اجمل خٹک ایک شاعر، ادیب اور سیاسی راہنما


پاکستان کے نامور سیاستدان اور ممتاز شاعر اجمل خٹک 15 ستمبر 1925 کو اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ باچاخان کے پیروکار اور نیشنل عوامی پارٹی کے سرگرم رہنما تھے۔ نیپ پر پابندی کے بعد انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور اس کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں انہوں نے طویل عرصہ تک افغانستان میں جلاوطنی کاٹی۔ واپسی پر 1990 ء سے 1993 ء کے دوران قومی اسمبلی اور 1994 ء سے 1999 ء تک سینٹ کے رکن رہے۔

اجمل خٹک پشتو اور اردو کے اہم قلمکارو‍ں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا مجموعہ کلام اردو میں بھی جلاوطن کی شاعری کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 2007 ء کا کمال فن ایوارڈ بھی عطا کیا تھا۔ 7 فروری 2010 ء کو اجمل خٹک نوشہرہ میں وفات پاگئے اور اکوڑہ خٹک میں آسودۂ خاک ہوئے۔

اجمل خٹک 1925 ء میں اکوڑہ خٹک کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد حکمت خان بھی اس وقت قومی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ مڈل پاس کرنے کے بعد معلمی کاپیشہ اختیار کیا، لیکن ملازمت کے ساتھ ساتھ علمی استعداد بھی بڑھاتے رہے۔ منشی فاضل، ایف اے اور بی اے کے امتحانات پاس کیے۔ ریڈیو پاکستان پشاور سے بطور سکرپٹ رائٹر وابستہ رہے۔ کافی عرصہ روزنامہ انجام پشاور کے ایڈیٹر رہے۔ سیاست میں اجمل خٹک ابتدا ہی سے قوم پرستانہ خیالات کے حامل رہے۔

اسی وجہ سے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہوئے۔ خان عبدالولی خان کی صدارت میں نیشنل عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنے۔ جب 1973 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نیپ کو غیر قانونی جماعت قرار دیا اور حکومت نے پارٹی کے دوسرے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ان کو بھی گرفتار کرنا چاہا تو اجمل خٹک روپوش ہو کر افغانستان چلے گئے وہاں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے لگے۔ اپریل 1989 ء میں بے نظیر بھٹو کے عہد حکومت میں واپس پاکستان آئے اور یہاں کی سیاست میں حصہ لینے لگے۔ 1990 تا 1993 ء قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ مارچ 1994 ء میں چھ سال کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ آخری دنوں میں صحت کی ناسازی کی وجہ سے عملی سیاست سے کنارہ کش رہے۔

بطور شاعر و ادیب اجمل خٹک ترقی پسند تحریک سے متاثر رہے۔ پشتو اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے رہیں۔ دونوں زبانوں میں ان کے مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ جلاوطن کی شاعری اردو میں ان کا مجموعہ کلام ہے۔ جس میں افغانستان کے دوران جلا وطنی کے احساسات و جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔

اجمل خٹک نے صحافت کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ وہ پشتو اور اردو زبانوں کے کئی اخبارات اور رسائل کے مدیر رہے جن میں انجام، شہباز، عدل، رہبر اور باگرام قابل ذکر ہیں۔

اجمل خٹک سماجی نفسیات اور سیاسی داؤ پیچ کے ماہر تھے اسی لیے انہیں جوڑ توڑ، مذاکرات کی میز پر اپنے مخالف کو مشکل صورتحال سے دو چار کرنے، میل ملاپ میں لوگوں کو اپنی سحر میں گرفتار کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔

اجمل خٹک نے سینکڑوں سال سے جاری پشتو شاعری کی روایت کو توڑتے ہوئے اس میں طبقاتی، انقلابی اور مزاحمتی رنگ کچھ اس انداز سے شامل کیے کہ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ’د غیرت چغہ‘ ( غیرت کی صدا ) شائع ہوا تو اس نے پشتون نوجوانوں کے لہو میں ایسی تپش پیدا کردی کہ انہیں اپنی جدوجہد اور تحریک کی مسافت کی منزل بہت قریب نظر آنے لگی۔ ان کی ’جنت‘ کے عنوان سے ایک نظم انقلابی نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی تھی۔

ترجمہ: ( میں نے اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھا، تو میرا دل آسمان کو پکار پکار کر کہہ رہا تھا، میں نے اس کے چند الفاظ سنے، وہ کہہ رہا تھا، کہ اے لا مکان کے مالک، اپنے مکان میں اپنا اختیار جنت ہے، اگر ایسا نہیں، تو پھر اس پاگل پن کے نام پر، اگر سولی ہے تو سولی ورنہ آگ ہی جنت ہے۔ اسی طرح وہ طبقاتی اونچ نیچ کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔

غٹان غٹان ’نیکان نیکان پیدا دی
دویٔ خو لہ زایہ جنتیان پیدا دی
زیٔ ہغہ خوارو لہ جنت اوگٹو
سوک چہ لہ مورہ دوزخیان پیدا دی

ترجمہ۔ بڑے لوگ تو ماں کی کوکھ سے ہی نیک ’پاک اور جنتی پیدا ہوتے ہیں۔ آئیں ان غریبوں کے لئے جنت کمائیں جو ماں کی کوکھ سے دوزخی پیدا ہوئے ہیں۔ اپنے اردگرد غربت کے مناظر دیکھ کر اپنی نظم ”فریاد“ میں خدا سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ۔

ستا د جنت د نعمتونو نہ زار
زہ درتہ اوگی پہ جہان ژاڑم
ستا د دوزخ لہ لڑمانو توبہ
زہ درتہ دا ”لڑمانان“ ژاڑم

ترجمہ۔ تیری جنت میں ہر قسم کی نعمتوں سے صدقے جاؤں، لیکن میں اس جہان کے بھوکوں کا رونا رو رہا ہوں۔ تیری دوزخ کے بچھوؤں سے پناہ مانگتا ہوں لیکن اس بچھوؤں کا کیا کروں جو یہاں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔

دلتہ د گیڈے دوزخ تش گرزوؤ
ھلتہ شو ستا د دوزخونو خشاک
دلتہ ددغہ قصابانو خوراک
ھلتہ د ہغہ خامارانو خوراک

ترجمہ۔ ادھر بھی پیٹ کی دوزخ خالی خولی لئے پھرتے ہیں اور ادھر بھی جاکے دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ ادھر سرمایہ داروں اور جاگیر داروں ( قصابوں ) کا لقمہ زیست بنے ہوئے ہیں اور ادھر دوزخ کے سانپوں کا مشق ستم بنیں گے۔

نہ مو زان تور کہ او نہ سپین پاتے شو
نہ د دنیا شو او نہ د دین پاتی شو
ترجمہ:۔ نہ کالے رہے اور نہ سفید، نہ دین کے رہے اور نہ دنیا کے۔
ستا د سنگینو فیصلو نہ قربان
ولے حیران یم کوم قانون اومنم
تہ خو د خپل قارون پہ مزکے منڈے
زہ د پہ سر باندے قارون اومنم

ترجمہ۔ مولا تیرا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر لیکن حیران ہوں کو نسا فیصلہ تسلیم کرلوں؟ دنیا میں قارون جیسے بڑے سرمایہ دار کو تو، تو نے اس کی دولت سمیت زندہ زمین میں دھنسا دیا۔ اور ( مجھے ) اج کے سرمایہ دار کو قارون مان لیا ہے۔

ستا پہ رضا زما رضا د ہ ربہ
کاڼے ہم نس پورے تڑلے شمہ
خو ’چہ بل خامار پہ خزانو اووینم
آخر انسان یم سنگہ غلے شمہ

ترجمہ۔ اے اللہ تیری رضا پہ میری رضا ہے۔ میں تو اپنے پیٹ پر پتھر بھی باندھ سکتا ہوں۔ مگر جب کسی سرمایہ دار کو ناگ کی طرح دولت پر پھن پھیلائے بیٹھا ہوا دیکھتا ہوں تو پھر آخر انسان ہوں خاموش کیسے ر ہ سکتا ہوں۔

ستا د جنت پہ طمعہ طمعہ چہ مری
دھغہ اوگو پہ سلگو مے قسم
پہ دے دوزخ کے یے نور نشم لیدے
ستا درضوان پہ منارو مے قسم

ترجمہ۔ ان بھوکے اسر افکاس کے مارے ہوئے لوگوں کی آہوں کی قسم جو جنت کی امید میں ہر قسم کی تکالیف برداشت کر رہے ہیں میں ان غریبوں کو اس سرمایہ دار دنیا کی دوزخ میں اور نہیں دیکھ سکتا۔

یا خو د زمکے پہ دے ارتہ سینہ
ماتہ خپل ژوند زما جنت راکڑہ
یا د نہر دوزخی مرگ نہ مخکے
دیوے چغے اجازت راکڑہ

ترجمہ۔ اے میرے رب! یا تو مجھے اس وسیع زمین اور اس کی نعمتوں پر دسترس دیں یا پھر ایک بھوک کے مارے مانند دوزخی کے ایک نعرہ مستانہ کی اجازت مرہمت فرما کیونکہ اس سرمایہ دار اور جاگیردار معاشرے میں میرا انجام ایک دوزخی کی موت جیسے ہے۔

چہ دا ستا اوگی ستا پہ خوان ماڑہ کڑم
یا پہ خپل زان باندے کارغان ماڑہ کڑم

ترجمہ۔ یاتو انقلاب برپا کر کے غریبوں کوتیری نعمتوں تک رسائی دے دوں گا اوراگر انقلاب لانے میں ناکام ہوا تو کیا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ میری لاشیں کوؤں کی خوراک بن جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).