کنوارا یا آوارہ؟ نہیں نہیں باعظمت جوان!


حیات انسانی کے مراحل میں جوانی زیبا ترین اور قیمتی ترین مرحلہ ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ اس کو درپیش خطرات کی بابت ہماری توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جوانی درحقیقت ایک پاکیزہ فطرت کے عروج کا وقت ہے۔ قدرت کے کارخانہ کی کاریگری کا جمال، عمر کے اسی حصے سے وابستہ ہے۔

کرہ ارض پر موجود ہر ثقافت کی نگاہ اپنی ترقی اور پیش رفت میں جوانوں پر اٹکی رہتی ہے بالکل شکاری کی نگاہ کی طرح کہ جو اپنے شکار سے نظر ہٹانے میں ذرا لاپرواہی نہیں کرتا۔ ثقافتیں جوان کا دل جیتنے کے لیے کئی بناؤ سنگھار کرتی ہیں۔ اور یہ طے شدہ بات ہے کہ جوان کا انتخاب اپنی عمر کے شایان شان لطف و مزہ پر موقوف ہوتا ہے۔ اگر کوئی تہذیب جوانی کے جذبات کا احترام نہ کر سکے تو وہ خود جوان کی نگاہ میں پست ہو جاتی ہے۔ اسی لیے یہ بات اب واضح ہو جانی چاہیے کہ جوان کو ایسے اسلام سے کوئی لگاؤ نہیں رہتا جو اس کے احساسات کی قدردانی نہ کر سکے۔

جوان کی طبیعت میں جمود نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔ یہ خشک افکار سے دور بھاگتا ہے۔ اس کی قدردانی یہ ہے کہ اس لحظہ کی آتش کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے درست استعمال میں لایا جاوے۔ جس طرح دریا میں پانی کی طغیانی، انرجی پیدا کرنے والوں کے لیے رحمت اور ڈیم و بند کا اہتمام نہ کرنے والوں کے لیے شقاوت و عذاب بن جاتی ہے۔ اسی طرح جوانی کے جذبات کا نشیب و فراز بھی ملتوں کے لیے باعث رحمت و برکت بنایا جا سکتا ہے۔

کنوارا پن، جوان کو صلاحیتوں سے بانجھ کر دیتا ہے۔ کنوارے جوان کی عظمت ہمیشہ محضر خطر میں رہتی ہے۔ اسی لیے اگر آوارگی کا سروے کیا جائے تو نوے فی صد سے زیادہ آپ کو کنوارے ملیں گے۔ انسان کی ساری خوبیاں و عالی قدریں جس جھلی نما حصار میں محفوظ ہوتی ہیں اسے حیا کہتے ہیں۔ جبکہ نکاح و شادی، جوان کے اس لطیف نما پردے یعنی حیا و عفت کو سلامت رکھتی ہے۔ شادی شدہ افراد جو اکثر شادی کے بعد شکوہ کرتے ہیں ان کی اصل مشکل میاں یا بیوی نہیں بلکہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ہر فریضہ ذمہ داری مانگتا ہے اور انسان جب تک زندہ ہے ذمہ داریوں سے دامن نہیں چھڑا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments