کیا فرانس کا نیا قانون ریڈیکل اسلام ختم کر سکے گا؟


فرانس کی سیاست میں کوئی اور مسئلہ اس قدر شدید ردعمل پیدا نہیں کرتا جتنا کہ مسلمان عورتوں کا برقعہ اور حجاب پہننا کرتا ہے۔ یورپ کے تمام ممالک میں سے فرانس واحد ملک ہے جہاں اپنے مذہب اور مذہبی نشانوں کے پبلک میں اظہار کے خلاف قوانین پائے جاتے ہیں۔

لڑکیوں کے سکولوں میں حجاب پہننے پر پابند ی ہے جبکہ پبلک میں برقعہ پہننا یا پورا چہرہ چھپانا 2010 سے غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔ ملک کے بہت سارے شہروں میں ساحل سمندر پر ”برکینی“ پہن کر تیرنے کے لئے جانا بھی خلاف قانون ہے۔ کسی قسم کا لباس جس کا اسلام اور مسلمانوں سے تعلق ہو اس کو ’اسلامی انتہاپسندی اور علیحدگی پسندی‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر فیس ماسک کے بغیر کوئی پبلک میں جائے تو اس کا جرمانہ 160 ڈالر ( 135 Euro) ہے مگر کوئی عورت نقاب پہن کر پبلک میں جائے تو جرمانہ 180 ڈالر ہے۔

فرانس کی پارلیمنٹ میں ایک نئے قانون پر پچھلے ہفتے بحث شروع ہوئی جس سے ارباب اقتدار امید رکھتے ہیں کہ ملک سے ریڈیکل اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکے گا۔ ممبران پارلیمنٹ کا خیال ہے کہ ریڈیکل اسلام کے عقائد و نظریات ملک کی پبلک سروسز، ایسوسی ایشنز، سکولوں اور آن لائن دنیا پر اس قدر چھائے ہوئے ہیں کہ جس سے ملکی مفادات کو سخت خطرہ ہے۔ یہ نیا قانون کافی جامع اور متنازعہ ہے جس میں اب تک 1700 ترامیم ہو چکی ہیں اور اس پر اگلے ہفتوں میں پارلیمنٹ میں گرما گرم بحث جاری رہے گی۔

اس قانون کو وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمانن نے سپانسر کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ قانون کا نصب العین ملک میں اسلام پسندوں کو مسلمانوں پر قبضہ کرنے کے خلاف کو روک تھام کرنا ہے۔ وزیر داخلہ نے اس بات پر زور دیا کہ ہم ایک خاص مذہب کے خلاف نہیں لڑ رہے ہیں۔ اگرچہ ملک میں مسلمانوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ بلکہ دیگر مذاہب بدھ ازم اور رومن کیتھولک نے بھی شکایت کی ہے کہ قانون کی زد میں وہ بھی آ جائیں گے۔

قانون کا نفاذ تمام مذاہب پر ہو گا لیکن مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس قانون میں انگشت نمائی اسلام کی طرف کی جا رہی ہے۔ قانون میں اسلام ازم کا لفظ کہیں بھی استعمال نہیں ہوا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کے موجودہ قوانین اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے کافی ہیں مگر دائیں بازو کی لیڈر Marine Le Pen کا کہنا ہے کہ قانون ہر طرح سے پیش نظر مسئلہ پر حاوی نہیں ہوتا کیونکہ اس میں دشمن کا ذکر تک نہیں کیا گیا یعنی ریڈیکل اسلام۔ چنانچہ اس نے اپنا لکھا ہوا متبادل قانون متعارف کرایا ہے۔

فرانس کے صدر ایما نوئیل میکران کے لیے یہ قانون از حد اہمیت رکھتا ہے ، جس نے اکتوبر 2020 میں اپنی تقریر کے دوران ایسی سیاہ تصویر کھینچی تھی جس کو اس نے علیحدگی پسندی کہہ کر اسلام کا مسخ شدہ ورژن کہا جو ملک کے اندر ایک کاؤنٹر سوسائٹی تشکیل دے رہا ہے۔ ڈارمانن نے صدر کے ریمارکس کی توثیق کرتے ہوئے اپنے افتتاحی خطبہ میں کہا کہ ہمارا ملک علیحدگی پسندی کی موذی مرض میں مبتلا ہے۔ اول و آخر ”اسلامسٹ سیپرٹزم“ ہمارے قومی اتحاد کو گینگرین کی طرح متاثر کر رہا ہے۔ اس ضمن میں وزیر مملکت ڈارمانن نے چھوٹی سی کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام Manifesto for Secularism ہے۔

فرانس کا صدر میکران وہ کام کرنا چاہتا ہے جو اس کے پیش رو نہ کر سکے یعنی فرانس کے ماحول اور حالات کے لئے موزوں اسلام۔ دوسرے لفظوں  میں Islam of France۔ ملک میں پائی جانے والی مسلمانوں کی آرگنائزیشنز کی فیڈریشن فرنچ کونسل آف مسلم فیتھ  نے ”چارٹر آف پرنسپلز فار اسلام آف فرانس“ تیار کیا ہے۔ اس قانون کا مقصد ملک میں قائم مسلمانوں کی انجمنوں اور مساجد اور غیر ممالک سے فنڈنگ پر کڑی نظر رکھنا ہے تاکہ ملک میں ریڈیکل اسلام کی آئیڈیالوجی کے راستوں کو بند کر دیا جائے۔ محمد موساوی جو CFCM کا چئیرمین ہے اس کا کہنا ہے کہ نیا قانون ان مسلم انجمنوں پر نظر رکھنے کے لئے نہ صرف ضروری بلکہ فائدہ مند ہے جو فرنچ اقدار کے خلاف کام کرتے ہیں۔

بچوں کو برین واشنگ سے محفوظ رکھنے کے لئے اور انڈر گراؤنڈ سکولوں کو ختم کر نے کے لیے قانون میں ایک شق یہ ہے کہ تین سال کی عمر کے بچے سکول ضرور جائیں۔ گھروں کے بیسمنٹس میں ہوم سکولنگ کو ختم کر دیا جائے جہاں تین سال کی بچیوں کو حجاب پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق قریب 50,000 بچوں کو گھروں میں زیور تعلیم سے آراستہ کیا گیا تھا۔ زیر زمین سکولوں میں جہاں ریڈیکل اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کی تعداد نا معلوم ہے۔

قانون میں ایک خاص بات یہ ہے کہ انجمنوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ خاص طور پر وہ جو مساجد کی انتظامی امور کی ذمہ دار ہیں۔ مساجد کے لیے اگرچہ غیر ممالک سے فنڈنگ ممنوع نہیں لیکن کسی بھی عبادت گاہ کو دس ہزار یورو ($ 12,100 ) باہر سے آئیں تو اس کا بتانا ضروری ہے۔ ایسی اسلامی ایسوسی ایشنز جو حکومت سے فنڈز وصول کریں، ان کے لئے لازمی ہو گا کہ وہ ایک معاہدے پر دستخط کریں کہ فرنچ اقدار کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا جائے گا اور معاہدہ توڑا گیا تو رقم واپس کرنا ہو گی۔

مجوزہ قانون میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ ڈاکٹرز ”ورجینٹی سرٹیفکیٹ“ دینا بند کر دیں۔ اگر کسی ڈاکٹر نے سرٹیفکیٹ جاری کیا تو اس کو جرمانہ کی ادائیگی اور شاید جیل بھیج دیا جائے۔ تعدد ازدواج اور جبری شادیوں کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

کچھ این جی اوز کا کہنا ہے کہ ملک میں دو لاکھ جبری شادیاں ہوئی تھیں۔ فرنچ مسلمان مرد اور عورت اسلامی قانون کے برعکس وراثت میں برابر کے حق دار ہوں گے۔ قانون کی ایک شق یہ بھی ہے کہ اگر کوئی کسی شخص کی ذاتی تفصیلات سوشل میڈیا پر آن لائن پوسٹ کر دے تو یہ ہیٹ سپیچ کے تحت جرم ہو گا۔ فرنچ ٹیچر سیموئل پیٹی کا قتل ان کی ذاتی معلومات آن لائن شائع ہونے کے بعد ہوا تھا۔

نئے قانون کے 51 آرٹیکلز ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ پبلک سروس ایمپلائیز غیر جانب داری اور سیکولرازم کا احترام کریں۔ سول سرونٹس کے لئے کسی قسم کا مذہبی نشان دکھانا یا پہننا جیسے برقعہ یا حجاب ممنوع ہو گا۔ جب یہ قانون پاس ہو جائے گا تو یہ فرانس کے لئے ٹیلر میڈ اسلام ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).