کمالیہ کا مہم جو اور صادقین کا پاکستان


ہم جب اس بڑے سے ہال میں داخل ہوئے تو میرے لیے ، حیرت کا عجب سامان مقابل تھا۔ کم از کم میں نے، اپنی زندگی میں اتنی ساری پینٹنگز ایک جگہ موجود، نہیں دیکھی تھیں۔ ہال میں چلنے کی جگہ کم تھی اور پینٹنگز کی تعداد زیادہ تھی۔ طرح طرح کے سائز اور طرح طرح کے قسم کی پینٹنگز پورے ہال میں نہایت سلیقے اور ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں۔

جب میں پینٹنگز کے سحر سے نکلا، تو اب پینٹنگز کی تعداد اور ان کی اس جگہ موجودگی سے زیادہ، میرے سامنے یہ سوال اہم تھا کہ وہ مجھے اس ہال میں کیوں لایا ہے۔ میں خود یہ سوال کرنے سے کترا رہا تھا کہ اس طرح کہیں میں بے ادبی اور کسی حماقت کا مرتکب نہ ٹھہرایا جاؤں۔ چپ رہنے میں ہی عافیت تھی۔ شاید وہ میری حیرت اور گھبراہٹ کو بھانپتے ہوئے لطف اندوز ہو رہا تھا، پھر اس نے مجھے وہ پیش کش کر دی جس کے لئے میں قطعی توقع نہیں کر رہا تھا۔ بولا، ”ان میں سے کوئی سے بھی دو پینٹنگ، تم اٹھا سکتے ہو“ ۔

آرٹ کے حوالے سے میری معلومات اور آگاہی یکسر صفر تھی۔ میں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو اس نے اشاروں سے میری ہمت بندھائی اور نہایت محبت کے ساتھ، دوبارہ پینٹنگز اٹھانے کا کہا۔ میں نے اپنے شعور کو استعمال میں لاتے ہوئے، مختلف النوع پینٹنگز کے درمیان میں سے گزر کر، کچھ وقت صرف کیا اور ڈھونڈ کر آیات پر مشتمل دو پینٹنگز منتخب کر لیں۔

حقیقت پر مبنی، اس کہانی کا اسے ہم کلائمیکس کہہ سکتے ہیں، آئیں دیکھتے ہیں کہ یہ نوجوان ہے کون اور اس کے ساتھ فنون لطیفہ سے محبت کرنے والے، اس شفیق شخص کا کیا پس منظر ہے۔

یہ کہانی، کمالیہ کے اس نوجوان کی ہے جو ہمارے معاشرے کے اور بہت سے نوجوانوں کی طرح بہتر مستقبل کی تلاش میں سمندر پار، قسمت آزمائی کا فیصلہ کر چکا تھا اور اس راستے میں آنے والی نادیدہ رکاوٹوں سے الجھنے اور ان سے دلیری کے ساتھ نبرد آزمائی کے لئے خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر آمادگی کی سطح پر لے آیا تھا۔

اور پھر ایک دن، اس ان دیکھی منزل کو پانے کے لئے، اپنی تمام جمع پو نجی کو داؤ پر لگا کر اور رشتوں ناتوں سے دوری کے کرب کو اختیار کرتے ہوئے، وہ اپنے بلند خوابوں کے ساتھ، بلند فضاوں کے سپرد ہوا۔ اسے کھڑکی سے دکھائی دینے والا ہر منظر، اپنے خواب میں لپٹا ہوا نظر آ رہا تھا۔ کبھی کبھی اسے ان مناظر سے ہٹ کر، وہ کچھ بھی دکھائی دے رہا تھا، جو حقیقتاً وہاں موجود نہیں تھا۔ اس کا دل آرزوں، ذہن خیالات اور آنکھیں خوابوں سے لبریز تھیں۔

وہ اپنے خیالات کے شور میں اس قدر گم ہو چکا تھا جیسے مسافروں کی موجودگی اور ان کی آوازیں، اسے سنائی نہ دے رہی ہوں۔ وہ تھا اور اس کے خواب، اور۔ اور یہ بے تابی کہ کسی طرح اس کا بس چلے اور سب کچھ اسی لمحے، اس کے دسترس میں آ جائے۔ نہ اسے وقت گزرنے کا احساس تھا نہ سفر کی تھکن نے اس کے، سدا بہار جذبوں اور دیرینہ ارادوں کو کسی طور متاثر کیا تھا۔

ہاں ایک ہمت باندھنی ابھی باقی تھی، جس کی سفر کے اختتام کے ساتھ ساتھ، اسے زیادہ فکر ہونے لگی تھی۔ ہر چند کہ ایک ائرہوسٹس کے بار بار اس کی نشست کے قریب آنے جانے سے کچھ چہرہ شناسائی ہو چکی تھی، مگر اس سے کوئی بات پوچھنے کے لئے وہ اپنے میں، حوصلہ پیدا نہیں کر پا رہا تھا۔ مگر کب تک، اپنی منزل پانے کے لئے، یہ مرحلہ تو طے کرنا ہی ہوگا۔ سو اچانک اس نے ائر ہوسٹس سے اپنے دل میں چھپا سوال کر ہی ڈالا ”کیا مسافروں میں کوئی فرانسیسی شہری بھی ہے“ ۔ اسے خوش قسمتی کہیے کہ ائر ہوسٹس کا جواب اثبات میں تھا۔

دوسرا مرحلہ اس سے بھی زیادہ کٹھن تھا کہ یہاں انگریزی کا استعمال بھی لازم تھا، سودائی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اجنبی کے سامنے اپنی مقدور بھر انگریزی میں دل کا مدعا، اپنے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں، پوری سچائی سے بیان کر ڈالا۔ ”سر میں روزگار کی تلاش میں ہوں، کیا پیرس میں کہیں، کوئی نوکری مل جائے گی“ ۔ قسمت مہربان تھی! اجنبی نے شائستگی سے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیتے ہوئے، پیرس میں ملنے کا کہا۔ ایسا لگا خواب اور حقیقت کے درمیان، بس ایک قدم رہ گیا ہو۔

پیرس کی سرزمین پر دوسرے معاملات سے نمٹنے کے بعد ، وزیٹنگ کارڈ کی رہنمائی میں، اجنبی مہربان، کی تلاش میں دھڑکتے دل کے ساتھ، اس کا مقام مقصود پر پہنچنا، اتنا خوشگوار نہ تھا کہ وہ اجنبی، یہاں آ کر معلوم ہوا، وہاں کا مصروف و معروف شخصیات میں شامل تھا۔ گارڈ نے جتایا کہ ایسے ملنا ممکن نہیں، اس سے وقت لے کر ملا جاتا ہے۔ دل کی دھڑکن رکنے لگی۔ خواب سارے منہدم ہوتے دکھائی دیے۔

ابھی شاید قسمت نے منہ نہیں موڑا تھا، سو، وہ اہم شخصیت خود کسی کام سے باہر آتی دکھائی دی اور یوں اس رونمائی سے گزشتہ سفر کی یاد دہانی ہوئی۔ شائستگی کا عالم، بالکل پہلے جیسا تھا۔

وہ دفتر بھی، اس کی شخصیت سے گہری مطابقت رکھتا تھا۔ نہایت خوبصورت چیزوں سے آراستہ۔ جب دونوں نے کافی ختم کرلی تو اس نے اپنے میز کی دراز سے کوپن کا ایک پیکٹ نکالا اور نوجوان کی طرف بڑھایا ”تم ایک مہینے، ان کے ذریعے اس شہر میں کھانا کھا سکتے ہو“ ۔ نوجوان نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر بر جستہ جواب دیا ”سر، مجھے ایسی مدد نہیں چاہیے، مجھے آپ کہیں نوکری دلا دیں“ اور یوں کچھ ہی دیر میں، وہی دفتر، نوجوان کا دفتر بن گیا۔

توقع سے زیادہ ملنے والی پہلی تنخواہ، پھر نوجوان کو اس دفتر میں کھینچ لائی ”سر میں نے آپ سے کہا تھا، مجھے مدد نہیں، بس اپنا حق چاہیے۔ آپ نے مجھے بہت زیادہ تنخواہ دلوادی دی ہے“ مسکراہٹ کے ساتھ دیا جانے والا جواب یہی تھا کہ اس دفتر میں اسی حساب سے تنخواہوں کا طے کیا جاتا ہے۔

اپنی تمام تر دیانت داری کے باوجود، نوجوان کمپنی کے مالک کے ہمدردانہ اور مشفقانہ رویئے پر سوچتا رہتا اور اسے کوئی جواب نہ مل پاتا۔ دیانت داری اور محنت اس دفتر میں، ایسی کوئی انوکھی چیز نہیں تھی کہ جس کو اتنا سراہا جاتا۔ وہ اکثر اس بات پر غور کرتا کہ میں نے تو اس دفتر میں ابھی ایسا کوئی نمایاں کام نہیں کر دکھایا، جس کے لئے میری اتنی عزت افزائی ہو۔ پھر کیوں، یہ شخص مجھ پر اتنا مہربان ہے۔ یہ سوال روز اس کا تعاقب کرتا اور وہ روز اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے قاصر رہتا۔

یوں دن، مہینے اور مہینے سال بنے اور گھر آنے کے لئے چھٹیوں کی منظوری کے بعد جب وہ نوجوان اپنے مہربان مالک سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو اس نے پوچھا ”تم کبھی اوپر بڑے ہال میں گئے ہو؟“ جواب نفی میں پاکر، اس نے کہا ”آؤ آج میں تمہیں وہاں لے کر چلتا ہوں“

کچھ ہچکچاہٹ کے بعد ، اس بڑے ہال سے میرے، دو پینٹنگز کے اٹھانے کے بعد ، وہ مسکرایا اور بولا تم نے بتایا تھا نا کہ تم پاکستان سے آئے ہو، مگر میرے لئے تم صادقین کے پاکستان سے آئے ہو۔ ان پینٹنگز کا تعلق بھی اسی عظیم آرٹسٹ سے ہے ”

پینٹنگز اور فنون لطیفہ سے تمام تر لاعلمی کے باوجود، لمحوں میں یہ بات میرے علم میں آ چکی تھی کہ اب، اپنی عزت افزائی اور خصوصی برتاؤ کا راز جاننے کے لئے مجھے مزید کسی تگ و دو کی ضرورت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments