امریکہ جنوبی ایشیا پالیسی


بہرحال ٹرمپ سبکدوش ہو گئے اور جو بائیڈن امریکی منصب صدارت پر جلوہ افروز ہو گئے۔ میں نے انہی کالموں میں کچھ افراد کے حوالے سے خیال ظاہر کیا تھا کہ وہ نئی امریکی انتظامیہ کا حصہ ہوں گے اور میرا یہ خیال درست ثابت ہو گیا۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی جنوبی ایشیا بالخصوص وطن عزیز کے حوالے سے کیا حکمت عملی ہوگی؟ امریکہ میں سب کچھ ایک مربوط طریقہ کار سے ہوتا ہے اور جمہوریت اتنی مضبوط ہے کہ وہ ٹرمپ جیسے فرد کو بھی جھیل جاتی ہے۔

جنوبی ایشیا پر امریکی حکمت عملی کو سمجھنے کے لئے راقم الحروف نے ایک محفل مذاکرہ کا انعقاد کروایا جس میں امریکی اور پاکستانی خارجہ امور کو سمجھنے والے چنیدہ افراد نے شرکت کیں۔ نیویارک سے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کرتے ہوئے ممتاز امریکی پروفیسر Barnett R Robin جو نیو یارک یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعاون مرکز کے سربراہ بھی ہے نے کہا کہ بائیڈن کے صدر بننے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان امریکہ طالبان معاہدے پر عمل درآمد کی غرض سے وہ نشست سنبھال لیں جس کو ہم اینکرنگ کرنا کہہ سکتے ہیں۔

کیونکہ امریکہ اور افغان طالبان معاہدے میں امریکی فوجیوں کی واپسی، جنگی قیدیوں کا تبادلہ، جنگ بندی، افغان طالبان پر پابندیوں کا خاتمہ وغیرہ جیسے مسائل تا ہنوز حل طلب ہیں۔ اسی طرح جو مسئلہ امریکہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے لیے بہت اہم ہے وہ مستقبل کا عبوری سیاسی منظر نامہ ہے کہ اس کے لئے کیا روڈ میپ اختیار کیا جائے گا اور یہ مسئلہ پاکستان کے لیے بھی صف اول کی ترجیح رکھتاہے۔ الطاف حسن قریشی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نئے امریکی صدر کے حوالے سے بہتر حکمت عملی بنانے کے امکان کو اجاگر کیا انہوں نے کہا کہ میری خوش فہمی ہے کہ صدرجو بائیڈن حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ایک متوازن حکمت عملی اختیار کریں گے اور عالمی و علاقائی امن کے لیے فعال کردار ادا کریں گے۔

بائیڈن کی نظر اس پر اچھی طرح مرتکز ہے کہ پاکستان کی سرحدیں شرق اوسط کے ساتھ ساتھ روس اور چین سے بھی ملتی ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے ان اسباب کے سب سے ہی گفتگو کرتے رہے ہیں۔ سلیم صافی نے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور افغان طالبان کے معاہدے کے بعد افغانستان میں تشدد بہت بڑھ گیا ہے انہوں نے اس اہم نکتے کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس معاہدے کے بعد نہ تو کوئی امریکی فوجی طالبان کے ہاتھوں مارا گیا ہے اور نہ ہی کوئی طالبان امریکی فوج کے ہاتھوں مارا گیا ہے مگر اسی دوران افغانستان کی سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد بڑے پیمانے پر جان کی بازی مستقل ہار رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے افغان طالبان کو دیا تو اس معاہدے کی صورت میں بہت کچھ ہے مگر طالبان سے لیا بہت کم ہے امریکہ کو یہ امید تھی کہ افغان گروہ آپس میں کسی نتیجے تک پہنچ جائے گے مگر حالات سب کے سامنے ہیں۔ حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ کمزور سیاسی حالت کمزور معیشت کو جنم دیتی ہے جو کمزور سفارتکاری کی وجہ بنتی ہے اور یہی پاکستان کا بھی مسئلہ ہے۔ سابق ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ نذیر حسین نے امید ظاہر کی کہ نئی امریکی حکومت جنوبی ایشیا کے سلگتے مسئلے کی اہمیت سے آگاہ ہے اور وہ اس مسئلے کے حوالے سے مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ جب تک یہ مسئلہ موجود ہے اس وقت جنوبی ایشیا میں پائیدار امن ایک خواب ہی رہے گا۔

پروفیسر قمر چیمہ نے کہا کہ پاکستان کی تزویراتی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے پروفیسر شبیر احمد خان نے کہا کہ دنیا میں ممالک کی خارجہ پالیسی کسی بڑے واقعے کے بعد بدلتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے خطے میں کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر امجد مگسی نے کہا کہ ضرورت ہے کہ خطے میں امریکی ضروریات کو سمجھا جائے۔ رجا طیب نے کہا کہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کی سوچ کے فرق کو سمجھیں بنا جو بائیڈن کی پالیسی کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔

میاں سیف، قاضی سعید، عدنان کاکڑ، میاں آصف اور یاسر حبیب خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کمزور اقتصادی حالت نے امریکہ کے لیے پاکستان کی اہمیت کو کم کر دیا ہے میں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں اس بات کا تذکرہ کیا کہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ پاکستان کو افغانستان اور بھارت کے ساتھ ہی صرف ملا کر نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ پاکستان کی اپنی اہمیت موجود ہے پھر پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس خطے میں سب سے زیادہ ایٹمی ممالک موجود ہیں پاکستان کی صرف بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں پر بار بار جمہوریت پر شب خون مارا جاتا ہے آمریت یا ہائی برڈ نظام قائم کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کمزور معاشی حالت میں چلا جاتا ہے جمہوری حکومت موجود بھی ہو تو اس کو بائی پاس کر کے اپنی پالیسیاں چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد واجپائی کو لاہور یاترا پر نواز شریف حکومت نے مجبور کر دیا تھا۔ پاکستان نے بھارت سے سفارتی تصفیہ کی طرف بڑھتے ہوئے دنیا کو یہ باور کروا دیا تھا کہ پاکستان مسائل کا حل گفت و شنید سے چاہتا ہے۔ مگر پھر کارگل ایڈونچر ہو گیا اور جمہوری حکومت کی محنت غارت کردی گئی۔ کارگل ایڈونچر کے نتیجے میں ہی سرد جنگ کے بعد بھارت کو امریکہ کے قریب جانے کا موقع ملا اور اسی غلطی کے سبب سے بھارت اور امریکہ کے تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا اور مشرف کے ہی آمرانہ دور میں 2005 میں یہ اپنی انتہا تک پہنچ گیا۔ اور اس وقت سے ہی بھارت میں بڑائی کا زعم بہت بڑھ گیا۔ امریکا جنوبی ایشیا میں پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا مگر مسئلہ یہ ہے کہ جمہوری تشخص رکھنے والا بھارت ہائبرڈ نظام رکھنے والے پاکستان سے زیادہ قابل اعتبار دنیا کو محسوس ہوتا ہے اور یہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments