب وزیر اعظم کو فارغ کیا جا سکتا ہے۔ عوام کے ووٹ سے الیکٹ کی گئی حکومتیں کسی وقت بھی گرائی جا سکتی ہیں۔ کرپشن کے نام پر مخالف سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے خلاف انتقامی کارروائیاں، مقدمے، سزائیں، ان پر کیچڑ اچھالنا، ان کے ساتھ بد زبانی، بد کلامی۔ حسد، منافقت سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک سے تمام عوامی مسائل حل کر دیے گئے ہیں۔ بس صرف کرپشن باقی رہ گئی ہے۔ اربوں ڈالرز جو مخالف سیاسی رہنما ملک سے باہر لے گئے ہیں ان کو واپس ملک میں لانا ہے۔ لیکن ڈھائی سال کا عرصہ گزر چکا ہے کرپشن ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہے۔ باوجود صادق و امین حکومت کی انتہائی کوششوں کے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ سالانہ رپورٹ کے مطابق کرپشن میں پاکستان کا درجہ گزشتہ حکومتوں کے ادوار سے بھی بلند ہو گیا ہے۔ ماشا اللہ کرپشن مائل بہ ترقی ہے۔

کرپشن کمیشن کی صورت میں ہو یا کک بیکس کی شکل میں اس کا ریکارڈ یا سراغ لگانا نہایت مشکل کام ہے۔ ہندوستان میں راجیو گاندھی کے دور حکومت میں سویڈن کے ساتھ 30 کروڑ ڈالرز کے بوفوز معاہدے کے اسکینڈل کی رپورٹ آج 30 برس گرزنے کے بعد بھی سامنے نہیں آ سکی۔ یہی حال لالو پرشاد یادو کے چارا گھوٹالا اسکینڈل کا ہوا۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں اس قسم کے اسکینڈلز سامنے نہ آتے ہوں لیکن ترقی کی رفتار کبھی نہیں رکتی۔

گزشتہ 70 برسوں سے برسراقتدار حکمرانوں، آمرانہ قوتوں اور اشرافیہ نے عوام کو یہ کہہ کر بیوقوف بنایا ہوا ہے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ یہ نازک دور اب اناڑی، نا تجربہ کار، نا اہل، کھلنڈرے اور ناکارہ حکمران ٹولے کے ہاتھوں جانکنی کے عالم میں ہے۔ یہاں جب کچھ ایشیائی اور گورے احباب پاکستان کے حالات کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا جواب دیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).