اپنی تو قسمت ہی خراب ہے ! (مکمل کالم)


              

نپولین کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ کسی نوجوان کو اُس کے پاس لایا گیا، تعارف کروانے والے نے نوجوان کی بہت تعریفیں کیں اور کہا کہ یہ شخص بہت ذہین اور محنتی ہے، اِس میں قابلیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے، جسمانی اعتبار سے بھی چوکس اور تنومند ہے، اگر نپولین اسے اپنی فوج میں شامل کر لے تو یقینا یہ نوجوان ایک اثاثہ ثابت ہوگا۔ نپولین نے تمام باتیں غور سے سنیں اور جواب میں کہا کہ ”ہو سکتا ہے کہ اِس میں یہ تمام خوبیاں ہوں مگر بتائو کیا یہ شخص خوش قسمت بھی ہے؟“مجھے نہیں پتا کہ وہ شخص نپولین کی فوج میں بھرتی ہوا یا نہیں مگر اِس مبینہ واقعے سے یہ اندازہ ضرور ہو گیا کہ نپولین بھی کسی حد تک قسمت پر یقین رکھتا تھا۔ قسمت کا معمہ زندگی کے چند پیچیدہ ترین معموں میں سے ایک ہے۔ یہ ایسی گتھی ہے جو آج تک سلجھائی نہیں جا سکی اور شاید کبھی سلجھائی بھی نہ جا سکے۔ زندگی میں جو لوگ کامیا ب ٹھہرتے ہیں انہیں ہم خوش نصیب کہہ دیتے ہیں اور جو بیچارے کچھ نہیں کر پاتے انہیں بد قسمتی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ شاید یہ نقطہ نظر بہت سطحی ہے اِس لیے کچھ لوگ قسمت نام کی کسی چیز کو تسلیم نہیں کرتے، ایسے لوگوں کا ماننا ہے کہ ہر مقصد مسلسل محنت، لگن اور جدو جہد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اِس موضوع پر بے شمار کتابیں بھی لکھی گئی ہیںجن میں دونوں طرح کے دلائل مل جاتے ہیں، یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ کون سی دلیل چُنتے ہیں۔

لکھی لکھائی قسمت کے حق میں سب سے موثر دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے بہت سے نالائق اور غبی لوگ دنیاوی اعتبار سے آگے نکل جاتے ہیں، اعلی ٰ عہدوں پر فائز نظر آتے ہیں، کاروبار میں پیسے بناتے ہیںاورپر آسایش زندگی گزارتے ہیں۔ یہ سب کچھ محض اُن کے مقدر کی بدولت ہوتا ہے۔ اگر مقدر اُن ساتھ نہ دے تو وہ کامیابی کے مروجہ اصولوں کے تحت اپنی نالائقی، سستی، کاہلی اور محنت سے جی چرانے کی عادت کی وجہ سے زندگی کی دوڑ میں کبھی آگے نہ نکل پائیں۔ دوسری طرف ہم اپنے ارد گرد ایسے لوگ بھی دیکھتے ہیں جو ہم سے کہیں زیادہ ذہین، عقل مند، محنتی اور قابل ہوتے ہیں مگر وہ کسی محکمے میں بطور سینئر کلرک ریٹائر ہو کر فوت ہو جاتے ہیں، دنیا میں کوئی اُن کا نام جانتا ہے اور نہ زندگی میں کوئی انہیں پوچھتا ہے۔ اِس پراسرار دنیا میں یہ دونوں قسم کی ناانصافیاں عام انسانی ذہن کے لیے چونکہ ناقابل فہم ہیں اِس لیے ایسی نہ سمجھ میں آنے والی باتوں کو قسمت کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ قسمت کے حق میں یہ استدلال وزن ضرور رکھتاہے مگر اِس میں کچھ سقم بھی ہے۔ منطق میں اسے ’شتابی چھلانگ ‘کہتے ہیں۔ اِس دلیل میں کچھ باتوں کو جلد بازی میں فرض کرتے ہوئے یکایک چھلانگ کر نتیجہ اخذ کر لیا گیا ہے۔ مثلاً یہاں یہ مفروضہ قائم کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کو ہم نالائق، غبی اور نا اہل سمجھتے ہیں اُن میں کسی بھی قسم کی کوئی اور صلاحیت موجود نہیں ہوتی اور یوں اُن کا کامیابی کی کسی منزل پر پہنچنا محض قسمت کا مرہون منت ہے۔

اسی طرح ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اُن ذہین اور محنتی لوگوں نے، جنہیں ہم بظاہر زندگی میں ناکام دیکھتے ہیں، اپنی ذہانت اور محنت کا درست استعمال کیایا نہیں، ہمارے پاس اسے ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا، ہم فقط سرسری اندازے سے نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں۔ اِس دلیل میں ایک اور سقم یہ ہے کہ لوگ زندگیوں کا باہم موازنہ کرتے وقت لا شعوری طور پر اپنے بدترین لمحے کا تقابل دوسرے شخص کی ظاہری چکا چوند سے کربیٹھتے ہیں، ایسا کرتے وقت وہ یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ اُن کی اپنی زندگی کا تقابل کسی دوسرے سے اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک انہیں دوسرے شخص کی زندگی کے بارے میں مکمل معلومات نہ ہوں۔ ادھوری معلومات کی بنیادپر کیے جانے والے موازنے کا نتیجہ بھی ادھورا اور ناقابل فہم نکلتا ہے اِس لیے اسے قسمت سے جوڑ کر قابل فہم بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 یہ کہانی بھی سننے کو ملتی ہے کہ کامیابی کے تمام مرجہ اصول اپنانے کے باوجود بھی فلاں شخص کامیاب نہیں ہو پایا پس ثابت ہوا کہ وہ بد قسمت ہے۔ مگر اِس نتیجے پر پہنچنے سے پہلے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر شخص صرف وہ کہانی سناتا ہے جو اُس کے زاویہ نگاہ کو سُوٹ‘ کرتی ہے، اکثر و بیشتر لوگ مکمل اور درست بات نہیں بتاتے اور اپنی زندگی کی صرف وہ تصویر دکھاتے ہیں جو بے داغ ہوتی ہے۔ اپنی ذات کے بارے میں دیانتدارانہ رائے دینا کوئی آسان کام نہیں۔ لہذا اِس بات کا امکان بہت کم ہے کہ کوئی شخص ذہین، محنتی، قابل اورعقل مند ہو، مکمل منصوبہ بندی کے تحت زندگی کا مقصد حاصل کرنے کی کوشش بھی کرے مگر اس کے باوجود مسلسل ناکامی کا منہ دیکھے۔

یہ تو ممکن ہے کہ نسبتاً کم محنتی اور کم عقل لوگ قسمت کے بل پر کامیاب زندگی کا لطف اٹھا لیں مگر اِس کا امکان قدرے کم ہے کہ انتھک محنت اور بے پناہ قابلیت رکھنے والے ہمیشہ ناکام رہیں۔ یہ درست ہے کہ دنیا میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں اور ہر شخص کا زندگی کے بارے میں مختلف تجربہ ہوتا ہے، سو، یقینا ایسے لوگ بھی ہوں گے جنہوں نے کامیابی کا ہر کلیہ آزما کر دیکھا ہوگا مگر نصیب نہیں جاگے ہوں گے۔ مگر یہ استثنیٰ کہلاتا ہے جسے اصول نہیں بنایا جا سکتا۔ بعض اوقات عقل مند لوگوں سے بھی زندگی کے کچھ بنیادی فیصلے غلط ہوجاتے ہیں جن کی قیمت چکانی پڑتی ہے، مگر کوئی بھی شخص جان بوجھ کر غلط فیصلہ نہیں کرتا، حالات کا جبر، وسائل، ماحول اور دیگر بے شمار عوامل مل کر کسی مخصوص وقت میں اثر انداز ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان فیصلہ کرتا ہے، یہ فیصلہ درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ درست فیصلوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ثمرا ت خوش قسمتی کی ٹوکری میں رکھ دیے جاتے ہیں جبکہ غلط فیصلوں کے نتیجے میں ملنے والا گلا سڑا پھل بد قسمتی کے کوڑے دان میں پھینک دیاجاتا ہے۔

قسمت کا معمہ دو جمع دو چار کے طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا، یہ بات بہرحال ماننی پڑ ے گی کہ مقدر ہماری زندگیوں میں کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کرتا ہے، اسے محض دنیاوی کامیابی کے اصولو ں کی بنیاد پر رد نہیںجا سکتا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات کے بہت سے اسرار ہم سے پوشیدہ ہیں، یہ کائنات ہماری خواہشات ا ور ہماری کامیابی کے بنائے ہوئے میعارات اور اصولوں پر نہیں چلتی، اِس کے آفاقی میکیزم کو کلیتاً سمجھنا تا حال انسان کے لیے نا ممکن ہے۔ ’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام، آفاق کی اِس کارگہ شیشہ گری کا۔‘

اِن حالات میں جو لوگ خود کو بد قسمت سمجھتے ہیں وہ صرف ایک کام کریں اور و ہ یہ کہ اپنی ذات کا بے رحم احتساب کریں اور اِس بات کا تعین کریں کہ زندگی میں اُن سے کہاں غلطی ہوئی۔ اگر اِس غلطی کو درست کرنا ممکن ہو تو اسے درست کرنے کی سبیل کریں اور اگر ایسا کرنا اب ممکن نہیں رہا تو اس کے نتائج قبول کریں اور آئند ہ اسے دہرانے سے باز رہیں۔ بے شک بدقسمتی کا کوئی علاج نہیں۔ مگر یہ نزلہ، زکام بھی نہیں کہ ہر کوئی اِس کی شکایت کر کے کہتا پھرے کہ ‘اپنی تو قسمت ہی خراب ہے!‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments