رومانوی داستانیں


محبت ایک پاک جذبہ ہے دنیا کی ہر شے محبت کے تابع ہے اگر دنیا میں محبت نہ ہوتی تو شاید کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس پاک جذبے کو انسانوں نے اپنے نفس کی بھینٹ چڑھا کر اس کا مخفف بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج کے دور کی محبت محبوب کی خاطر قربان ہونا نہیں بلکہ اپنی شیطانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے محبوب کو قربان کر دینا ہے شایداسی لئے موجودہ دور میں لفظ محبت اپنی قدر کھوچکا ہے اس کے باوجود ہر سال کئی لڑکیاں اسی جھوٹی اور ناپاک محبت کے جھانسے میں آ کر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے بعد جب ہوش میں آتیں ہیں تو پھر موت کوگلے لگا لیتی ہیں۔ ناپاک اور جھوٹی محبت کرنے والے اکثر مغربی رومانوی داستانوں کا سہارا لیتے ہیں، انہی داستانوں میں سب سے مشہورداستانیں ویلنٹائن سے منسوب ہیں جن کی بنیاد پر باقاعدہ ویلنٹائن ڈے بھی منایا جاتا ہے۔

ویلنٹائن ڈے مغرب میں محبت کرنے والوں کے لئے ایک خاص دن سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے محبت کرنے والے خصوصاً عاشق ایک تہوارکے طور پر مناتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق محبت کایہ خاص تہوار نوجوان لڑکے، لڑکیاں اور غیر شادی شدہ افراد زیادہ جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ ویلنٹائن کے حوالے سے بہت سی رومانوی داستانیں مشہور ہیں لیکن ان سب رومانوی داستانوں میں ایک بات مشترک ہے کہ جب ایک عاشق نے اپنے محبوب کی خاطر جان دے دی تو پروانوں نے اسے شہید محبت کا لقب دے دیا۔

ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے سب سے مشہور داستان یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں سینٹ ویلنٹائن نامی ایک پادری کو ایک خوبصورت راہبہ سے دل ہی دل میں عشق ہو گیا۔ جب پادری اپنی محبت پر قابو نہ رکھ سکا تو اس نے راہبہ کو پانے کی خاطر اس سے کہا کہ ایک خواب میں اسے بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ کربھی لیں تو ان کا یہ عمل گناہ تصور نہیں ہوگا۔ راہبہ نے ویلنٹائن کی بات کو سچ مان لیا اور پھر دونوں نے گناہ کر ڈالا۔ اس گناہ کی پاداش میں سینٹ ویلنٹائن کو پھانسی دے دی گئی۔ مذہبی پیشواوں نے اس گناہ پر اسے ایک مجرم قرار دے دیا جبکہ عاشقوں نے سینٹ ویلنٹائن کو شہید محبت کا لقب دے دیا۔ موجودہ دور کے عاشق ویلنٹائن کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے اسی ناپاک محبت کے نام پر جنسی بے راہ روی کو فروغ دے رہے ہیں۔

اسی طرح ایک اورداستان مشہورہے کہ قدیم روم میں جب بت پرستی عام تھی تو ویلنٹائن نے بت پرستی ترک کر کے مسیحیت اختیار کر لی جس پر اسے موت کی سزا سنائی گئی۔ ایک عرصہ گزرنے کے بعد جب رومیوں نے خود مسیحیت کو قبول کر لیا تو انھوں نے ویلنٹائن کی سزائے موت کے دن ( 14 فروری) کو یوم شہید محبت کے طور پر منانا شروع کر دیا۔ ایک اور دلچسپ داستان یہ بھی مشہور ہے کہ رومی بادشاہ کلادیوس جنگ کے لئے ایک بڑا فوجی لشکر تیارکرنا چاہتا تھالیکن رومی اپنا گھر بار بیوی بچے چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔

جب بادشاہ کو پتہ چلا تو اس نے شادی پر پابندی لگا دی۔ ادھرایک رومی باشندہ ویلنٹائن کسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا اس نے شاہی فرمان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس لڑکی سے خفیہ شادی کرلی بعد میں اس نے اپنے جیسے دیگر عاشقوں کی بھی خفیہ شادیاں کرانی شروع کردیں جب بادشاہ کو اس بات کاعلم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو پھانسی دینے کا حکم دے دیا چنانچہ 14 فروری کو ویلنٹائن کو سرعام پھانسی دے دی گئی۔ ایک اور داستان کے مطابق قدیم روم میں ایک تہوار ”لوپر کالیا“ منایا جاتا تھا اس دن رومی مرد اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے بعد میں اس تہوار کو سینت ویلنٹائن کے نام سے منایا جانے لگا جس کابنیادی مقصد محبت کی تلاش تھا۔

”لوپر کالیا“ تہوار سے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دن کم عمر اور جواں سال لڑکیاں اپنے نام کی پرچیاں لکھ کر بوتلوں میں ڈال کر رکھ دیتیں تھیں جس کے بعد قرعہ اندازی ہوتی۔ نوجوان لڑکے یامرد ان بوتلوں میں سے ایک ایک پرچی نکالتے، جس لڑکی کے نام کی پرچی نکلتی اسے اگلے ”لوپر کالیا“ تہوار تک اس نوجوان کے ناجائزتعلقا ت قائم کرنے کی کھلی چھٹی ہوتی تھی۔

ویلنٹائن ڈے سے منسوب رومانوی داستانوں کا کہیں بھی مستند حوالہ نہیں ملتا پھر بھی آج کے دور کے نوجوان ویلنٹائن کا نام اور اس سے منسوب دن بڑے اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں حالانکہ محبت کی ان تمام داستانوں سے ایک بات بالکل واضح ہے کہ یہ دن پاک محبت کادن نہیں بلکہ ناپاک محبت کی غیر اسلامی روایت ہے جس کے خاتمہ کے لئے علماء کرام، حکومت، والدین، اساتذہ بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments