بلوچ کہانی کار اسرار احمد شاکر


گزشتہ صدی کے آخر اکتوبر 1982ء میں بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں آنکھ کھولنے والے اسرار احمد شاکر کا شمار اردو زبان و ادب کے نوجوان افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اسرار احمد شاکر کی پیدائش ایک ایسے علاقے میں ہوئی جہاں پسماندگی اور غربت کے علاوہ تعلیم اور سماجی شعور نہ ہونے کے برابر تھا۔

ادبی سفر کے آغاز کے حوالے سے بات کی جائے تو آغاز شاعری سے کیا، لیکن جلد ہی انہیں اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ شاعری میں جذبات و احساسات کا مکمل طور پر اظہار ان کے لیے ممکن نہیں۔

شاکر شاعری کو چھوڑ کر کہانی کی طرف راغب ہوئے اور کہانی لکھنا شروع کی اور ہنوز اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کا اظہار کہانی ہی کی شکل میں کر رہے ہیں۔

اگر کہانی سے رغبت کے حوالے سے بات کی جائے تو، کہانی سے رغبت انہیں اپنے دادا جان کی بدولت بچپن سے ہی ہو چکی تھی۔ جس کا تذکرہ وہ اپنے افسانوی مجموعہ ”آدھی ادھوری کہانیاں“ کے شروع میں کچھ اس طرح سے کرتے ہیں :

”گھر کے ایک کونے میں مرکٹی کے ساتھ چولہا چلتا تھا۔ چولہے کے قریب کٹی ہوئی بوریوں پر رلی بچھی ہوتی، جہاں اکثر اوقات داداجان دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر قصے سنایا کرتے تھے۔ یہ سب بتانے کا اصل مدعا یہ ہے کہ یہ قصے میری گھٹی میں شامل رہے ہیں۔“ (1)

بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی، اسرار احمد شاکر نے جب ہوش سنبھالا اور پڑھنے لکھنے کے قابل ہو گئے تو وہ بھی اس محفل کا باقاعدہ حصہ ہوتے۔ اس دوران کہانیوں کی کوئی کتاب اسرار احمد شاکر کے ہاتھ میں تھما دی جاتی اور کہانی سنانے کو کہا جاتا ہے۔ یوں وہ کتاب سے پڑھ کر کہانی سناتے اور دیگر حاضرین محفل اس سے محظوظ ہوتے تھے۔ یوں اسرار احمد شاکر اس محفل کے سب سے کم عمر کہانی گو بھی تھے۔ گویا آج کہانی کار کے روپ میں ہمارے سامنے آنے والے اسرار احمد شاکر کی تربیت کا آغاز لاشعوری طور پر بچپن سے ہی شروع ہو چکا تھا۔

اسرار احمد شاکر کے دو افسانوی مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ پہلا افسانوی مجموعہ ”میرے بھی کچھ افسانے“ کے نام سے اگست 2015ء کو منظر عام پر آیا، جس میں بارہ افسانے شامل ہیں جب کہ دوسرا افسانوی مجموعہ ”آدھی ادھوری کہانیاں“ کے عنوان سے 2020ء کو منظر عام پر آیا، جس میں نو افسانے اور گیارہ افسانچے شامل ہیں۔ دونوں مجموعے مہر در انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن، کوئٹہ سے شائع کیے گئے ہیں۔

موضوعاتی حوالے سے اگر اسرار احمد شاکر کی تحریروں کا جائزہ لیا جائے توسماجی حقیقت نگاری ان کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ ان کی تحریروں میں گہرے سماجی شعور کی عکاسی ہوتی ہے۔ وہ عمیق نظری سے سماج کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر اپنے مشاہدے کو کمال ہنری کے ساتھ سینۂ قرطاس پر اتارتے ہیں۔ اسرار احمد شاکر جس سماج میں پلے بڑھے اس سماج کے مسائل اور حالات و واقعات کو من و عن اپنی کہانیوں میں پیش کرتے ہیں۔

مجموعی طور پر اسرار احمد شاکر کی کہانیاں کوئی دیو مالائی کہانیاں نہیں، بلکہ ان کا حقیقت کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ ان کی کہانیوں میں جنسی امتیاز، عورتوں کے حقوق، دیہی زندگی کے مسائل، غربت، افلاس، غیر منصفانہ نظام، طبقاتی استحصال، وڈیرہ شاہی نظام، جہالت اور مادیت پرستی جیسے موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

علاوہ ازیں اسرار احمد شاکر کی کہانیوں میں جنس نگاری بھی کہیں کہیں واضح انداز میں نظر آتی ہے۔ جس سے سماج میں جنسی گھٹن کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ وہ اپنے سماج اور سماج سے جڑے لوگوں کی نفسیات سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہیں بلکہ اس کا اظہار ان کی کہانیوں میں بھی ہوتا ہے۔

قصہ مختصر اسرار احمد شاکر، ڈاکٹر سلیم اختر کے اس قول پر بالکل پورا اترتے ہیں جس میں وہ ایک ماہر افسانہ نگار میں پائے جانے والے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہیں۔ بقول سلیم اختر :

”ذہین افسانہ نگار جب افراد کا مطالعہ کرتا ہے تو ظاہر اور عیاں سے قطع نظر کرتے ہوئے سائیکی کے نہاں خانوں میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس طرح طبقات الارض کا ماہر زمین کی سطح سے دھوکا نہیں کھاتا اسی طرح انسانی فطرت کی نبض بھی خفیف سے خفیف محسوس کرنے والا افسانہ نگار یہ جانتا ہے کہ اصل انسان باہر نہیں بلکہ اندر ہے۔“  (2)

اسرار احمد شاکر کی کہانیاں ہمارے سماج کی وہ کتھائیں ہیں، جن کو بیان کرنے کے لیے دل گردے کا ہونا ضروری ہے۔ ان کی کہانیوں کے موضوعات عام روزمرہ کے ہیں، جن کو خاص میں پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ شاکر کی آدھی ادھوری کہانیاں اس وقت تک ادھوری رہیں گی، جب تک سماج سے ان مسائل کا خاتمہ نہ ہو جائے، جن کا اظہار ان کی کہانیوں میں کیا گیا ہے۔

حوالہ جات:

1۔ اسرار احمد شاکر،  2020ء ، ”آدھی ادھوری کہانیاں“ ، مہر در انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن، کوئٹہ، ص۔ 16

2۔ ڈاکٹر سلیم اختر،  1980ء  ”افسانہ حقیقت سے علامت تک“ ، اردو رائٹرز گلڈ، الہ آباد، ص۔ 126


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments