سینٹ میں عربی کی تعلیم کا بل: برائے نام مسلمان توجہ کریں


یکم فروری 2021 کو سینیٹر جاوید عباسی صاحب نے پاکستان کی سینیٹ میں اسلام آباد کی حدود میں عربی زبان کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کا بل پیش کیا۔ بل تو منظور ہو گیا لیکن رضا ربانی صاحب نے ہمت کر کے کچھ نکات اٹھائے۔ اور اس کے نتیجہ میں جو بحث ہوئی، میرے نزدیک اس کے نتیجے میں اتنے سوالات کے جوابات نہیں ملے جتنے نئے سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ ہمیں رضا ربانی صاحب کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ہمیں اس مسئلہ پر سوچنے پر مجبور کیا ہے اور محض ”عربی“ کا نام سن کر مذہبی دباؤ کی بنا پر خاموش رہنا قبول نہیں کیا۔

بل کا لب لباب یہ تھا کہ اسلام آباد کی حدود میں عربی کی تعلیم کو لازم قرار دیا جائے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی مادری زبان لکھنا پڑھنا جانتا ہو گا تو ہی وہ عربی زبان سیکھ سکے گا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا ایک شخص اپنی مادری زبان میں تو اپنا نام پڑھ بھی نہیں سکتا اور وہ عربی زبان فاضل اجل کا روپ دھار لے۔ چونکہ اس بحث میں آئین کے بہت حوالے دیے گئے تھے کہ آئین کی شق 31 کی رو سے یہ ریاست کا فرض ہے وہ عربی زبان کی تعلیم کی ترویج کرے۔ واضح رہے کہ اس شق میں صرف یہ لکھا ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی جائی گی کہ وہ عربی زبان سیکھیں۔ اس شق میں عربی تعلیم کو لازمی قرار دینے کا کوئی ذکر نہیں۔

آئین میں ریاست کے لئے کس چیز کو لازمی فرض قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کے آئین کی شق 25 الف یہ ہے

” ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کے لئے مذکورہ طریقہ کار پر جیسا کہ قانون کے ذریعہ مقرر کیا جائے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔“

یہ شق واضح ہے۔ کیا ریاست کے نے اپنا یہ آئینی فرض ادا کر دیا ہے کہ اب عربی کی تعلیم کی فکر لاحق ہو رہی ہے۔ اس وقت تک حالت یہ ہے کہ وطن عزیز میں شرح خواندگی بمشکل 60 فیصد تک پہنچ سکی ہے [ڈان 11 جون 2020 ]۔ اگر جنوبی ایشیا کے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور بھوٹان سب اس اعتبار سے پاکستان سے بہت آگے ہیں۔ ان میں سے کسی ملک نے اپنی زبان کے علاوہ کسی اور زبان کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کا بل منظور نہیں کیا۔ یہ اعزاز اگر کسی کو حاصل ہوا تو صرف پاکستان کو حاصل ہوا۔

وفاقی وزیر علی محمد خان صاحب نے اس بل کے حق میں ایک جذباتی تقریر کی اور فرمایا کہ مدینہ کی ریاست تب بنے گی جب بچوں کو عربی آئے گی۔ لیکن وہ غور فرمائیں پاکستان میں سب سے زیادہ تحریک انصاف کی حکومت سے صوبہ خیبر پختونخوا مستفید ہوا ہے۔ کیا وہاں کے بچوں میں شرح خواندگی سو فیصد ہو چکا ہے۔ آخری جائزوں تک حالت یہ ہے کہ موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا میں خواتین میں شرح خواندگی صرف 36 فیصد ہے۔ مدینہ کی ریاست میں آنحضرت ﷺ نے یہ قانون مقرر فرمایا تھا کہ طلب العلم فریضة على کل مسلم [ابن ماجہ۔ باب : فضل العلماء والحث على طلب العلم] یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ کیا اس ارشاد پر عمل ہو گیا ہے؟ کہ پاکستان میں عربی زبان کی تعلیم کو لازمی قرار دینے پر بحث ہو رہی ہے۔

اس موقع کو جمیعت اعلماء اسلام کے غفور حیدری صاحب دوسروں کی کمزوریوں کو اچھالنے کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ اتنی ڈگریوں کے باوجود رحمن ملک صاحب سورۃ اخلاص بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے۔ انہوں نے ہنس کر کہا کہ اسی طرح اعتزاز احسن صاحب نے بھی سورۃ اخلاص غلط پڑھی۔ اور اسی طرح انہوں نے طنز کیا کہ تحریک انصاف کے وفاقی وزیر غلام سرور صاحب نے سورۃ الناس غلط پڑھی۔ مناسب ہوتا اگر غفور حیدری صاحب سینٹ کے اجلاس میں یہ غلطیاں گنوانے کی بجائے ان احباب کو ذاتی طور پر ان کی غلطی کی طرف توجہ دلا دیتے۔ لیکن انہوں نے ایوان بالا میں کھڑے ہو کر یہ عیب شماری کرنا پسند کیا۔ اب حیدری صاحب کے میزان میں ان کو پرکھ کر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا

”ابھی حال ہی میں سرور جو ان کا منسٹر ہے۔ قل اعوذ برب الناس پڑھا۔ آپ بھی گواہ ہوں گے کہ اس نے غلط پڑھا۔ جو سب سے چھوٹی اور آخری سورۃ ہے۔“

عبد الغفور حیدری صاحب دوسروں کی غلطیاں گنواتے گنواتے خود بھی غلطی کر گئے۔ عرض ہے سورۃ الناس قرآن کریم کے سب سے آخری سورۃ ضرور ہے کہ لیکن سب سے چھوٹی سورۃ نہیں ہے۔ قرآن کریم کی سب چھوٹی سورۃ تو سورۃ الکوثر ہے۔

اس کے بعد عبد الغفور حیدری صاحب نے ایک حدیث پڑھی کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے اور انہوں عربی میں اس حدیث کی عبارت بھی غلط پڑھی۔ اس حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں ”اطلبو ا العلم و لو بالصین“ [کنزالعمال جلد 10 حدیث نمبر 28698 ] لیکن آپ یو ٹیوب پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ عبد الغفور حیدری صاحب نے مختلف الفاظ پڑھے تھے۔ لیکن میری رائے میں اس بنا پر ان کے علم کے بارے میں کوئی منفی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ صرف روانی میں بولتے ہوئے ان سے یہ نادانستہ غلطی ہو گئی۔ لیکن بہتر ہوتا اگر وہ اس طریق پر دوسروں کی غلطیاں نہ گنواتے۔

جماعت اسلامی کے قائد سینیٹر سراج الحق صاحب نے اس بل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:

”سوال یہ ہے کہ کیا عربی زبان کے بغیر ہم مسلمان بن سکتے ہیں؟ سچی بات ہے ہم برائے نام مسلمان تو رہیں گے۔“ اس طرح انہوں نے ان مسلمانوں کو جو عربی زبان نہیں جانتے برائے نام مسلمان قرار دیا۔ سراج الحق صاحب جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں اور اس جماعت کی تاریخ میں اس قسم کی نشتر چلانے کی ایک تاریخ ہے۔ جب مودودی صاحب نے اس جماعت کی بنیاد ڈالی تو اس وقت مسلم لیگ کی جد و جہد زور پکڑ رہی تھی۔ مودودی صاحب نے اپنی تصنیف ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش کے حصہ سوئم میں قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کو ان الفاظ سے یاد کیا

”مگر افسوس لیگ کے قائد اعظم سے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرز فکر رکھتا ہو اور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتا ہو۔ یہ لوگ مسلمان کے معنی و مفہوم اور اس کی مخصوص حیثیت کو بالکل نہیں جانتے۔“ [ص 31 ]

اور یہ طعن و تشنیع صرف جماعت اسلامی تک محدود نہیں تھی دوسرے مذہبی لیڈر بھی مسلم لیگ کے لیڈروں کی زبان اور لباس پر اعتراضات کے تیر چلا رہے تھے۔ مجلس احرار کے لیڈر عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب نے دہلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا:

”تحریک پاکستان کی قیادت کرنے والوں کے قول و فعل میں بنیادی تضاد ہے۔ لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو لوگ اپنی اڑھائی من کی لاش اور چھ فٹ کے قد پر اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکتے۔ جن کا اٹھنا بیٹھنا۔ جن کا سونا جاگنا۔ جن کی وضع قطع۔ رہن سہن۔ بول چال زبان لباس غرض کوئی چیز اسلام کے مطابق نہ ہو وہ ایک قطعہ زمین پر اسلام کیسے نافذ کریں گے۔“

[حیات امیر شریعت مصنفہ جانباز مرزا ص 363 و 364 ]

اگر جذبات اور بحث سے الگ ہو کر سوچا جائے تو اس وقت فوری مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے لوگ عربی زبان سے نابلد ہیں۔ اس لئے وہ اپنے دینی احکامات پر عمل پیرا نہیں ہو سکے۔ اس وقت فوری مسئلہ یہ ہے کہ باوجود آئین پاکستان میں لمبے چوڑے دعوے کرنے کے ہم اب تک پاکستان میں شرح خواندگی کو مناسب حدود تک بھی نہیں لا سکے۔ اور باقی دنیا ہم سے بہت آگے نکل گئی۔ اس طرف توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments