کعبہ میں بت: ایک زائر حرم کے مشاہدات


ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ ایمان دار دل کے مالک ہیں اور آپ قرآن کا سادہ سا ترجمہ بغیر کسی فرقہ وارانہ تشریح کے اور بخاری شریف، صحیح مسلم کو ایک بار پڑھ لیں تو آپ کو وہ مسجد نہیں ملے گی جس امام کے پیچھے آپ نماز پڑھ کے سکون محسوس کریں۔ کسی بھی فرقے کی مسجد کے امام کا خطبۂ جمعہ آپ کو صرف ذہنی کوفت دینے کا باعث بنے گا۔

اس کیفیت کا حامل بندہ اپنے رب کے خاص کرم سے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب جاتا ہے، وہ اپنے احساسات اس تحریر میں بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس لیے اس تح8ریر میں آپ کو وہ لوازمات شاید نہ ملیں جس کو پڑھ کر آپ کمنٹس میں سبحان اللہ، سبحان اللہ لکھتے چلے جائیں۔

میں نے ساری عمر صرف شلوار قمیص پہنی تھی اور پینٹ شرٹ میں مجھے الجھن محسوس ہوتی ہے ۔ جب خود کو صرف دو چادروں میں چھپانا پڑا تو یہ کافی مشکل کام تھا۔ بلاشبہ ان دو چادروں میں ملبوس ہو کر ایک روحانی کیفیت طاری ہو چکی تھی لیکن دل میں خواہش یہی تھی کہ عمرہ کے تمام مراحل جلدی سے پورے ہو جائیں اور واپس شلوار قمیص پہنی جا سکے۔

میں جب جدہ ایئرپورٹ پہنچا تو مجھے کافی حیرانی کا شکار ہونا پڑا کیونکہ ایک ایسا ایئرپورٹ جس پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ مختلف ممالک سے مختلف زبانیں بولنے والے آتے ہیں لیکن امیگریشن پر موجود سٹاف صرف عربی بول سکتا تھا اور یہ تمام مراحل اشاروں سے انجام پا رہے تھے اور ان اشاروں میں ایک عجیب تکبر اور رعونت کا اظہار بھی تھا۔ نہایت لا ابالی پن سے سٹاف ٹانگ پر ٹانگ رکھے انگلی کے اشاروں سے کام لیتے ہوئے امیگریشن کا کام کر رہا تھا۔

خیر،  اللہ کے کرم اور صبر سے یہ مرحلہ طے پا گیا اور بس میں بیٹھ کر جدہ سے مکہ کی طرف روانہ ہو گئے، مکہ اور کعبہ شریف ٹی وی پر لائیو دیکھنے کے باوجود دل میں کعبہ کا تصور ایسا ہی موجود رہا کہ ایک وسیع میدان ہو گا جس کے بیچوں بیچ کعبہ ایک شان کے ساتھ کھڑا ہو گا اور پہلی نظر اسی پر پڑے گی لیکن جب مکہ کے قریب پہنچ کر ایک دیو قامت بلڈنگ پر نظر پڑی اور یہ ایک پہاڑ کی طرح اس منظر کا حصہ بن گئی ۔ جی،  یہ مکہ ٹاور تھا، آپ یقین کریں اگر کسی معصوم بچے کو پوچھا جائے کہ آپ نے مکہ میں کیا خاص دیکھا تو وہ یہی جواب دے گا کہ مکہ ٹاور۔

جدیدیت کے فوائد اب بہت سہولتیں دے رہے ہیں، آپ کا ہوٹل،  سفر سب سسٹم میں ہوتا ہے، آپ کو بس آگے بڑھتے جانا ہے اور تمام مراحل پورے ہو جاتے ہیں۔

عمرہ کے دوران میں نے جو باتیں نوٹ کیں،  ان کو بیان کرنے کو میں بہت بے تاب ہوں۔ عمرہ تو اسی رات ادا کیا اور بچپن کے بعد پہلی دفعہ گنجا ہونا زندگی میں پہلی بار اچھا لگا اور خود اس کرسی پر بیٹھا جس پر گنجا کیا جا رہا تھا الحمدللہ۔

بہت تھکن کے باوجود صرف ایک گھنٹہ سو کے ہی اٹھ گیا , صبح کے ساڑھے تین بج چکے تھے , فوری طور پر بیگم اور ساس صاحبہ کو اٹھایا کہ جلدی کرو , مسجدالحرام چلنا ہے ۔ چار بجے جب ساس صاحبہ جو بوجہ بزرگی وہیل چیئر پر تھیں، ان کے ساتھ مسجد کے دروازے پر پہنچے تو پتہ چلا کہ اب وہیل چیئر کے ساتھ اندر نہیں جا سکتے۔ اپنی پہلی فجر مسجد کے بیرونی صحن میں ادا کی اور پھر بہت سکون کے ماحول میں کعبہ کو دیکھنے لگ گئے۔

اب میں وہ بات کہنا چاہتا ہوں جو اس مضمون کا خاص نکتہ ہے۔ مسجد کے پہلے فلور پر بیٹھے میری بیگم اور ساس تو بس کعبہ کو دیکھ کے دعائیں مانگ رہی تھیں لیکن میری نظر کعبہ سے ہوتی ہوئی ان کنگروں پر پڑی، مجھے یہ کنگرے دیکھ کے ایسا لگا کے کعبہ کے صحن میں کعبہ کے گردا گرد بت لگا دیے گیے ہیں، یہ بات اتنی سادہ نہیں تھی، اس لئے کسی سے ذکر نہیں کیا، بس اپنی بیگم کو بتایا اور اس سے کہا کہ وہ بھی غور سے دیکھے، کیا میں کچھ غلط بیانی تو نہیں کر رہا۔ بیگم نے دیکھا اور ایک اچھی اہل حدیث ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ توبہ کریں، یہ بس کنگرے ہیں، سجاوٹ کے لئے، آپ بلاوجہ الٹا پلٹا سوچ رہے ہیں۔

خیر،  میں یہ بات سمجھتا ہوں کہ ہر بندہ اپنی اپنی سوچ اور نظر رکھتا ہے لیکن اسی شام جب بیگم نے بڑی پریشانی سے یہ بتایا کہ ان کی امی جان نے بھی یہی دیکھا اور محسوس کیا ہے کہ یہ کنگرے بتوں کے مشابہ ہیں تو مجھے تھوڑا حوصلہ ملا کہ میں ٹھیک سوچ اور دیکھ رہا ہوں۔

اس مضمون کے ساتھ ان کنگروں کی تصاویر بھی بھیج رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ یہ تمام تصاویر اس تحریر کے ساتھ شائع کی جائیں گی تاکہ قارئین خود بھی دیکھ سکیں اور فیصلہ کر سکیں کیونکہ موجودہ عرب کے حکمرانوں نے اپنی سلطنت کی ساری بنیاد ہی اس بات پر رکھی ہے کہ یہ لوگ شرک کے خلاف سب سے بڑے مجاہد ہیں اور انہوں نے کے نام پر بے شمار مسلمانوں کو قتل کروا دیا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments