آر پار کے بازی گروں کا کھیل


پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی اور کشمکش کی ایک طویل داستان ہے، ہمارے جمہوری مزاج میں تحمل، برداشت اور رواداری کی کوئی بھی قابل ذکر اور قابل تقلید مثال نظر نہیں آتی، اپوزیشن جماعتوں نے جب بھی احتجاج کا راستہ اختیار کیا اور حکومت گھر بھیجنے کی تحریکیں چلائیں تو نقصان جمہوریت کا ہی ہوا ہے، ملک آگے جانے کے بجائے پیچھے ہی گیا ہے، سیاسی قیادت اس ادراک کے لئے تیار نہیں ہے کہ آپس کی لڑائی میں فائدہ غیر سیاسی قوتوں کا ہو گا، اس لیے آر پار کی بازی کا گھناؤنا کھیل کھیلنے کی بجائے صلح کی بات کرنی چاہیے، مگر جب ہر طرف لڑائی ہی لڑائی ہونے لگے اور اسمبلی میں بھی فضا سازگار نہ رہے تو پھر صلح کی بات کہاں اور کیسے ہو سکتی ہے۔

پی ڈی ایم ایوان کے اندر اور باہر سیاسی تلخی کے ماحول میں بھی لانگ مارچ کرنے جا رہی ہے، اس کا مطلب ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت، استعفوں کی بات کہیں پیچھے رہ گئی اور ایک دوسرے پر دباؤ بڑھانے کے لیے نئی حکمت عملی وضع کر لی گئی ہے، حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں مزید تصادم کے اندیشے قوی تر ہوتے دکھائی دیتے ہیں، اس تناظر میں ملک کی سیاسی قیادت سے سوال بنتا ہے کہ آیا سیاست اسی طرز عمل کا نام ہے جو آپ سب نے اپنا رکھا ہے؟

کیا عوام اس بات سے بے خبر ہیں کہ کون کیا چاہتا ہے؟ جن ایشوز پر اپوزیشن سراپا احتجاج ہے ، کیا ایوانوں میں زیر بحث نہیں آنے چاہئیں اور کیا ایسے احتجاجوں سے منتخب حکومت رخصت کرنے کی تمنا جمہوری اور آئینی ہے؟ یقیناً نہیں، یاد رہے کہ سیاست بند گلی میں داخل ہونے کا نام نہیں، ڈائیلاگ سے مسائل حل کرنے کا نام ہے۔

یہ امر واضح ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک دم تورنے لگی ہے، اس تحریک میں نیا جوش جذبہ پیدا کرنے کے لیے لا نگ مارچ کا فیصلہ کیا گیا ہے، اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ مہنگائی، بے روز گاری کے ستائے عوام لانگ مارچ کا حصہ بنیں گے جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں، عوام جہاں مہنگائی، بے روز گاری سے تنگ ہیں، وہیں آزمائے ہوؤں کو دوبارہ آزمانے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں، عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں، عوام چاہتے ہیں کہ منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرتے ہوئے عوامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے، اگر موجودہ حکومت نے بھی عوام کے دیرینہ مسائل حل نہ کیے تو دوبارہ اسے موقع نہیں دیا جائے گا۔

تحریک انصاف کی حکومت عوامی مسائل کے حل کی خواہاں ہے لیکن اپوزیشن آئینی طریقے کی بجائے غیر آئینی طریقے سے حکومت کو گھر بھیجنے پر بضد ہے، اپوزیشن کچھ مقتدر قوتوں کی پشت پناہی کے باعث خوش فہمی کا شکار ہے کہ وہ حکومت گرانے میں کامیاب ہو جائیں گے، جبکہ حکومتی پارٹی لانگ مارچ، دھرنے کا تجربہ رکھتے ہوئے اچھی طرح جانتی ہیں کہ اگر اعصاب مضبوط ہوں تو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے باوجود بھی دھرنا کامیاب نہیں ہو سکتا ، لہٰذا اپوزیشن کا لانگ مارچ، قافلوں کے دو تین یوم میں اسلام آباد پہنچ کر ایک بڑا جلسہ کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکیں گے، حکومت گھر جائے گی نہ مرکز یا صوبوں میں کوئی تبدیلی آئے گی، البتہ اپوزیشن بھاؤ تاؤ لگوانے میں کسی حد تک کا میاب ہو سکتی ہے۔

یہ پاکستانی سیاست بھی عجیب ہے، یہاں جو دکھتا ہے، وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے، وہ دکھتا نہیں ہے، ایک طرف پی ڈی ایم کے مشترکہ فیصلے ہو رہے ہیں تو دوسری جانب طاقت ور حلقوں سے مک مکا یا ڈیل کی کوششیں بھی جاری ہیں، جبکہ عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے یقین دلایا جا رہا ہے کہ پس پردہ کوئی رابطے نہیں ہیں، شیخ رشید درست کہتے ہیں کہ سب کے رابطے ہیں اور سیاست میں رابطے بند نہیں ہوتے ہیں، یہ انہی رابطوں کا نتیجہ ہے کہ نئے سافٹ وئیر انسٹال ہونے پر رویوں میں تبدیلی کے ساتھ سہولتیں بھی ملنے لگی ہیں۔

یہاں ہر سیاسی جماعت اپنے مفادات کو لے کر اپنا بھاؤ تاؤ کرنے پر تیار ہے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی فوری طور پر اپنے مقدمات سے جان چھڑانے کے لئے بھاؤ تاؤ کر رہی ہیں، اس حوالے سے کہیں پر کچھ نہ کچھ انڈراسٹینڈنگ ہو چکی ہے، اس کا اشارہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر ہتھ ہولا رکھنے کی پالیسی سے نظر آنے بھی لگا ہے۔

یہ افسوس ناک امر ہے کہ ملک میں جمہوریت کے سب ہی دعوے دار ہیں، مگرجمہوری روایات اپنانے کے لئے تیار نہیں ہیں، گزشتہ اڑھائی برس کے دوران اپوزیشن اور حزب اقتدار نے پارلیمنٹ کو بالادست بنانے کے لئے کوئی لائق تحسین کام نہیں کیا۔ پارلیمنٹ کو مقدس ایوان کہنے والے ، اس کی بالادستی کی بات کرنے والے اور اسے جمہوری نظام کا مرکز تسلیم کرنے والے مسلسل اسی ایوان کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

ایسا لگنے لگا ہے کہ سیاسی خاندانوں کے مفاد میں جو قانون اور ادارہ مزاحم ہو گا، اس کو بے توقیر کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا، اپوزیشن جب تک جمہوریت اور آئین کی حتمی بالادستی کے لئے اپنے اہداف واضح نہیں کرے گی، ناکام و نامراد ہوتی رہے گی اور طاقت کے اصل کھلاڑی اقتدار پر مسلسل قابض رہیں گے۔

بہتر راستہ یہی ہے کہ ایوانوں کی بالادستی قائم کرتے ہوئے انہیں مضبوط بنانے کی سعی کی جائے، وگرنہ جو ایوان کے اندر اور باہر آر پار کی بازی کا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس کے نتائج کسی کے لیے بھی خوش کن نہیں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).