اسلام آباد کے وکلاء کا اصل مسئلہ کیا ہے؟


اسلام آباد کے سیکٹر F 8 مرکز میں واقع سیشن کورٹس اور کچہری کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کوئی کچرے کی جگہ ہے، جہاں پورے اسلام آباد کا کچرا پھینکا جاتا ہے۔ جب شہر اقتدار کا نقشہ تیار کیا جا رہا تھا تو بدقسمتی سے پورے شہر میں کہیں بھی کورٹ اور کچہری کی جگہ مختص نہ کی گئی۔ یہ حکومت پاکستان کا منافقانہ رویہ تھا یا شاید انہوں نے سوچا ہو گا کہ شہر اقتدار میں کبھی عدلیہ کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

پھر بہت جلد سیشن کورٹس اور کچہری کی کمی کا احساس ہونے لگا۔ ججز کے بیٹھنے کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے عدلیہ نے F 8 میں پرائیویٹ اور پبلک پراپرٹی پر ڈیرہ جما لیا۔ عدلیہ نے جیسے ہی ڈیرہ جمایا تو وکلاء حضرات بھی اپنے جج صاحبان کی دیکھا دیکھی وہاں پہنچ کر اپنے لئے چیمبر تعمیر کرنے لگے۔ یہ سلسلہ تب سے ابھی تک جاری و ساری ہے۔

اس سارے ایشو کو دیکھا جائے تو بات سمجھنا آسان ہو جاتی ہے کہ کورٹ و کچہری تعمیر کرنا حکومت کا کام ہے۔ جہاں شہر اقتدار کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین دارالحکومتوں میں ہوتا ہے وہیں یہ بدقسمتی بھی ہے کہ دارالحکومت کی کچہری کچرے کا ڈھیر بنی ہوئی ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم چھوٹے سے چھوٹے ڈسٹرکٹ کورٹس و کچہریوں کی حالت بھی اسلام آباد کی کچہری سے کئی گنا بہتر ہے۔

یہ بات درست ہے کہ وکلاء غیرقانونی طور پر اپنے چیمبر تعمیر کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں مگر کسی نے یہ جاننے کی زحمت ہی نہیں کی کہ وکلاء کے مطالبات کیا ہیں۔

اگر چیمبرز غیر قانونی ہیں تو سیشن و ڈسٹرکٹ کورٹس بھی غیر قانونی ہیں، انہیں بھی گرایا جانا چاہیے۔

دوسری بات وزیراعظم عمران خان کا محل بنی گالہ بھی غیر قانونی طور پر تعمیر ہے ، اسے بھی گرانا چاہیے یا پھر اسلام آباد کچہری کے چیمبرز کو بھی باقاعدہ طور رجسٹر کیا جائے تاکہ ان روز کے مسائل سے جان چھوٹ جائے۔

وکلاء کا مطالبہ ہے کہ ہمارے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہو گی تو ہم اپنی پریکٹس کیسے سر انجام دے سکتے ہیں۔ کلائنٹ کو کہاں بٹھا سکتے ہیں۔ یا تو وکلاء کے لئے جوڈیشل کمپلیکس تعمیر کیا جائے جو کہ حکومت کی ذمہ داری ہے یا چیمبرز گرانا بند کیے جائیں تاکہ نوجوان وکلاء مسائل کا شکار نہ ہوں۔

تین دن قبل اسلام آباد میں سینکڑوں تیار شدہ چیمبرز سی ڈی اے والوں نے بڑی بے دردی سے گرا دیے، جن میں کیسز کی فائلیں پڑی تھیں، وکلاء کی ضرورت کی تمام چیزیں، کرسیاں اور کمپیوٹرز وغیرہ سب ملبے کے نیچے دب گئے۔ جس کی وجہ سے نوجوان وکلاء کو لاکھوں کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ یوں چیمبرز گرانا انتظامیہ، عدلیہ اور حکومت کا غیر قانونی، ظالمانہ اور دہشت گردانہ عمل ہے، جس کے خلاف اسلام آباد کے وکلاء نے اگلے روز عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دھرنا دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکلاء کے مسائل سننے اور ان کے نقصان کا ازالہ کرنے کے بجائے پولیس اور رینجرز کو بلایا ہے تاکہ وکلاء کو ڈرا دھمکا کر دھرنا ختم کرایا جائے۔

وکلاء کا کہنا ہے کہ یا تو ہم اپنے مطالبات تسلیم کروائیں گے یا پھر ہمیں ایسی وکالت نہیں کرنی۔ حکومت، عدلیہ اور انتظامیہ مل کر ہمیں جان سے بھی مار دیں ، ہم اپنے مطالبات کے تسلیم ہونے اور ان پر عمل درآمد کیے جانے تک ہائی کورٹ سے دھرنا ختم نہیں کریں گے۔

وکلا کے مطالبات

1: وکلاء کا مطالبہ ہے کہ ہمارے وہ وکلاء دوست جنہیں لاپتہ کیا گیا ہے فوری طور بازیاب کیا جائے۔

2: جب تک جوڈیشل کمپلیکس تعمیر نہیں ہوتا ، وکلاء کے چیمبرز گرانے والی حرکت نہیں ہونی چاہیے۔

3: گزشتہ شب جو چیمبرز گرائے گئے ہیں وہ حکومت اور چیف جسٹس ہائیکورٹ اسلام آباد  اپنے اخراجات پر تعمیر کروا کر دیں۔

4: ڈی سی اسلام آباد کو فوری طور معطل کر کے وکلاء پر لاٹھی چارج کرنے کی ایف آئی آر درج کی جائے۔

5: جن وکلاء کو لاپتہ کیا گیا ہے ان کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہونی چاہیے اور کسی بھی وکیل کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).