مقبوضہ کشمیراور سفارتی محاذ پر سیاسی جنگ


پاکستان سمیت دنیا بھر میں پانچ فروری کو بھارت کی جارحیت کے خلاف یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد جہاں کشمیری جدوجہد کے ساتھ خود کو جوڑنا ہے وہیں بھارت کی بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنی آواز کو بھی اٹھانا ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جو سلوک وہاں انسانی حقوق کے تناظر میں مقامی کشمیریوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ تاریخ کی بدترین بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ مقدمہ محض کشمیریوں یا پاکستانیوں کا ہی نہیں بلکہ عالمی دنیا کا میڈیا اور معروف انسانی حقوق کے بڑے ادارے اس بنیادی بات پر متفق ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومین رائٹس واچ، یورپی یونین، ایشین واچ سمیت مختلف اداروں کی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پررپورٹس موجود ہیں جو یہ سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں کہ بھارت کا مجموعی رویہ ظالمانہ بھی ہے اور پرتشدد بھی۔ عالمی میڈیا جس میں بی بی سی، سی این این، اخبارات کو اٹھاکر دیکھیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ ”عملی طور پر یرغمالی“ کی زندگی گزاررہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیوپر مبنی زندگی ہے جو معمول کی زندگی کے خلاف ہے اور مقامی لوگ ڈر، خوف، بے چینی اور اضطرابیت کی فضا میں جی رہے ہیں۔

بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35۔ Aکے نفاذ کے بعد کا جو منظرنامہ مقبوضہ کشمیر میں موجود ہے وہ عالمی توجہ چاہتا ہے۔ کیونکہ بھارت ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت وہاں اول مقامی افراد کی آبادی میں نمایاں تبدیلی کرنا چاہتا ہے یعنی ریاست کی اکثریتی مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی عملی کوشش شروع کردی گئی ہے بلکہ غیر مقامی لوگوں کو مقبوضہ ریاست میں آباد کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح مقامی کشمیریوں کی مقامی معیشت کو بھی تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کو باہر کی معیشت پر انحصار کرنا پڑے۔

مقبوضہ کشمیر میں موجود کشمیریوں کو ان کی جدوجہد پر یقینی طور پر خراج تحسین پیش کرنا ہوگا جو نامساعد حالات کے باوجود بھارت کی جارحیت کے خلاف مضبوط دیوار بنے ہوئے ہیں۔ بالخصوص نوجوانوں لڑکوں او رلڑکیوں نے جس جرات مندی کے ساتھ خود کو اس تحریک کے ساتھ جوڑا ہوا ہے وہ بھی قابل دید ہے۔ یہ واحد دنیا کی تحریک ہے جہاں قربانیوں کی ایک لازوال داستان ہے اور کوئی گھر ایسا نہیں جس کا اپنا لہو، قربانی یا شہید اس تحریک میں شامل نہیں۔ کئی بین الا اقوامی اداروں کی رپورٹس اس حد تک خوفناک ہیں کہ دل دہل جاتا ہے کہ بھارت اپنی بربریت میں اس حد تک بھی آگے جاسکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پاکستان سیاسی، سفارتی، قانونی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر کیا کچھ کر سکتا ہے۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں بہت سے کشمیر ی قیادت اور وہاں کی مقامی آبادی کا ایک بڑا بھروسا پاکستان پر ہے۔ اس وقت پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے جس انداز سے بین الا اقوامی دنیا اور عالمی فورمز پر مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی جارحیت کا مقدمہ اجاگر کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ کیونکہ بھارت کو اپنے ہی میڈیا سمیت عالمی میڈیا یا اداروں یا طاقت کے مراکز میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر ایک بڑے دباو کا سامنا ہے۔

خود بھارت کے اندر سے وہاں کا میڈیا، سول سوسائٹی، قانونی ماہرین، سیاسی جماعتیں سب ہی اس نکتہ پر متفق ہیں کہ مودی حکومت جو ہندواتہ کی بنیاد پر ملک کو چلانے کی کوشش کر رہی ہے وہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کو بہتر بنانے کی بجائے اور زیادہ بگاڑ دے گا۔ کئی عالمی ادارے اپنی رپورٹس میں یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ بھارت کو 370 اور 35۔ Aکی شقوں کو واپس لینا ہوگا۔

اگرچہ بڑی عالمی طاقتوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھارت کے طرز پر تنقید کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود عالمی دنیا کے طاقت ور ممالک عملی طور پر بھارت پر کوئی بڑا دباو ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہی بنیادی نکتہ ہے جہاں پاکستان کو سیاسی، سفارتی اور قانونی محاذ پر بہت کچھ کرنا ہوگا۔ بالخصوص انسانی حقوق کے معاملہ کو اپنی ترجیح کا حصہ بنانا ہوگا۔ کیونکہ پاکستان اگر مقبوضہ کشمیرکے معاملے پر عالمی توجہ چاہتا ہے تو اس کی ایک بڑی بنیاد بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو اجاگر کرنے سے جڑ ا ہوا ہے۔ کیونکہ عالمی دنیا اسی انسانی حقوق کے مسئلہ پر اپنا ردعمل بھارت مخالف اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی حمایت میں دے سکتی ہے۔

پاکستان کی ریاستی و حکومتی پالیسی میں ہمیں مقبوضہ کشمیر کے معاملہ کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا اور یہ ترجیح محض تقریروں تک محدود نہ ہو بلکہ ہماری سفارت کاری کی سیاست میں نمایاں طور پر نظر بھی آنی چاہیے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت سابق وزرائے خارجہ اور سیکرٹری خارجہ پر مشتمل ایک بڑا قومی تھنک ٹینک تشکیل دے سکتی ہے جو مقبوضہ کشمیر کے معاملات پر دنیا میں سفارت کاری کے محاذ پر اپنا کردار ادا کریں۔

اسی طرح حکومت کو پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کو فعال کرنا ہوگا اور قومی اسمبلی سمیت صوبائی اسمبلیوں کی سطح پر بھی پارلیمانی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جائیں تاکہ یہ کمیٹیاں قومی اور صوبائی سطح پر فعالیت کا کردار ادا کریں۔ اصل معرکہ پاکستان کو اپنی سفارت کاری میں عالمی دنیا اور فورمز سمیت میڈیا کی سطح پر اٹھانا ہوگا۔ کیونکہ جب تک ہم عالمی دنیا کو اس نکتہ پر نہیں لائیں گے کہ وہ کوئی بڑا کردار بھارت کے ساتھ نہیں کرتا تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہمیں عالمی دنیا میں اس نکتہ کو بڑھانا ہوگا کہ کشمیر کا مسئلہ عالمی ثالثی کا تقاضا کرتا ہے او ربڑی طاقتوں کو اس مسئلہ کے حل میں کوئی بڑ ا کردار ادا کرنا ہوگا۔

پاکستان کو اپنے عالمی سفارت خانوں خاص طور پر بڑے فیصلے کن ممالک میں اپنے کام کو فعال کرنا ہوگا اور حقیقی معنوں میں یہ سفارت خانے ایک بڑے سفیر کے طور پر مسئلہ کشمیر سے جڑے حساس معاملات اور بھارت کے دوہرے معیار کو اجاگر کر کے رائے عامہ کو جوڑنے کی کوشش کریں تاکہ ان کو بھی پتہ چل سکے کہ مقبوضہ کشمیر میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں خاص طور پر ہائر ایجوکیشن کی سطح پر نوجوانوں کو ترغیب دینی ہوگی کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بالخصوص انسانی حقوق سے جڑے معاملات اور بھارت کہ طرز عمل پر مختلف نوعیت کی تحقیقات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں تاکہ سب کو معلوم ہو سکے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ ہمیں کشمیر کی قیادت اور عالمی دنیا کے درمیان ایک بڑے پل کا کردار ادا کرنا ہوگا اوراپنی سفارت کاری میں مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کو ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینی ہوگی۔

اسی طرح داخلی محاذ پر سیاسی جماعتوں سمیت مختلف میڈیا اور سول سوسائٹی کے درمیان مقبوضہ کشمیر کی حکمت عملی اور ہمارے موقف کے تناظر میں ایک اتفاق رائے کی سیاست بھی درکا رہے۔ حکومت او رحزب اختلاف کے درمیان دو مختلف سوچ اور فکر بھی کشمیر کے مقدمہ کو کمزورکرتا ہے جو درست حکمت عملی نہیں۔ ہمیں پارلیمنٹ کے مشترکہ فورم سے ایک مشترکہ آواز جو سب کے اتفاق پر مبنی ہو عالمی دنیا میں پیش کرنی ہوگی جو ظاہر کرے کہ عالمی دنیا سیاسی اور سفارتی محاذ پر مسئلہ کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔

اسی طرح ہمیں عالمی دنیا میں مسئلہ کشمیر کے معاملے پر عالمی تھنک ٹینک یا لابسٹ گروپس کو بھی ساتھ ملک کر عالمی طاقت کے مراکز میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کر رہا اور جو مظالم ہو رہے ہیں ان کو قومی و عالمی میڈیا سمیت سوشل میڈیا کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ عام کریں جو رائے عامہ یا لوگوں کی ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کرسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).