فرصت کو کہاں ڈھونڈیں؟



جو مزہ سست سا پڑے رہنے، تن کو بھاتی سردیوں کی دھوپ سینکنے، خاموشی بھری شانتی کو اپنے اندر اتارنے اورگھر کے آنگن میں بیکار بیٹھے بیٹھے صبح کو شام کرنے میں ہے وہ دنیا کی کسی اور چیز میں ہے ہی نہیں۔

ہم نے بھی ناں یہ زندگی ایک مسلسل ریس بنائی ہوئی ہے، بھاگتے دوڑتے دن کو رات اور رات کو صبح کرنے میں اپنی پوری توانائی لگاتے لگاتے ہم نجانے کتنے ہی خوبصورت لمحات سے کنی کترا کر گزر جاتے ہیں، فرصت ہی نہیں ملتی۔ یوں فرصت کی تمنا میں اپنی ساری حیاتی گزارتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ جب ”ویلے“ ہوں گے تب اس لمحے یا خواہش کو جئیں گے۔

پر صاحبو! عمر رواں کی ریل نے جب ہمیں موت کے سٹیشن پر اتارنے کے لیے اچانک وسل بجانی ہے ناں تب ہمیں پتہ چلنا ہے کہ وہ سارے نرم گرم لمحے، وہ سارے چٹ پٹے اور رسیلے چاؤ، وہ ساری ادھوری خواہشات جو ہم سینت سینت کر، ترتیب لگا کر، سکون سے جینے، کسی ویلے ٹائم میں انجوائے کرنے کے لیے اپنی زنبیل میں ڈالتے چلے آ رہے تھے۔ وہ تو ہم ایک ایک کر کے پیچھے ہی کہیں گراتے چلے آئے ہیں۔ اور تب احساس ہونا ہے کہ ہائے! جینے کو اپنے پاس تو اب اس دل کی جمع پونجی کے علاوہ عمر کی نقدی بھی باقی نہ بچی ہے۔

قسم لے لیں مجھ سے جو آج سے پہلے میں نے اس قسم کی مایوسی بھری باتیں کی ہوں (کہ ایسی باتیں میرے نزدیک سیانوں یا ویلے بابوں کے کرنے کی ہیں) نہ تو میں نے کسی موٹیویشنل سپیکر کا کوئی سیشن اٹینڈ کیا اور نہ ہی میں نے زندگی کے اسرار و رموز سمجھنے کے لیے کسی بابے یا سادھو سے رجوع کیا ہے۔ نہ ہی ایسی گتھیاں سلجھانے کی چاہ میں راتیں جاگ جاگ کر آنکھیں اور کاغذ کالے کیے ہیں۔ اور نہ ہی دوسروں پر اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کا شوق ہے۔ کیونکہ میری اماں کے بقول میں دنیا کی ”کوری“ بلکہ ”کوڑھ مغز ترین“ بندی ہوں۔ یہ ساری باتیں تو آج کی اس چھٹی سے حاصل ہونے والی فرصت نے میرے کان میں ہولے ہولے سنائی ہیں۔

گزشتہ کئی ماہ سے اعصاب شکن مصروفیات نے جسم و جاں کو جکڑا ہوا ہے ۔ ”مصروفیت“ جسے ایک نعمت سمجھتی چلی آ رہی اس پر نظر ثانی کا دل چاہا۔ اپنی وہ سہیلی شدت سے یاد آئی جو جاب کرنے کے حق میں نہیں اور اپنے موقف کی حمایت میں ایک لازوال اور شاہکار دلیل پیش کرتی ہے ، وہ یہ کہ ”کدی بندے دا دل سویرے اٹھن تے نئیں وی کردا ، تے فیر؟“ میں اس کی اس بات پر جی بھر کے ہنسا کرتی۔

تے فیر۔۔۔ آج اپنا بھی سویرے اٹھنے کا دل نہ چاہا۔

صبح چھ بجے الارم کی بیپ پر آنکھ کھلے نہ کھلے مگر خود کو بستر پرے ہٹا کر باہر دھکیلنا ہی پڑتا ہے کہ ایک منٹ کی دیر سے بھی وقت کی ترتیب کا سارا نظام الٹ پلٹ ہو سکتا ہے۔ جس کی رام کتھا پھر کبھی۔

ہم تو وہیں ریس کے گھوڑے کی طرح سر پٹ دوڑنے کو ہی زندگی سمجھے، مصروفیت کو دنیا کی بہت بڑی نعمت گردانتے، پورے دل و جان سے ورکنگ ویمن کم ہاؤس وائف کی ذمہ داریاں نبھاتے اپنے آپ کو خوش اور خوش قسمت گردانتے دوڑتے دوڑتے زندگی گزار رہے تھے۔

لیکن آج احساس ہوا کہ میری وہ ساری سہیلیاں کتنی سمجھ دار ہیں جو زندگی کے اس راز کو پا کر گھریلو مصروفیات کے بعد آرام و سکون سے وہ سارے لطف روزانہ انجوائے کر رہی ہیں جو مجھ پر اس بے مقصد چھٹی نے آشکار کیے ہیں۔ (میرا مقصد ان سکھیوں کی گھریلو ذمہ داریوں کو ہرگز کم تر ثابت کرنا نہیں کیونکہ اپنی زندگی اس دشت کی سیاحی میں بھی ”توڑو توڑ“ ( دھول سے اٹے ) ہوتے گزر رہی۔

سنہری ”ویلے“ دنوں میں جب ولیم ہنری ڈیوس کی نظم ”Leisure“ پڑھی تھی۔

”What is this life if, full of care,
We have no time to stand and stare.
No time to stand beneath the boughs
And stare as long as sheep or cows.
No time to see, when woods we pass,
Where squirrels hide their nuts in grass ”

تو سوچا تھا کہ یہ مہا شے بھی کوئی صوفی سنت ہی ہے، جو زندگی میں فرصت کے لمحات ڈھونڈتے ہوئے، فرصت کی انجوائے منٹ واسطے جن آسائشوں کی لسٹ گنوا رہا ہے، وہ اپنے پاس نہ صرف وافر مقدار میں تھیں بلکہ ہمارے نزدیک فضولیات تھیں کہ بچپن میں جہاں اپنا ”آشیانہ“ تھا۔ وہاں اماں کا ایک باغ اور ہمارے بقول ”جنگل“ تھا۔ اپنے اس آنگن کی صفائی کرتے ان پتوں کی ہئیت و صورت پر اس قدر غور کر چکے تھے کہ ایک جیسے دکھنے والے پتوں سے بھی اندازہ لگا لیتے تھے کہ یہ کون کون سے درخت کی مشمولات رہ چکی ہیں۔ ایک ہی رنگ کے مختلف شیڈز کا فرق بتانے میں عورت کو تو ملکہ حاصل ہی ہے۔ مگر میرے بچپن کے leisure نے مجھے سبز رنگ کے جتنے شیڈز ممکن ہو سکتے وہ دکھائے۔

اور بھلا گلہریاں جدھر مرضی اپنے اخروٹ چھپاتی پھریں ، ہمیں تانک جھانک کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جو فرصت نہ ہونے کا رونا رو رہا اور گائے بھینسوں کے جگالی کرنے، اونگھتے رہنے کو حسرت بھرے ارمان کا درجہ دے رہا۔ بھلا ان کے پاس گھنٹوں دیکھتے رہنے کے سوا اور ہے ہی کیا؟ نہ موٹے اور پتلے دکھنے کی ٹینشن، نہ ساس نندوں کی چغلیاں، نہ شوہر کی نالائقیاں گنوانے کا ہنر، نہ جاب اور گھریلو کاموں کے وقت پر نمٹانے میں گھن چکر بنے رہنے کی دہائیاں۔ اکلوتا کام دودھ دینا ہے جس کو انجام دینے کے لیے بھی انے وا کھانا ہی ہے تو ان ”اللہ لوکوں“ نے مزے سے دانت ہی تو چمکانے ہیں۔

لیکن آج احساس ہوا کہ ولیم بیچارہ سچا تھا، ہم  نے خود زندگی اتنی مشکل بنا چھوڑی ہے کہ زندگی کا اصل لطف کشید ہی نہ کر پاتے۔ فرصت ہے کہ ملنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ مگر فرصت ڈھونڈنے کہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں۔ فرصت تو جب چاہو کسی بھی لمحے حاصل ہو سکتی۔ تو پھر اس نہ ختم ہونے والی مصروفیت سے ایک دن کی ہی سہی بریک لیجیے۔ بے فکری کا ایک دن گزاریے۔ ایک چھٹی ان دائروی کاموں اور الجھنوں سے جنھوں نے ہمارے نہ ہونے کے بعد بھی یونہی جاری و ساری رہنا ہے۔

ایک چھٹی اپنی جاب سے، اپنے بزنس سے، اپنے گھریلو کاموں سے، (بچوں کی چیخ پکار پر جھنجھلانے کی بجائے مسکراتے ہوئے ریفری بننے سے بھی چھٹی لیں کہ ”جاؤ اپنی جنگ خود لڑو، خود ہی فاتح و مفتوح کا فیصلہ صادر کرو“) ۔ چھٹی لیں ہر اس چیز سے جو ایک روبوٹ کی مانند کب سے آپ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یقین مانیں! ”nothing disaster would come“

ایک دن اپنے ساتھ گزاریں، ولیم کی ”Leisure“ والی ایکٹویٹیز تو مزے کی ہی ہیں۔ مگر سستی بھری فرصت انجوائے کرنے کی اپنی لسٹ ہو تو اور بھی اچھا ہے۔

اپنا ایک گھر ہو، جس کے آنگن میں سرمئی دھوپ کو سنہری اور پھر گلابی ہوتے دیکھا جا سکتا ہو، جہاں بارشوں میں مٹی کی سوندھی خوشبو نتھنوں سے ٹکرا سکے۔ زمین پر گلہریاں دوڑتی بھاگتی نہ سہی پر نیلگوں آسمان پر صبح اور شام کے وقت چہچہاتی چڑیوں، پرندوں کی اڈاریں دکھائی دیتی ہوں۔ گھر کے باغیچے میں لگائے پھول اور پودے آپ کی محبت سے کھلے، کھلے اور ہرے بھرے رہتے ہوں۔ کچن میں چولہا جلتا ہو، ہانڈی سے بھاپ اٹھتی ہو، اور دستر خوان پر رکھے کھانوں کی مہک آپ کے پیاروں کو اپنی طرف راغب کر سکتی ہو، آپ کے بچے شکم سیر ہوں اور ان کے لبوں پر ہنسی کی جلترنگ بجتی ہو۔ سننے کو ایک ڈانٹتی ڈپٹتی مگر آپ کی فکر کرتی آواز ہو، مسکراتا ہمدرد چہرہ اور دو پیار بھری آنکھیں آپ کو نظر آتی ہوں

”اور اس کے علاوہ زندگی سے کیا چاہیے؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).