کعبہ میں بت: ایک زائر حرم کے مشاہدات


یہاں کچھ خاص اوقات میں ایک طرف کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور بس پھر لوگ اتنی چھوٹی سی جگہ میں ٹھنسنا شروع ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ اندر موجود لوگوں کا سانس گم ہونے لگتا ہے اور سجدہ تو کجا کھڑا ہو کے کچھ پڑھنا بھی محال ہو جاتا ہے۔ مجھے سجدہ کرنے کی آرزو تھی اس جگہ لیکن اس سجدہ کو میں اپنی شہادت کی وجہ نہیں بنانا چاہتا تھا۔ پھر ایک کرم ہوا اور ایک کافی صحت مند حبشی عورت میرے آگے کھڑی ہوئی اور اس نے ارد گرد سے بے نیازی اختیار کرتے ہوئے مردانہ وار نماز کے لیے ہاتھ باندھ لیے، میں نے بھی اس کے پیچھے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ کے سجدہ بھی کیا اور یہ سب بس کچھ خاص انتظام ہی تھا میرے لئے۔

اتنے جدید اور کمپیوٹرائزڈ نظام کے ہوتے ہوئے یہ بہت آسان بات ہے کہ سب عازمین کو یہ بتا دیا جائے کہ ان کا حجر اسود چومنے اور نفل پڑھنے کا کون سا ٹائم ہے اور اس وقت صرف انہی کو وہاں جانے دیا جائے ۔ یہ کام کم از کم عمرہ کے عازمین کے لیے تو کیا جا سکتا ہے۔

پھر اگر آپ کے ساتھ کوئی وہیل چیئر پر بھی ہے تو آپ اس کو لے کر کعبہ کے صحن میں جا سکتے ہیں لیکن اگر آپ اس وہیل چیئر پر موجود بندے کو کسی محفوظ جگہ چھوڑ کے خود طواف میں لگ گئے اور واپسی پر آپ کو اپنا وہ عزیز وہاں نہ ملے جہاں چھوڑا تھا تو آپ کی پریشانی تب بڑھ جاتی ہے جب آپ کو یہ بتانے والا بھی کوئی نہ ہو کہ وہ بزرگ اب کہاں ہیں، کیونکہ وہاں موجود سب ملازمین صرف عربی بولتے ہیں۔ تصور کریں کہ جب ان بزرگ خاتون کی وہیل چیئر یہ شرطے بڑی بے رحمی کے ساتھ اوپر والے فلور پر پھینک رہے تھے، جی  میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے یہ لوگ وہیل چیئرز کو اسکیلیٹر پر پھینکتے ہیں اور اوپر کھڑا بندہ اس وہیل چیئر کو دور دھکیل دیتا ہے۔

اس کے لیے بھی بہت آسانی سے کوئی انتظام کیا جاسکتا ہے کہ وہاں صحن میں جگہ مختص کر دی جائے یا پھر جانے ہی نہ دیا جائے اور مختلف زبانوں کے مترجم مددگار مقرر کر دیے جائیں۔

حرم شریف کی صفائی کا انتظام بہترین ہے اور اس کے لیے کئی کمپنیاں قائم کی گئیں ہیں جن کے ملازمین کی مختلف رنگوں کی یونیفارمز ہوتی ہیں۔ صفائی، آب زم زم پلانے کا انتظام وغیرہ مختلف کمپنیاں کرتی ہیں، یہ ملازمین زیادہ تر پاکستان یا بھارتی مسلمانوں پر مشتمل ہیں اور یہ پاک و ہند کے عازمین کے مددگار بھی ثابت ہوتے ہیں، لوگ عقیدت کے طور پر ان ملازمین کو ریال دیتے رہتے ہیں لیکن یہ بڑی ہوشیاری سے یہ ہدیہ خود بھی اکٹھا کرتے ہیں جیسے کہ دو یا تین اوقات میں کعبہ کے گرد عازمین بہت بڑی تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں طواف کے لئے، عین اسی وقت یہ صفائی کے لئے اس ہجوم میں یوں گھس جاتے ہیں کہ چند ملازمین ایک حصار بنا لیتے ہیں۔ ایک رسی کے ذریعے اور اس حصار میں کچھ ملازمین صفائی کرتے ہیں ایک دو ملازمین کی ڈیوٹی یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اشارے سے یہ بتائیں کہ ان کو بھوک لگی ہے، کھانے کو کچھ چاہیے پھر لوگ عقیدت کے زیر اثر ریال اس حصار میں پھینکنا شروع ہو جاتے ہیں۔  دو تین ملازمین کی ڈیوٹی ان نوٹوں کو سمیٹنے پر ہوتی ہے ۔ یہ سب ایک سوچا سمجھا عمل ہوتا ہے پیسے اکٹھے کرنے کے لیے۔  اسی ہجوم میں کچھ انفرادی فقیر بھی زمین پر رینگتے ہوئے طواف کرتے ملتے ہیں جن کا مقصد بھی پیسے کمانا ہوتا ہے، انہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی چاہے ان پر گر کر کوئی اپنی جان دے دے یا کوئی اس سے بھی بڑا حادثہ ہو جائے۔

کھانے پینے کا انتظام بہت اچھا ہے، بہت سے ریسٹورنٹ ہیں ہر طرح کا کھانا مل جاتا ہے لیکن ان ریسٹورنٹ پر کام کرنے والے ملازمین بہت بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ شاید گاہک کافی زیادہ ہوتے ہیں اور ملازمین پر کام کا بوجھ بہت زیادہ جبکہ ان کے معاوضے بہت کم ہوتے ہیں۔

ایک ایک ریال دو دو ریال چیزوں والی دکانیں بہت کام کی ہیں، عازمین ان دکانوں سے تبرکات کے طور پر اشیاء خرید کر اپنوں کے لئے لے جاتے ہیں۔

عمرہ کا مزہ مکہ مدینہ مکہ کی سیٹنگ میں اچھا رہتا ہے کیونکہ اکثر پہلا عمرہ صرف سیکھنے کا عمل ہوتا ہے، غلطیوں بھرا۔ مدینہ سے واپس مکہ پر جو عمرہ کیا جاتا ہے وہ کسی قدر بہتر ادا ہوتا ہے۔

مکہ سے مدینہ کے سفر میں قابل ذکر صرف ہر طرف کالے بنجر پہاڑ اور کسی بھی جگہ گندگی کچرے کا نہ ہونا ہے۔ دوران سفر صرف دو لوگ تھوڑا پریشان ہوئے، ایک کو شوگر کی وجہ سے پیشاب آ گیا اور دوسرے نے گٹکا تھوکنا تھا جس کا انتظام بس میں تھا نہیں اور یہ بس کراچی میں تھی نہیں ۔ یہ بھائی میرے ساتھ بیٹھے تھے، ان کا یہ مسئلہ بھی متعلقہ حکام نوٹ کریں اور بسوں میں اگال دان کا انتظام کریں۔

دوران سفر واحد گندی جگہ وہ تھی جہاں بس تھوڑی دیر مسافروں کے کھانے پینے کو رکی کیونکہ وہاں کے دکان دار سب پاکستانی یا بنگالی تھے۔

ایک اور بھرم یہ ٹوٹا کہ ہماری وہیل چیئر اس سفر میں گم یا چوری ہو گئی جس پر مکمل نام پتہ لکھے ہونے کے باوجود وہ واپس نہی ملی۔ مدینہ میں وہیل چیئر فری میں مسجد انتظامیہ کی طرف سے دی جاتی ہے، یہ سہولت مکہ میں بھی ہونی چاہیے۔

مکہ کی نسبت مدینہ ایسے ہی جیسے کہ مکہ روز قیامت ہو اور جو وہاں پاس ہو گیا وہ مدینہ جنت میں آ گیا۔ بہت سکون، کوئی افرا تفری نہیں۔ مکہ میں نماز پڑھنے کے لیے ہر بندے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مطاف میں پہنچ جائے اور اسی کوشش میں بندے کے چوبیس گھنٹے گزر جاتے ہیں، نہ سونے کا وقت نہ ٹھیک سے کھانے کا وقت اور ہر طرف شُرطے جو آپ کو ہانک ہانک کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔

مسجد نبوی ﷺ میں پہلی نماز عصر کی ملی، بہت پرسکون مٹھاس ہے مسجد اور مدینہ میں، نماز کے بعد روضہ رسول کی زیارت کرنا بھی روح کو سکون دینے کا عمل ہے، بہت شاندار راہداری ہے، جس سے گزرا جاتا ہے۔ روضہ رسول کی زیارت کرتے ہوئے عرب حکومت کا سخت مقابلہ ہوتا عقیدت مندوں سے۔ عرب ان کو مشرک گردانتے ہیں اور روضہ کی دیواروں سے لپٹنے چومنے چاٹنے سے روکنے کے لیے دہری دیوار، جنگلے حتیٰ کہ رسی کی باڑ بھی لگا دی ہے کہ لوگ دیوار کو چھو ہی نہ سکیں۔ دوسری طرف عقیدت مندوں کا بس نہیں چلتا کہ مسجد کی ہر چیز اپنے گھر لے جائیں۔ صفا و مروہ کا بھی یہی معاملہ ہے شیشے کی دیوار سے ان پہاڑیوں کو عقیدت مندوں سے بچایا گیا ہے، ورنہ یہ پہاڑیاں چند سال میں انڈیا پاکستان وغیرہ کے لوگوں کے گھروں میں بطور تبرک پڑی ہوتیں۔

مدینہ رہنے کے لیے اس دنیا میں سب سے شاندار جگہ ہے، بس شُرطے نہ ہوں ہمیں وہاں سے نکالنے کو۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments