کیا عورت محض جنسی مشین کا نام ہے؟


خواتین کا عالمی دن قریب قریب ہے۔ ایک بار پھر خواتین مختلف قسم کے پلے کارڈ اٹھا کر سڑکوں پر نظر آئیں گی، جن پر مختلف قسم کے نعرے درج ہوتے ہیں۔ ان میں دو نعرے خاص طور پر بہت مشہور ہوئے ”اپنا کھانا خود گرم کریں“ اور ”میرا جسم میری مرضی“ ان دو نعروں کی وجہ سے بہت کچھ کہا اور سنا گیا کہ ”خواتین اپنی حد کراس کر رہی ہیں اور فحاشی پھیلا رہی ہیں“ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کے اندر اتنا زیادہ غصہ اچانک سے کیسے پیدا ہو گیا؟

کیا یہ کوئی بین الاقوامی سازش ہے؟ یا اس کے پیچھے صدیوں کی وہ بوسیدہ سوچ ہے جس کا شکار آج تک خواتین بنتے آ رہی ہیں؟ زیادہ تر روایتی لوگ اسے بین الاقومی سازش ہی قرار دیں گے کیونکہ ہمیں اکثر ایسے لگتا رہتا ہے کہ کفار ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں یعنی ان کے پاس کرنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔

مشہور فرانسیسی لکھاری اور دانشور Simone de beavoir نے اپنی مشہور کتاب دی سیکنڈ سیکس میں خواتین کے کردار اور معاشرتی جبر کو موضوع بحث بنایا ہے، سیمن دی بوا نے نظریہ فیمن ازم کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی اور ان کی ایک بڑی گہری وابستگی تھی انیسویں صدی کے بڑے مشہور فلاسفر اور فلسفہ وجودیت کے بانی ژاں پال سارتر کے ساتھ اور دونوں نے مل کر فلسفہ وجودیت پر بہت سا ادب تشکیل دیا۔

سیمن دی بوا دی سیکنڈ سیکس میں یہ بتانے کی کوشش کرتی ہے کہ مرد کے کردار کو معاشرے میں absolute character کے طور پر پیش کیا گیا ہے جبکہ خواتین کے کردار کو پریگنینسی، حیض اور نسوانیت کی وجہ سے ”other“ میں شمار کیا جاتا ہے اور اسے ایک passive character کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مرد کے لیے کوئی باؤنڈری نہیں ہے وہ ہر طرح سے آزاد ہے جبکہ عورت کو بتایا جاتا ہے کہ اس کو ”کیسی عورت بننا ہے“ اس طرح سے عورت کا کردار other میں چلا جاتا ہے یعنی سوسائٹی سے بالکل الگ تھلگ کردار کے طور پر اس کی شناخت قائم کی جاتی ہے، سیمن اس مائنڈ سیٹ کی جڑیں تاریخ میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ بڑوں بڑوں نے عورت کی انسانی شناخت کو ایک طرف کر کے اس کو ایک جنس کے طور پیش کیا ہے اور جنس بھی وہ جو مرد سے ہر لحاظ سے کمتر ہے۔

عورت کا کام صرف اور صرف اطاعت کرنا ہے اور آج بھی خاتون کو انسان کے طور پر کم اور جنس کے طور پر زیادہ لیا جاتا ہے حالانکہ مرد ان تجربات سے نہیں گزرتا جن سے خواتین گزرتی ہیں۔ سیمن خواتین کے بارے میں تاریخی طور پر من گھڑت کہانیوں کو رد کرتی ہے بالکل اسی طرح وہ ارسطو، تھامس اکوائنس کے خیالات کو فضول گردانتی ہے۔ یہ دونوں شخصیات خواتین کو کچھ اس زاویے سے دیکھتے ہیں۔

Aristotle argued, women are female by virtue of a certain lack of qualities.
Thomas equines argued, women as “imperfect man” and the “incidental” being.

یہ دونوں اقوال خواتین کے کردار کی تصویر مزید واضح کر دیتی ہیں اور ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ جان بوجھ کر عورت کے کردار کو محدود کیا گیا ہے۔ ہمیں اسی مائنڈ سیٹ کی جھلک اپنے سماج میں بھی ملتی ہے، ہماری معاشرتی بنت میں بھی عورت کو صرف چار دیواری کی زینت سمجھا جاتا ہے، زندگی کی تمام روشنیوں سے محروم کر کے صرف زبان کی حد تک گھر کی لکشمی تصور کیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جب خاندان کا بیٹا بگڑ جاتا ہے، بری علتوں کا شکار ہو کر شراب و کباب کے مزے لوٹنے لگتا ہے تو خاندان کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سربراہ فیملی یعنی باپ اپنے بیٹے کی شادی کر دیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ آنے والی لکشمی اس کو سنبھال لے گی۔

شاید شادی کے بعد بیٹا بھی سدھر جائے یعنی دوسروں کی بیٹی آپ کے بگڑے نواب کو درست کرنے کے لیے ہے۔ کیا دوسروں کی بیٹیاں بلی چڑھانے کے لیے ہوتی ہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ اپنے بیٹے کی تربیت کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ بیٹیاں تمام دکھوں اور مصائب کے باوجود بھی اف کیے بغیر سب کچھ سہتی رہتی ہیں اور اپنے والدین کو کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دیتیں۔ اس طرح کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں اور ایسی بہت سی خواتین موجود ہیں جو نہ صرف اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں بلکہ گھر کی آمدن میں اضافہ کرنے کے لیے گھریلو سطح پر مختلف کام بھی کرتی ہیں۔

کچھ خواتین سلائی کڑھائی کر کے اپنے بچوں کے علاوہ اپنے نشئی اور بے روزگار شوہر کو بھی پالتی ہیں۔ اس کو صنف نازک ضرور کہا جاتا ہے مگر جب یہ کچھ کرنے کا ٹھان لیتی ہے تو پھر پیچھے نہیں ہٹتی۔ یہی خواتین پیٹ کی بھوک کو مٹانے کے لیے مختلف سبزیاں کاشت کرتی ہیں اور کپاس وغیرہ چنتی ہیں، سڑکوں پر بجری وغیرہ ڈالتی ہیں اور بعض دفعہ تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کپاس چنتے وقت یا سڑکوں پر بجری کی ٹوکریاں پھینکتے وقت اکثر مائیں اپنے دودھ پیتے بچے کو ایک جھولی میں ڈال کر گردن کے سہارے اٹھا لیتی ہیں اور اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔

عورت اپنے عزم اور حوصلے سے ہر مشکل فریضہ سر انجام دے سکتی ہے مگر معاشرتی ڈکشنری میں اسے ایک کمزور عورت اور جنسی مشین سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی گئی، اس کی صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگایا گیا اور اس پر زندگی کے تمام راستے بند کر دیے گئے۔ المیہ یہ ہے کہ مردانہ برتری کے سماج میں مردوں کی غالب اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ عورتوں سے قطعاً مشورہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ عورت جذباتی ہوتی ہے اور جذبات کی رو میں بہہ کر عقلی فیصلوں سے عاری ہو جاتی ہے اسی لیے اکثر دیہاتوں میں والد گھر کی چار دیواری سے باہر اپنے بچوں سے راز و نیاز کرتا ہے اور اس رازداری کے پیچھے یہ منطق کارفرما ہوتی ہے کہ کہیں گھر کی خواتین کو بھنک نہ پڑ جائے۔

دیکھنے میں یہ بظاہر ایک چھوٹا سا عمل ہے لیکن اس کے اثرات بہت دور تک جاتے ہیں، حقیقت میں سربراہ فیملی مخفی طور پر اپنے بچوں کی ذہنی تربیت کر رہا ہوتا ہے تاکہ وہ بھی اپنی آنے والی زندگی میں اس چلن کو جاری رکھیں اور یہی روش ایک مکروہ سرکل میں ڈھل جاتی ہے۔

میرا تعلق دیہات سے ہے، دیہاتوں کی اکثریت زیادہ تر ان پڑھ افراد پر مشتمل ہوتی ہے، بدقسمتی سے یہاں پر مرد عورت کا رشتہ ایک طرح سے رسمی سا ہوتا ہے ذرا سی نافرمانی اور حکم عدولی پر شوہر اپنے بچوں کے سامنے بیوی کو بری طرح سے پیٹ ڈالتا ہے۔ یہاں پر گھریلو معاملات کو چلانے کے لیے عورت سے مشورہ کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اور خاتون کا کام بچے جننے اور بچے پالنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ البتہ پڑھے لکھے گھرانوں میں اس طرح کا چلن اب بہت کم ہونے لگا ہے۔

حقیقت میں عورت ایک جیتے جاگتے وجود کا نام ہے اور منبع تخلیق ہے۔ اس کی کوکھ زندگی کی علامت ہے، زندگی اس کی کوکھ کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ زندگی کی خوبصورت تصویر عورت کے بغیر نامکمل ہے اور زندگی کے خوبصورت راگ عورت کے ہی مرہون منت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).