علی ترین کی لانچنگ تبدیلی کا آغاز ہو سکتی ہے


ایوان بالا کے انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں، سیاسی سرگرمیاں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں، حکومت اور اپوزیشن کی جانب سیاسی بیانات کے گولے ایک دوسرے پر داغے جا رہے ہیں، حکومت کا کہنا ہے اپوزیشن سیاسی وفاداریاں خریدنا چاہتی ہے مگر ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایوان بالا کے انتخابات میں شفافیت لائی جائے گی جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت حواس باختہ ہو چکی ہے اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ اس لیے اپنے ارکان کی بغاوت دبائے کے لئے صدارتی آرڈیننس جاری کر دیا جو کہ آئین اور پارلیمان پر حملہ ہے۔

سیاست نام ہی اسی چیز کا ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جائے، اپوزیشن کی کامیابی ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ حکومت کو مصیبت ڈالے رکھے، موجودہ حالات میں اپوزیشن اس کام میں کامیاب نظر آتی ہے، ایوان بالا کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کا صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں بجھوانے کے باوجود ایوان بالا کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کا آرڈیننس جاری کر دیا گیا جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔

سینیٹ الیکشن کے لیے اگر حکومت اور اپوزیشن کی چالیں دیکھی جائیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہر دور میں حکومت اور اپوزیشن یہ کام کرتی چلی آئی ہے، بات صرف اتنی ہے کہ جس کا بھی تیر نشانے پر لگ جائے اس سے گیم پلٹ سکتی ہے، اہم بات یہ ہے کہ ایوان بالا کے انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں، حکومتی پارٹی تحریک انصاف کے اپنے وزرا، ارکان اسمبلی اور جہانگیر ترین کی کمی کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

چند روز قبل تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی میں فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض کھل کر بولے اور تجویز دی کہ کسی نہ کسی طرح جہانگیر ترین کو واپس لایا جائے اور ان کو ایوان بالا کے انتخابات کے لئے پارٹی امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے بورڈ کا چیئرمین بنایا جائے تاکہ پارٹی کو نقصان نہ پہنچے، گزشتہ روز وفاقی وزیر فواد چودھری نے بھی ایک انٹرویو میں جہانگیر ترین کے قصیدے پڑھے اور ان کو پارٹی کا سرمایہ قرار دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ ان کے جانے سے پارٹی کمزور ہوئی ہے، اس کے علاوہ پارٹی کارکن بھی جہانگیر ترین کو واپس لانے کا مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں

جہانگیر ترین کی تحریک انصاف کے لیے خدمات کا اعتراف ہر پارٹی کارکن کرتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ آج اگر عمران خان وزیراعظم ہیں تو وہ جہانگیر ترین کی محنت، پیسے اور ہیلی کاپٹر کی وجہ سے ہیں، ورنہ عمران خان اگلے 220 برس بھی 1992ء کا ورلڈ کپ کاندھوں پر اٹھا کر جدوجہد کرتے رہتے تو بھی شاید وزیراعظم نہ بن سکتے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج اچانک تحریک انصاف کے وزرا اور ارکان اسمبلی کو جہانگیر ترین کی یاد کیوں ستانے لگی ہے؟

ایوان بالا کے انتخابات میں تمام کاریگر اپنے اپنے پتے بڑی احتیاط سے کھیل رہے ہیں، سیاست کے سب سے بھاری گرو نے چالیں چلنا شروع کر دی ہیں، نون لیگ ابھی اپنے پتے شو نہیں کر رہی ، شاید اس لیے کہ نون لیگ اب اتنی مضبوط نہیں رہی کیونکہ ان کا لیڈر سزا یافتہ ہونے کے باوجود ملک سے باہر موجیں اڑا رہا ہے۔

ان حالات میں تحریک انصاف کو جہانگیر ترین کی حکومت سازی کے لئے خدمات رہ رہ کر یاد آ رہی ہیں، اس لیے تحریک انصاف والے اپنے منہ پیٹ رہے ہیں کہ ترین کو واپس لے آؤ کیونکہ اڑھائی سالہ حکومت میں جو حال عوام کا کیا گیا ہے، اس سے امید نہیں کی جا سکتی کہ اب لوگوں میں تحریک انصاف کے لئے کوئی نرم گوشہ بچا ہے۔

جہاں تک جہانگیر ترین کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں وہ اپنا ہوم ورک مکمل کیے ہوئے ہیں، بس مناسب وقت کے انتظار میں ہیں۔ خبر ہے کہ جہانگیر ترین اپنے بیٹے علی ترین کو میدان میں اتار رہے ہیں، علی ترین کو سینٹ کا ٹکٹ دلانے کے لئے کام ہو رہا ہے، اب یہ ٹکٹ کہاں سے لیا جائے گا، یہ ابھی طے ہونا باقی ہے۔

جہانگیر ترین نے ترپ کا پتہ سنبھال کر رکھا ہے، طویل عرصہ بعد جہانگیر ترین اور مخدوم احمد محمود ایک بار پھر بھائی بھائی بن گئے ہیں۔ اختلافات اور گلے شکوے دور ہو گئے ہیں، اس کی وجہ علی ترین بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ مخدوم احمد محمود، علی ترین کے سگے ماموں ہیں، اس لیے امید ہے کہ باپ کے ساتھ ساتھ ماموں بھی اپنے بھانجے کو سیاست میں کامیاب کرانے کے لئے پوری کوشش کریں گے۔

آصف زرداری ملتان سے یوسف رضا گیلانی کو میدان میں لا رہے ہیں اور جہانگیر ترین کی جانب سے مخدوم احمد محمود کی مدد سے علی ترین کی لانچنگ کی جا رہی ہے ، اس سے لگتا ہے کہ ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے، نئے چہرے سامنے لانے کا کام شروع ہو گیا ہے۔ ایوان بالا کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی، علی ترین اور دیگر بڑے نام کامیاب ہو گئے تو پھر یہ بھی یقین کر لینا چاہیے کہ 2021 تبدیلی کا سال بھی ہو سکتا ہے یا پھر تبدیلی کی ابتداء اسی سال سے شروع ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).