بھارت: حکومتی وارننگ کے بعد کئی ٹوئٹر اکاؤنٹ بند، متبادل ایپ استعمال کرنے پر زور


فائل فوٹو

بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ ٹوئٹر ان اکاونٹس کو بلاک کر دے جن پر حکومت اور وزیرِ اعظم نریندر مودی اور حکومت کے خلاف ہیش ٹیگ چلائے جا رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے تقریباً 1500 اکاؤنٹس کی فہرست دی گئی اور کہا گیا کہ ہے ان کو بلاک کر دیا جائے۔ ٹوئٹر نے پہلے ان میں سے کچھ کو بلاک کیا مگر پھر ان کو فعال کر دیا۔

لیکن خبر رساں ادارے ‘پریس ٹرسٹ آف انڈیا’ (پی ٹی آئی) کے مطابق حکومت کی جانب سے ٹوئٹر کے خلاف کارروائی کے عندیے کے بعد اس نے ایسے تقریباً 97 فی صد اکاؤنٹس بلاک کر دیے ہیں۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان اکاؤنٹس پر غلط، اشتعال انگیز اور گمراہ کن خبریں پوسٹ کی جا رہی ہیں اور ان میں سے کئی اکاؤنٹس کا تعلق خالصتان تحریک کی تنظیموں سے ہے۔

حکومت نے جن اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کی ہدایت دی تھی ان میں صحافیوں، خبررساں ادارے، حزبِ اختلاف کے سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے اکاؤنٹس شامل تھے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹوئٹر کو بھارتی آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہو گا ورنہ اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔

اس انتباہ کے بعد ٹوئٹر کے نمائندوں اور متعلقہ وزارت کے سیکریٹری کے درمیان ہونے والی میٹنگ کے بعد ٹوئٹر نے اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کی کارروائی کی۔

حکومت نے ٹوئٹر پر دوہرے معیار اپنانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس نے امریکہ کے کیپٹل ہل پر محاصرے اور 26 جنوری کو دہلی کے لال قلعے پر پیش آنے والے واقعات پر یکساں پالیسی لاگو نہیں گی۔

اس سلسلے میں ’انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اپار گپتا ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکومت کے اس دعوے کی تردید کی اور کہا کہ حکومت کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ٹوئٹر نے کیپٹل ہل اور 26 جنوری کو دہلی میں ہونے والے واقعات پر دوہرا معیار اپنایا۔

بھارتی کسانوں نے 26 جنوری کو نئی دہلی کے لال قلعے پر دھاوا بول دیا تھا۔
بھارتی کسانوں نے 26 جنوری کو نئی دہلی کے لال قلعے پر دھاوا بول دیا تھا۔

ان کے بقول بھارتی حکومت ٹوئٹر سے خفیہ مذاکرات کر رہی ہے جب کہ یہ پتا نہیں چل رہا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت جو حکم دے رہی ہے وہ آئین کے دائرے میں نہیں ہے۔ اسی لیے ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ بھارت کا آئین اظہار کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے جب کہ حکومت جو مطالبات کر رہی ہے وہ آئینی نہیں ہیں۔ ٹوئٹر کمپنی حکومت کی بہت سی باتیں تو مان رہی ہے مگر ساری باتیں نہیں مان سکتی۔

ان کے مطابق بھارتی حکومت اور ٹوئٹر دونوں کے مؤقف میں تضاد ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر ہمارے حکم کی پابندی نہیں کر رہا جب کہ ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ حکومت نے جو حکم دیا وہ غیر آئینی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور ٹوئٹر کی اس لڑائی میں کسانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت نے جن اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا ہے وہ پبلک میں نہیں ہیں اس لیے کچھ پتا نہیں چل رہا ہے کہ وہ کن اکاؤنٹس کو بلاک کرانا چاہتی ہے۔

ایک سینئر تجزیہ کار اور صحافی یامین انصاری کہتے ہیں کہ کسانوں کی تحریک کے زور پکڑنے اور کسانوں اور ان کے حامیوں کی جانب سے ٹوئٹر کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے بعد حکومت اور ٹوئٹر کے درمیان یہ تنازع پیدا ہوا۔

سوشل میڈیا: بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سرکاری پابندیوں کا توڑ

حکومت نے ٹوئٹر سے کہا کہ وہ کم از کم 1500 اکاؤنٹس بند کر دے کیوں کہ ان میں بہت سے غلط عناصر بھی شامل ہو گئے ہیں اس پر کارروائی کرتے ہوئے ٹوئٹر نے پہلے تو ان اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا لیکن پھر ان کو بحال کر دیا۔ کیوں کہ ٹوئٹر کا مؤقف ہے کہ تمام اکاؤنٹس کو بند کرنا درست نہیں ہے۔

اس کے بعد حکومت نے ٹوئٹر کو دوسرا نوٹس ارسال کیا جس پر اس نے تحقیقات کے بعد تقریباً 1300 اکاونٹس بند کر دیے۔ ان میں حزبِ اختلاف کے کچھ رہنماؤں کے اکاؤنٹس ہیں اور کچھ ملکی و غیر ملکی شہرت یافتہ شخصیات بھی شامل ہیں۔

یامین انصاری کا کہنا ہے کہ چوں کہ ٹوئٹر نے حکومت کے بہت سے مطالبات مان لیے ہیں اس لیے معاملات حل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

نئی سوشل میڈیا ایپ کے استعمال کی حوصلہ افزائی

اسی درمیان ٹوئٹر کے متبادل کے طور پر ایک نئی ایپ ‘کو ایپ’ (KOO APP) کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا نشان پیلے رنگ کا چوزہ ہے۔

متعدد وزرا اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لوگ اس پلیٹ فارم پر سرگرم ہیں۔ وزرا لوگوں کو ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ اس پر ان کو فالو کریں۔

اپار گپتا کہتے ہیں کہ ٹوئٹر اور بھارتی حکومت کے درمیان تنازعے کے بعد ہی اس کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں ہے۔ حکومت نے گزشتہ مہینوں میں چینی اسمارٹ فون ایپ اور سوشل میڈیا سائٹس پر پابندی لگائی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں بھارت میں ہی بنیں اور عوام انہیں کمپنیوں کے پلیٹ فارموں پر لوگوں سے رابطہ قائم کریں۔

ان کے بقول اس ایپ کو پروان چڑھانے کے دو پہلو ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا اقتصادی۔

وہ اس پر سوال اٹھاتے ہیں کہ بھارت میں متعدد ایپس ہیں لیکن حکومت صرف ایک ایپ کو کیوں فروغ دینا چاہتی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ ان کے بقول اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں ایک پالیسی بنانی چاہیے کہ وہ کسی نجی کمپنی کو فروغ دے سکتی ہے یا نہیں۔

یامین انصاری کہتے ہیں کہ اس نئی ایپ پر حکومت کے وزرا کے علاوہ بی جے پی کے حامیوں کی اکثریت ہے اور وہاں حکومت کے خلاف بولنے والوں کو ملک دشمن اور غدار کہا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق ایسا پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ‘کو ایپ’ پر محب وطن اور ملک سے وفاداری رکھنے والے موجود ہیں اور اسی قسم کا مواد بھی اس پر پوسٹ کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سچائی یہ ہے کہ اس کو ایک ہی نظریے کے ماننے والے لوگ ہی سبسکرائب کر رہے ہیں اور اس کا استعمال کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق اس پر زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو ٹوئٹر پر کسان تحریک کی حمایت کرنے والوں کے مخالف ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بالی وڈ اداکارہ کنگنا رناوت نے جب ایک ٹوئٹ کر کے کسان تحریک کو دہشت گردوں کی تحریک اور کسانوں کو دہشت گرد قرار دیا تھا اور اس کو جب ٹوئٹر نے بلاک کر دیا تو کنگنا کی حمایت میں بہت سے لوگ آ گئے۔

یامین انصاری بتاتے ہیں کہ اس کے بعد کنگنا رناوت نے ٹوئٹر کو خیرباد کہہ دیا اور اب وہ ‘کو ایپ’ استعمال کر رہی ہیں۔

‘کو ایپ’ کی خاص بات یہ ہے کہ اس وقت یہ پانچ زبانوں کے ساتھ انگریزی میں بھی دستیاب ہے اور اسے مزید 12 زبانوں میں متعارف کرانے کا منصوبہ ہے۔

‘کو ایپ’ بھی ٹوئٹر ہی کی مانند کام کرتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اسے لانچ کیے جانے کے بعد اب تک اس کو 30 لاکھ سے زائد مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔ اسے مارچ میں لانچ کیا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments