احمدی ڈاکٹر کا قتل، فرانسیسی سفیر کی ملک بدری اور ریاست کی منافقت


اسلام اور عقیدے کی ’سربلندی‘ کے لئے آج ایک نوجوان پشاور کے بازید خیل علاقے میں مریض بن کر ایک کلینک میں گیا اور وہاں پر موجود 65 سالہ ڈاکٹر کو گولیاں مار کر قتل کردیا۔ حملہ آور کے نزدیک احمدی عقیدے کے حامل شخص کو زندہ رہنے کا حق نہیں تھا۔ عقیدے ہی کی حفاظت اور وقار و سربلندی کے لئے حکومت پاکستان نے تحریک لبیک پاکستان کو ایک نئے معاہدے میں اس بات پر راضی کیا ہے کہ وہ ملک سے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے لئے اسے مزید تین ماہ کی مہلت دے دے۔

نئے معاہدے میں حکومت پاکستان کی طرف سے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے دستخط کئے ہیں۔ اس میں حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے معاہدے کی توثیق کی گئی ہے ۔ اور حکومت نے اس بات کا ازسر نو اقرار کیا ہے کہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے اور فرانسیسی صدر کے اسلام مخالف بیانات پر پاکستان میں تعینات فرانس کے سفیر کو نکالنا دراصل اسلام کی سرفرازی اور مسلمانوں کی دلجوئی کےلئے ضروری ہے۔ گزشتہ سال تحریک لبیک کے احتجاج اور دھرنے کے بعد حکومت نے ایک معاہدہ میں وعدہ کیا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے لئے تین ماہ کے اندر معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا تاکہ سیاسی اتفاق رائے سے فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دیا جائے۔ اس وعدے پر اب تک عمل نہیں ہوسکا۔

نئے معاہدہ پر دستخظ کرنے والے دونوں وزیروں نے یہ تو نہیں بتایا کہ گزشتہ کئی ماہ کے دوران حکومت معاہدے کی اس شق پر کیوں عمل نہیں کرسکی اور نہ ہی تحریک لبیک نے نئے معاہدے کی شرائط مان کر مزید مہلت دیتے ہوئے یہ وضاحت طلب کرنے پر اصرار کیا کہ اگر حکومت کی نیت صاف ہوتی تو وہ اب تک یہ معاملہ وعدہ کے مطابق پارلیمنٹ میں لے جاتی۔ البتہ وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے بتایا ہے کہ تحریک لبیک کے نمائیندوں نے سرکاری وفد سے مہذب انداز میں بات کی۔ انہوں نے ایک بار پھر وضاحت کی ہے کہ ’ توہین مذہب اور رسول پاک ﷺ کے احترام کے حوالے سے ہمارا مؤقف صاف اور کسی شک و شبہ سے بالا ہے۔

بظاہر پشاور میں ایک احمدی کے قتل اور تحریک لبیک کے ساتھ حکومت کے نئے معاہدہ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے لیکن دراصل یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ تحریک لبیک ملک میں ان عناصر کی ترجمان ہے جو احمدیوں کی زندگی اجیرن کرنا چاہتے ہیں اور اگر کوئی ’جذباتی‘ نوجوان کسی احمدی پاکستانی شہری کو قتل کردیتا ہے تو اسے ’قابل فہم‘ قرار دینے کی دلیل دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ ختم نبوت کو ایجنڈا بنا کر تحریک لبیک نے قومی سیاست میں اہمیت حاصل کی ہے۔ ایک ایسے روز جب ملک میں ایک شخص کو صرف عقیدہ کے نام پر قتل کیا گیا ہو، ملک کا وزیر مذہبی امور ایک ایسے گروہ کے نمائندوں کی دلجوئی کےلئے نئے معاہدے پر دستخط کررہا تھا جو اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی شہرت رکھتا ہے اور اسے اپنے سیاسی رسوخ کے لئے استعمال کرنے میں کامیاب ہؤا ہے۔ بات چیت کے دوران پیر نور الحق قادری کو تحریک لبیک سے  ملنے والے احترام کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ حکومت توہین مذہب و رسالت کے سوال پر یکسو ہے۔ کاش انہیں یہ بتانے کا حوصلہ بھی ہوتا کہ حکومت ملکی اقلیتوں کی حفاظت کے معاملہ میں بھی پر خلوص ہے اور وہ سیاسی مفاد کے لئے کسی ایسے گروہ کے ساتھ سودے بازی نہیں کرے گی جو سواد اعظم سے مختلف عقیدہ رکھنے والوں کے خلاف برسر پیکار ہو۔

عقیدے کی بنیاد پر نفرت اور خوں ریزی ملک میں معمول بن چکا ہے لیکن انتظامی و سیاسی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مقبول نعروں کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے والی حکومت اور وزیر اعظم بدستور کبھی ریاست مدینہ اور کبھی اسلامو فوبیا کے نام پر تقریروں کے ذریعے ملکی عوام کو جذباتی لحاظ سے گمراہ کرتے ہیں۔ اسی سیاسی رویہ کی بنیاد پر تحریک انصاف کی حکومت تحریک لبیک کے ناقص اور ملک دشمنی پر استوار مطالبوں کو مسترد کرنے اور انہیں عقل کے ناخن لینے کا مشورہ دینے کی بجائے بند کمروں میں اس گروہ کے لیڈروں کی چاپلوسی کرتی ہے اور جھوٹے، بے بنیاد اور جعلی وعدوں اور معاہدوں کے ذریعے کسی طرح آج سر پڑی بلا ٹالنے کا اقدام کرتی ہے ۔ نئی مدت پوری کرنے کے بعد کوئی نیا بہانہ اور عذر تلاش کرکے یا کوئی لالچ دے کر اس گروہ کو خاموش کروانے کا اہتمام کیا جائے گا۔ حکومت کا کوئی ذمہ دار یہ غور کرنے پر آمادہ نہیں ہے کہ جب انتہاپسندی پر مائل گروہوں کو سرکاری سطح پر قبولیت کے ذریعے عزت و احترام سے سرفراز کیا جائے گا تو وہ اپنی شدت پسندی میں کمی کی بجائے اضافہ کریں گے۔

پاکستان پہلے ہی مذہبی شدت پسندی کی بھاری قیمت ادا کرچکا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف تمام تر قربانیوں کے دعوؤں کے باوجود دنیا بھر میں کوئی بھی ملک پاکستان کی نیک نیتی پر یقین کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران ایسے متعدد انتہاپسند مذہبی گروہوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جنہیں پاکستانی ریاست کے اداروں نے خود پروان چڑھایا تھا۔ تاکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے سامنے پاکستان کی نیک نیتی کا مقدمہ مضبوط کیا جاسکے۔ مضحکہ خیزی کی انتہا یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنے کے لئے کی جانے والی قانون سازی کی حکمت پر سوالوں سے بچنے کے لئے حکومت نے مسلسل اس معاملہ کو اپوزیشن کے خلاف استعمال کیا ہے۔ حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ اپوزیشن نے اپنی بے ایمانی کے تحفظ کے لئے ان قوانین کی آڑ میں احتساب قوانین تبدیل کروانے کی کوشش کی تھی۔ اس سرکاری حکمت عملی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان خام قوانین کی کمزوریوں پر اپوزیشن کے اعتراضات کو نظر انداز کیا جاسکے۔ یا عوام کو یہ بتا کر مسلسل گمراہ کیا جائے کہ موجودہ حکومت ہی دراصل ملک و قوم کے مفاد کو سمجھنے اور ان کی حفاظت کی اہل ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اسلام اور دہشت گردی کے حوالے سے گھسی پٹی دلیلیں دے کر یہ بتانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ واحد مسلمان لیڈر ہیں جنہوں نے دہشت گردی پر مسلمانوں کا حقیقی مؤقف عالمی فورمز پر پیش کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ مغرب کے اس دوہرے معیار کو سامنے لائے ہیں جس میں ایک طرف دہشت گردی کے واقعات کو اسلامی دہشت گردی قرار دے کر اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے تو دوسری طرف مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصبات کو ہوا دے کر اسلاموفوبیا اور مسلمانوں پر تشدد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ یہ دعوے کرتے ہوئے عمران خان اکثر کرکٹر کے طور پر اپنے قیام برطانیہ کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس قیام کی وجہ سے انہیں یورپی ملکوں کی ’اصل ذہنیت ‘ کا علم ہؤا ہے اور وہ ان کی کمزوریوں کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔

یہ اعلان کرتے ہوئے البتہ نئے پاکستان میں مدینہ ریاست کا احیا کرنے کے دعویدار وزیر اعظم کبھی یہ سچ نہیں بتاتے کہ جب وہ مغربی ممالک میں رہے تھے تو ان کا طرز زندگی کیا تھا اور وہ اسلام، اس کے شعائر اور پاکستانی ثقافتی رویوں سے برعکس زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ ہر کسی کو تائب ہونے کا حق حاصل ہے اور ایسے میں اس کا ماضی اس کے لئے تہمت یا طعنہ نہیں ہونا چاہئے لیکن اپوزیشن لیڈروں اور سیاسی مخالفین کو ہمہ وقت دشنام طرازی کی میزان پر رکھنے والے لیڈر سے یہ پوچھنا تو ضروری ہوجاتا ہے کہ کیا وجہ ہے کی وکی پیڈیا جیسے انٹرنیٹ انسائیکلو پیڈیا پر آج بھی ان کی موجودہ اور دو سابقہ بیویوں کے علاوہ تین ’ڈومیسٹک پارٹنرز ‘ یا گرل فرینڈز کا نام درج ہے۔ ان معلومات کے مطابق ایما سارجنٹ، سیتا وہائٹ اور کرسٹینا بیکر نامی خواتین 1982 سے 1994 کے دوران ان کی پارٹنر رہی تھیں۔ انہی معلومات کے مطابق عمران خان کے تین بچے ہیں حالانکہ وہ خود دو بچوں کا باپ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

عمران خان اسلامو فوبیا اور دہشت گردی کے حوالے سے مغربی ممالک کے دوہرے معیار کاپول کھولنے کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن یہ اعتراف نہیں کرتے کہ مغرب میں کسی بھی مسلمان کو ریاست اور حکومت وہی تحفظ فراہم کرتی ہے جو کسی بھی دوسرے شہری کو حاصل ہوتا ہے۔ کسی مسلمان کے خلاف جرم کا ارتکاب کرنے والے کسی بھی شخص کو وہاں کی عدالتوں سے ویسی ہی سزا دی جاتی ہے جو کسی بھی دوسرے مجرم کو مل سکتی ہے۔ انصاف کا یہی معیار دراصل ان ملکوں کو جنت نظیر بناتا ہے اور وہاں کے شہریوں کو ہر قسم کی قانون شکنی اور تشدد سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کیا پاکستان کے شہریوں کو بھی یہ تحفظ حاصل ہے۔ کیا کوئی عدالت کسی احمدی کا ناحق خون بہانے والے شخص کو ویسی ہی سزا دے سکتی ہے جو کسی دوسرے قتل میں ملوث شخص کو دی جاتی ہے۔ کیا پاکستان کا سماج اقلیتوں کے خلاف جرائم پر ویسے ہی غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے جیسا رد عمل کسی عام شہری کے خلاف ہونے والی کسی زیادتی پر دیکھنے میں آتا ہے۔

وزیر اعظم ملک میں سچائی کا بول بالا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ خود کو سچ کا سب سے بڑا علمبردار ثابت کرتے ہیں۔ کیا آج تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بارے میں عمران خان حلفاً یہ اعلان کرسکتے ہیں کہ وہ کبھی فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کا حوصلہ کرسکتے ہیں۔ کیا آج معاہدہ پر دستخط کرنے والے شیخ رشید نہیں جانتے کہ کسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ پارلیمنٹ میں نہیں ہوتا ۔ یہ اختیار وزارت خارجہ کے پاس ہے جو شاہ محمود قریشی کی قیادت میں براہ راست عمران خان کے حکم کی پابند ہے۔ پھر سیاسی مقاصد کے لئے ایک گروہ سے جھوٹ پر مبنی معاہدہ کیوں کیا گیا ہے؟ جس مدینہ ریاست کا خواب وہ اہل پاکستان کو دکھاتے ہیں کیا وہاں ایسے کسی جھوٹ کا شائبہ بھی موجود تھا؟ یا نئے پاکستان کی جدید مدینہ ریاست، جھوٹ، مکاری اور افترا پردازی کی بنیاد پر استوار ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments