دو پاکستان: بالکل مختلف


پانچ سال پہلے کی بات ہے جب وجاہت مسعود کی سٹڈی میں بیٹھے ہوئے میں نے اپنے گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانے کے ہم جماعت اور اب پروفیسر ڈاکٹر حاجی شیخ محمد اسلم کو فون کیا کہ کل میں تمہارے پاس فیصل آباد پہنچ رہا ہوں۔ اس کے تھوڑی دیر بعد میرے بیٹے نے جو سٹڈی سے باہر اپنی والدہ سے بات کر رہا تھا، مجھے آ کر بتایا کہ ”پاپا، کل ہمیں گزشتہ برس گھر پہ پڑے ڈاکے کے سلسلے میں ایس پی سے ملنا ہے“۔ میں دو اعمال بہت ہی کم کرتا ہوں ایک وعدہ اور ایک توبہ۔ وعدہ توڑا نہیں جا سکتا اور توبہ تو پھر اللہ تعالٰی سے کیا ہوا وعدہ ہوتا ہے، اس سے بھلا کیونکر انحراف کیا جائے۔ میں بولا کوئی بات نہیں تم مجھے شیخوپورہ سے کسی بس پر سوار کرا دینا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ آپ تنگ ہوں گے۔ میں لوٹ آئوں گا تو شام کو گاڑی پہ نکل جائیں گے مگر میں بضد رہا۔

شیخوپورہ سے کوئی مناسب سواری فیصل آباد نہیں جاتی۔ ویگن بھر چکی تھی۔ دوسری کے جانے میں دیر تھی۔ کسی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ چوک کے اس پار چلے جائیں کوئی فلائنگ کوچ مل جائے گی مگر وہاں عام بسیں کھڑی ہوئی تھیں۔ بیٹے نے کہا کہ یہی سب سے تیز چلیں گی۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں بٹھا دو۔ دروازے میں کھڑے ہوئے کنڈکٹر نے چالیس سال پہلے کی طرح کہا ”بڑیاں سیٹاں“ ۔ میں داخل ہوا تو بس ٹھنسی ہوئی تھی۔ کنڈکٹر کے نائب نے چالیس سال پہلے ہی کی طرح سب سے آگے تنہا نشست سے پچھلی دو افراد والی نشست (جو درحقیقت ڈیڑھ نشست کے برابر ہوتی ہے) پر بیٹھے نوجوان مسافر سے کہا، ”میرا بھرا، مہربانی کر“ وہ بیچارا اٹھ کر انجن پر مڑھی سیٹ پر بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کے آگے جا بیٹھا اور میں اپنی لات ٹول بکس پر سے لے جاتا ہوا۔ ٹانگیں سکیڑ کر خالی دو تہائی نشست پر بیٹھ گیا۔ باقی نشست پر ”ذلتوں کے مارے لوگ“ کی تصویر، نماز والی ٹوپی پہنے، سیاہ رنگت والا کوئی ساٹھ پینسٹھ برس کا دنیا سے روٹھا ہوا بوڑھا شخص بیٹھا تھا جو پورے سفر کے دوران خاموش رہا اور آخر میں میرے لیے بولا تھا۔ ٹول بکس پر ایک عورت بٹھا دی گئی جس کی آواز کراری تھی کیونکہ اس نے بیٹھتے ہی، شاید اس سے پہلے ہی ٹیلفون سنبھال لیا تھا اور دوسرے ہاتھ میں دانت سے کاٹا ایک سیب تھام رکھا تھا۔ وہ مسلسل اپنی مادری زبان پنجابی میں کسی سے باتیں کیے جا رہی تھی، جو لگائی بجھائی، اطلاعات، گلے شکووں، بلا وجہ طعنوں اور اسی نوع کے جذبات سے عبارت تھی۔ کبھی کبھار وہ سیب کے بیج بھی میری جانب پہلو بدل کر تھوک دیتی تھی۔ ایک بار تو مجھے اس کی ہی زبان میں کہنا پڑا، ”بی بی! کیا کر رہی ہو، تھوک کیوں رہی ہو؟“ ۔ اس نے کسی تاثر کے بغیر گھوم کر دیکھا لیکن اس کی گفتگو میں لمحے بھر کا توقف نہیں آیا۔

بس میں ”ٹکیاں، گرم ٹکیاں والے“ بھی سوار ہو کر اگلے گاؤں یا قصبے تک آوازیں لگاتے رہے۔ ”نمکین، مرچاں آلی سیویاں“ والا بھی موجود تھا۔ شاہکوٹ آ گیا تو انجن پر بیٹھا ہوا، ڈھانپی ہوئی ٹوکری پکڑے وہ شخص جو سست رفتار بس کو ”گدھا گاڑی“ سے ملا رہا تھا، میرے نزدیک انجن کے اوپر بیٹھا ہوا ایک خاموش خشخشی داڑھی والا شخص جو نیند کی وجہ سے بار بار گرتے گرتے بچا تھا اور باتونی عورت اتر گئے۔ اب انجن پر ایک سولہ سترہ سال کا داڑھی والا سکول کی وردی میں ملبوس کوئی طالبعلم جو مسلسل منہ میں نمکین سیویاں ٹھونسے جا رہا تھا اور نیلی شلوار قمیص اور چادر لیے ہوئے ایک شخص آ بیٹھا۔ میں نے اس شخص سے پوچھا کہ بھائی تم کیا کرتے ہو؟ اس نے مدھم آواز میں کہا، ”جی میں پکوان کا کام کرتا ہوں“ ۔ میں نے پوچھا کسی ہوٹل میں؟ بولا نہیں جی شادی بیاہ پر۔ میں نے پوچھا کتنا کما لیتے ہو، ظاہر ہے اس نے یہی کہا کہ اللہ کا شکر ہے جی۔ میں نے کہا شکر تو ادا کرتے ہی رہنا چاہیے لیکن اصل میں میں صحافی ہوں۔ میں ایک طویل عرصے کے بعد ایسی بس میں بیٹھا ہوں اور جاننا چاہتا ہوں کہ لوگوں کے حالات کیسے ہیں اس لیے تم اندازاً بتا دو کہ دس ہزار پندرہ ہزار ماہانہ۔ کہنے لگا بس اتنے ہی مل جاتے ہیں کبھی اتنے بھی نہیں ملتے، سچی بات ہے جی بس دو وقت کی روٹی ہی کھا سکتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ تم انجن پر بیٹھنے کے لیے بس میں کیوں سوار ہوئے ہو؟“ بس جی ہر ایک کو جلدی ہوتی ہے ”اس کا جواب تھا۔ لیکن اصل وجہ ٹرانسپورٹ کے بہتر نظام کا مفقود ہونا، سماجی شعور کی پستی، ٹرانسپورٹروں کی منفعت خوری کی عادت، انسانوں کو انسان نہ سمجھنا، انسانوں کا خود کو بھی انسان نہ سمجھنا، ٹرانسپورٹ کی کمی اور ان سب سے بڑھ کر غربت تھی کیونکہ وہ بہتر ٹرانسپورٹ کے لیے، اگر ہوتی بھی تو زیادہ کرایہ ادا کرنے سے گریزاں ہوتا تاکہ بچت ہو سکے۔

وہ اتر گیا تو اسی انجن پر مڑھے ریکسین پر جس پر لوگوں کے اترنے کی خاطر جوتے کے تلوے رکھے جانے کی وجہ سے گرد کی تہہ جم گئی تھی۔ ایک موٹی سی معمر عورت ہاتھ میں ”ٹی فلاسک“ اور کچھ مزید برتنوں کے ڈبے لے کر آئی۔ اپنے ڈبوں کو آگے رکھوا کر ٹانگیں نیچے کر کے بس کے پچھلے حصے کی جانب منہ کر کے بیٹھ گئی۔ اس کی بیٹی ایک شیر خوار کو لے کر میرے ایک کندھے کے ساتھ کمر جوڑ کر ٹول بکس پر بیٹھ گئی۔ ایک قلفی والا سوار ہو گیا جو پنجابی زبان میں قلفی کے خالص ہونے کا ذکر کرتے ہوئے قلفی میں موجود کھوئے کو ”پیور“ بھی کہہ رہا تھا۔ یہی ایک ترقی ہوئی ہے سماجی شعور میں کہ ایک دیہات کا قلفی والا انگریزی لفظ بول رہا تھا۔ شاید اس کو اس کا معنی معلوم ہو بھی یا نہ۔ بڑھیا نے کہنا شروع کیا نہ بھئی ناں، نہیں چاہیدی۔ پھر کہنے لگی، بچوں کو روتا دیکھ کر پھیری والے جم کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں مسکرا دیا تو وہ بنا پوچھے ہی بتانے لگی، ”میری بیٹی کہیں کام کرتی ہے، اس نے برتن خرید لیے تھے، وہ اس کے برتن ہی قرق کرنے لگے تھے۔ میں اسے برتنوں سمیت وہاں سے لے آئی ہوں“ ۔ بس فیصل آباد شہر کی حدود میں داخل ہو گئی تھی۔ وہ بڑھیا اپنے برتن، بیٹی اور نواسے کو لے کر اتر گئی۔ میں نے دوست کو فون کیا اور جب میں بھی سرگودھا روڈ پر اترنے لگا تو ”ذلتوں کے مارے لوگ“ کی تصویر نے اتنا کہا، ”یہاں اتر جاؤ کوئی لینے آ ہی جائے گا“ ۔ شیخوپورہ سے فیصل آباد تک یہ وہ پاکستان تھا جو نہ صرف یہ کہ تبدیل نہیں ہوا بلکہ اس کے باسی مزید نادار ہو چکے ہیں۔

اگلے روز میں نے اپنے میزبان سے کہا کہ مجھے ”ڈائیوو“ پر سوار کرا دو۔ ایک مناسب کار میں مناسب شخصیت مجھے صاف ستھرے شہر میں گھماتی ہوئی ڈائیوو کے اڈے پر لے گئی۔ ٹکٹ آفس میں ٹکٹنگ لیڈی نے انگریزی میں ”فور ہنڈرڈ رپیز“ کہہ کر پیسے لیے اور پرنٹڈ ٹکٹ مجھے تھما دیا۔ میں انتظار گاہ میں چلا گیا جس کی دیوار پر آویزاں ایل ای ڈی ٹی وی سکرین پر عمران خان ”کشمیر ڈے“ کے موقع پر بھی اپنی ہی بات کر رہے تھے۔ پھر میں بس میں سوار ہو گیا۔ آرام دہ بس آدھی خالی تھی، جو لوگ بیٹھے تھے وہ پڑھے لکھے تھے یا کھاتے پیتے لگتے تھے۔ اکثر کے ہاتھوں میں اچھے موبائل فون سیٹ تھے۔ کوئی بھی خواہ مخواہ باتیں نہیں کر رہا تھا، بس وقت پر چل پڑی۔ میزبان لڑکی نے اردو اور انگریزی میں اعلان کیا۔ میں نے نشست کو پیچھے کیا اور کتاب پڑھنے لگا۔

بس موٹروے پر چلنے لگی تھی۔ سڑک بہترین تھی، سڑک کے دونوں اطراف میں ہریالی بھا رہی تھی۔ گاؤں بھی سینری کی طرح لگ رہے تھے۔ بس سوا دو گھنٹے میں لاہور پہنچ گئی تھی۔ یہ دوسرا پاکستان تھا، ٹکیوں، نمکین سیویوں اور قلفی والوں کے شور سے پاک پاکستان، سڑک کے کنارے دیہاتی دکانوں اور گندے پانی کے چوبچوں سے خالی پاکستان، دیہاتی بوڑھیوں اور سستے موبائل فون سیٹوں پہ لگائی بجھائی کرنے والی سیب کتر کر بیج تھوکنے والی عورتوں، پکوان پکانے والے غریب، شرمندہ کاریگر سے بچا ہوا پاکستان۔

شام کو لاہور پہنچ کر چند دانشوروں سے میرا سوال یہی تھا کہ کیا معاشی پیشرفت کے بغیر پاکستان میں سماجی شعور کو کسی طرح بلند نہیں کیا جا سکتا؟ آپ بھی اس سوال کا جواب سوچیے، میں بھی سوچتا ہوں۔ دانشور تو اب بس گھروں میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).