لب آزاد ہوں نہ ہوں لیکن ہاتھ تو آزاد ہیں


چند دن قبل سپریم کورٹ میں معزز جج صاحبان قاضی فائز عیسیٰ اور مقبول باقر کی عدالت سجی ہوئی تھی۔ کمرہ عدالت میں اٹارنی جنرل اور صحافی بھی مقدمہ کی کارروائی سن رہے تھے۔

مقدمہ تو خیر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تھا لیکن کارروائی کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایسے موضوع کو چھیڑا، یوں سمجھ لیں، جیسے ہم صحافیوں کی نبض پر ہاتھ رکتے ہوئے اقتدار کے رکھوالوں کی دکھتی رگ پر چوٹ مار دی ہو۔

”آپ لوگ میڈیا کا گلا کیوں گھوٹ رہے ہیں؟ جمہوریت میں اظہار کی آزادی ہوتی ہے لیکن یہاں تو بولنے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ ہر مخالف غدار اور حکومتی حمایت کرنے والا محب وطن بتایا جا رہا ہے۔“ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے سخت ریمارکس پر کیمرہ عدالت میں سناٹا چھا گیا اور سرکار کے وکلاء پر خاموشی طاری ہو گئی۔

اچھا تو یوں کرتے ہیں، قاضی فائز عیسی صاحب نے کہا، کہ یہاں موجود صحافیوں سے ریفرنڈم کرا لیتے ہیں۔
ملک میں میڈیا آزاد ہے تو ہاتھ اٹھائیں! کوئی ہاتھ بلند نہ ہوا۔
اگر ملک میں میڈیا آزاد نہیں تو ہاتھ اٹھائیں! کمرہ عدالت میں موجود تمام صحافیوں نے ہاتھ بلند کر دیے۔

گویا نتیجہ سو فیصد یعنی فوجی حکمرانوں جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے ”انجینئرڈ“ اور ”ناجائز“ ریفرنڈموں سے زیادہ اور سچا بھی۔ ماضی میں عدلیہ کے فوجی ڈکٹیٹروں کا ”نظریہ ضرورت“ کے تحت ساتھ دینے کی تاریخ اور خود قاضی فائز عیسیٰ کا ذکر، جو ان دنوں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے ”نالاں“ لگتے ہیں ذرا دیر میں کرتے ہیں۔

تاہم اس دن کمرہ عدالت میں صحافیوں کے بلند ہونے والے ہاتھوں کی تعداد تو چند ہی ہو گی لیکن سپریم کورٹ سے کچھ گز کے فاصلے پر واقع عمران خان کے وزیر اعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ کی عمارتوں پر پڑنے والا عکس ہزاروں احتجاجی ہاتھوں کا ہو گا۔ اس ملک میں صحافت پر پابندیوں کی تاریخ تلخ اور پرانی ہے۔ منتخب حکومتیں ہوں یا فوجی آمرانہ ادوار صحافت اقتدار کے طاقتور شکنجوں سے آزادی کی پنجہ آزمائی اور کشمکش میں زندگی بسر کر رہی ہے۔

لیکن صحافی اس دور کو برخلاف ماضی مشکل ترین کیوں گردان رہے ہیں اور ایسا کیوں سمجھ رہے ہیں کہ وہ پابندیوں کے طوفانی جھکڑوں کی لپیٹ میں ہیں؟ اخبارات کے دفاتر ہوں یا ٹی وی چینلز طوفان میں پرندوں کے گھونسلوں کی طرح غیر محفوظ لگتے ہیں۔ معاشی تنگی صحافیوں کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے اور صحافت جیسے پناہ گزینوں کی طرح کسی پناہ گاہ کی تلاش میں بھٹک رہی ہو۔

ایسا سمجھنا اور محسوس کرنا شاید درست بھی ہے اور درست نہیں بھی۔

معاشرہ میں صحافت اور آزادی اظہار کو عدم برداشت، انتہا پسندی، غیر جمہوری رویوں کے اژدھے نے دہائیوں سے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کبھی گرفت کم تو صحافت کو سانس لینے کی گنجائش زیادہ اور گرفت مضبوط تو دم گھنٹے لگتا ہے۔ ان دنوں صحافت کو سانس لینے میں دشواری اور دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔

ایک حاشیہ کھنچا ہوا ہے، جیسے نائن الیون کے بعد صدر بش نے جنرل مشرف کو دھمکی بھرا فون کر کے کہا تھا یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف یعنی دشمن۔

آج کل ہر حکومت مخالف تنقیدی آواز کو دشمن کی آواز یا کسی سیاسی حریف جیسے پیپلز پارٹی یا نون لیگ کی سازش کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ حکومت کی حمایت کی آواز کو حق اور سچ کی آواز تسلیم کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے درباریوں کے توسط سے خلعتوں سے نوازا جاتا ہے۔ تنقید کرنے والوں کے نصیب میں ”ملک دشمن“ اور ”غداری یا“ لفافہ جرنلسٹ ”کے القابات آتے ہیں۔

ادھر اپوزیشن جماعتیں حکومت کے حق میں رائے رکھنے والوں کو ”غیر جمہوری“ اور عمران خان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا ”پٹھو“ سمجھتی ہیں۔ ان جماعتوں کے بھی سوشل میڈیا پر درباریوں کے قافلے قصہ سرائی اور ٹویٹر پر تیر اندازی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ تنقید کے لیے کسی کی برداشت زیادہ کسی کی نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس سیاسی جنگ کی خطرناک مہم جوئی اور بد تہذیبی کا اکثر اہداف صحافی بالخصوص خواتین صحافی بنتی ہیں۔ ایک انتشار کی سی صورتحال ہے۔ انتہاپسند گروہوں نے معاشرے میں پہلے ہی عدم برداشت کی فضاء قائم کی ہوئی تھی، وہاں سیاسی جماعتیں بھی ویسا ہی روپ ڈھالتی نظر آ رہی ہیں۔ انتہاپسند اور غیر جمہوری روایتوں کی دلدل میں پھنسے معاشرے میں صحت مند صحافت اپنے اصولوں اور اقدار کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتی ہے؟

حکومت وقت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ”غیر معمولی ہم آہنگی یا پارٹنرشپ“ یا ”ایک پیج“ پر ہونے کو جہاں سیاسی اور عسکری قیادت کے تعلقات میں توازن اور بعض سیکورٹی معاملات میں اچھا شگن سمجھا جا رہا ہے، وہاں شاید صحافت کے لیے مشکلات بھی ہیں۔

اگر حکومتی پالیسیوں پر صحافتی تنقید ہوتی ہے تو بعض اوقات اسٹیبلشمنٹ کو گراں گزرتا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کی کوئی پالیسی تنقید کی زد میں آئے تو فوراً ہی حکومتی وزراء اور مشیران شاید کبھی زیر ہدایت اور کبھی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے روپ میں ”غیر ملکی ایجنٹ“ اور ”غداری“ کے سرٹیفیکیٹس تقسیم کرتے نظر آتے ہیں۔ فیٹف کا مسئلہ ہو یا خارجہ پالیسی میں سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات میں توازن کا معاملہ ہو یا سی پیک پر لب کشائی، تجزیہ یا رائے کے اظہار کا مطلب اکثر و بیشتر مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

بدلتے حالات میں آزادانہ صحافت کے لیے ریاستی، غیر ریاستی عناصر اور سرکاری پابندیاں ہی رکاوٹیں ثابت نہیں ہو رہیں۔ مذہبی جماعتیں ہوں یا سیاسی جماعتیں، لسانی گروہ ہوں یا فرقہ وارانہ جتھے، جہاں معاشرے میں انتہاپسندی کو فروغ دے رہے ہیں وہاں صحافت کے لیے نت نئے خطرات بھی جنم لے رہے ہیں۔

صحافتی دنیا کے اپنے مسائل بھی صحافت کو کمزور کر رہے ہیں۔ بد قسمتی سے مشرف دور میں ہمارا الیکٹرانک میڈیا ریاستی میڈیا سے سیٹھوں کے ہاتھوں منتقل ہوا۔ اس سے قبل صرف پاکستان ٹیلی ویژن تھا اور پھر یک دم پرائیویٹ چینلز کی بھرمار دیکھنے میں آئی۔

بیشتر مالکان یا سیٹھوں کی ترجیحات میں کاروباری مفادات کو فوقیت حاصل ہے۔ کاروباری کمزوری کا فائدہ موقع مناسبت سے سیاسی جماعتیں ہوں یا حکومت یا پھر ادارے سب ہی اٹھاتے ہیں۔ اشتہارات کی مجبوری یا کمزوری آزاد صحافت کو پس پشت ڈالتی ہے۔

اس ماحول میں بعض میڈیا ہاؤسز اور کچھ صحافی ساتھیوں اور اینکرز نے صحافتی اقدار کی باریک لکیر کو کراس کر کے حکومت اور اپوزیشن کے سیاسی خیموں میں صف آرائی کی ہوئی ہے، جو کردار بدقسمتی سے ایکٹیوازم کے زمرے میں آتا ہے۔

صحافت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا رپورٹر ایک پورٹر میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔ ”ہدایتی“ واٹس اپ میسیجز، پروموشنل خبریں یا سیاسی بیانات رپورٹر کی وزن دار خبروں پر فوقیت لے جاتی ہیں۔ ایڈیٹر کا مقدس لبادہ یا تو مالکان خود زیب تن کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر اپنے منظور نظر ”میڈیا مینیجر حضرات“ کو پہناوے کے طور پر عطا کرتے ہیں۔ روپ ڈھالنے سے کردار تو تبدیل نہیں ہوتے، جیسے صحرا میں دھوکے اور فریب کے سراب میں سفر منزل تک نہیں پہنچتا۔

بڑھتی سینسرشپ کی وجہ سے صحافیوں میں سیلف سینسرشپ بھی سرایت کرتی جا رہی ہے۔ محفوظ دائرے بنا لیے ہیں، نا محفوظ دائرہ یا خطرناک حدود کراس کریں گے نا سینسر شپ لگانے والوں سے ٹکراو ہو گا۔ ایک خطرناک رجحان، جو صحافت کے مزاحمتی کردار کو کمزور کر رہا ہے۔

لیکن صحافیوں کی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ بھی ہے۔ ضیاء دور میں آزادی صحافت اور جمہوریت کی بحالی کے لیے صحافیوں نے گرفتاریاں اور کوڑوں کی سزائیں برداشت کیں۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً سوا سو صحافیوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے نے ستر سال کی جدوجہد پر مبنی ”جبری برطرفیوں سے کوڑوں (کی سزاؤں ) تک“ کے ٹائٹل سے کتاب جاری کی ہے۔

سینئر ساتھی مسرور کمال کی آپ بیتی بھی شامل ہے۔ لکھتے ہیں ضیاء دور کے خلاف صحافیوں کی گرفتاریاں پیش کرنے کی مہم جاری تھی تو بعض اوقات ساتھیوں کو ویران قبرستان کی خالی قبروں میں چھپا دیا جاتا تھا تا کہ وہ اگلے روز سر عام گرفتاری پیش کر سکیں۔ اس دور میں جمہوریت کی بحالی اور آزادی صحافت کی جدوجہد میں ٹریڈ یونین کی تنظیموں، سیاسی اور صحافتی کارکنوں میں اتحاد تھا۔

ان دنوں دوہرے اور دوغلے کردار کا راج ہے۔ اقتدار میں صحافت پر پابندیاں، خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جب چند برس قبل بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے تو اخبارات پر کالعدم تنظیموں کے بیانات کی اشاعت پر پابندی عائد کی تھی۔ ایک سینئر صحافی نے انہیں عدالت میں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”جج صاحب ہم صحافیوں کو آپ کی طرح سیکیورٹی حاصل نہیں۔ دفتر سے رات کو گھر لوٹتے ہیں تو سڑک پر ہم یا پھر آوارہ کتے ہوتے ہیں۔“

اقتدار میں جنرل ایوب ہوں، ضیاء، مشرف یا بھٹو ہوں یا نواز شریف یا موجودہ حکمران، یہ سبھی صحافتی آئینے میں اپنی مرضی اور خود سرائی کا عکس دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اپوزیشن میں لب پر فیض کے انقلابی اشعار ہوتے ہیں۔ اس دن سپریم کورٹ میں موجود ہاتھ بلند کرنے والے ایک صحافی کا جملہ یاد آ گیا۔ ”لب آزاد ہوں نہ ہوں لیکن ہاتھ تو آزاد ہیں۔“
بشکریہ ڈوئچے ویلے۔

اویس توحید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس توحید

اویس توحید ملک کے معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں ای میل ایڈریس owaistohid@gmail.com Twitter: @OwaisTohid

owais-tohid has 34 posts and counting.See all posts by owais-tohid