شراپ



آج میں ایک گنجان بازار سے گزر رہا تھا۔ اچانک ایک آواز سنائی دی۔

’سنو۔ ادھر آؤ۔‘ آواز سننے کے باوجود میں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور چلتا رہا۔ ابھی چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ پھر وہی آواز سنائی دی۔

’ میں تم سے مخاطب ہوں۔ ادھر آؤ۔ کہاں جا رہے ہو؟‘

میں رک گیا اور اس آواز کی سمت ڈھونڈنے لگا۔ مجھے تلاش کرنے میں کوئی دیر نہ ہوئی۔ دیکھا کہ درخت کی اوٹ میں بیٹھا شخص مجھے بلا رہا تھا۔ اجنبی شخص ہونے کی وجہ سے اس کی طرف جانے کے بجائے میں نے اپنی منزل کی طرف قدم بڑھا دیے۔

دو ہی قدم چلا تھا کہ اس نے پھر آواز دی
’ چوہے رک جاؤ۔‘

اب میں رک گیا اور حیرانی و پریشانی کے عالم میں اسے دیکھنے لگا۔ میرے قدم وہیں جم گئے۔ میں سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ وہ کون ہے اور مجھے کیسے جانتا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ سوچ میں عجیب کشمکش تھی۔ جاؤں کہ نہ جاؤں۔ پھر میں نے ادھر ادھر دیکھا اور میرے قدم اس کی طرف بڑھ گئے۔

قریب جا کر پایا کہ وہ باریش بزرگ تھا۔ میں جب پاس پہنچا تو اس نے مجھے بیٹھنے کا کہا۔ میں بغیر کچھ سوچے قریب پڑے ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گیا۔ میرے چہرے پر حیرانی عیاں تھی۔ مجھے اس حال میں دیکھ کر بزرگ نے کہا:

’ تم حیران و پریشان نہ ہو۔ تم مجھے جانتے ہو۔‘ یہ کہتے ہوئے وہ گھڑے سے پانی کا کٹورا بھر کر غٹاغٹ پی گیا۔

بزرگ نے مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے کہا
’ پیو گے۔ ؟‘ میں نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا
’مجھے پیاس نہیں ہے۔‘
پانی پینے کے بعد وہ مخاطب ہوا

’ میں تمہارے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ تم اس جنم میں چوہے ہو۔ تم پچھلے جنم میں کیا تھے مجھے وہ بھی معلوم ہے۔‘ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

مجھے اس طرح دیکھ کر وہ پھر گویا ہوا

’تم پچھلے جنم میں بلے تھے۔ بزرگ کی باتیں سن کر میرے اوسان خطا ہوئے جا رہے تھے۔ میں پسینے سے شرابور اسے ہی تکے جا رہا تھا۔

بزرگ کی باتیں سن کر میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
’ آآآپ پ پ پ۔ ک ک کون ہیں۔ ؟‘
بزرگ پہلے مسکرایا اور پھر کہنے لگا
’ تم مجھے نہیں جانتے!‘
’ آپ کو نہیں جانتا۔ ہم کبھی نہیں ملے ہیں۔‘ میں نے کہا۔
میری بات پر بزرگ نے کہا

’ میں ایشور ہوں۔ تم پچھلے جنم میں کبھی کبھی میرے پاس آتے تھے۔ تم کو یہ بات یاد نہیں ہو گی۔ تم یہ سب کچھ جان سکتے ہو۔ لیکن تم ڈرو نہیں۔ پریشان ہونا چھوڑو اور پرسکون ہو جاؤ۔ کیوں کہ میں پچھلے جنم میں بھی تمہارا خیرخواہ تھا۔ دوست کی طرح اور آج بھی میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔‘

یہ کہتے ہوئے ایشور مجھے ماضی میں لے گیا۔
یہ میرا پنر جنم ہے۔ مجھے فلم کی طرح ایک ایک کر کے پچھلے جنم کی باتیں یاد آنے لگیں۔

پچھلے جنم میں بھی ایشور ایک درخت کے نیچے آسن لگائے بیٹھا تھا۔ میرے کانوں میں میری ہی کہی ہوئی بات نے سرگوشی کی۔

’میں بلا نہیں بننا چاہتا۔‘
ایشور کہنے لگا
’ ٹھیک ہے تم اگلے جنم میں بلے نہیں ہو گے۔‘
ایشور نے مجھے باس دکھایا جو پچھلے جنم میں گدھا تھا، میرے دوستوں خرگوش اور کتے سے بھی ملوایا۔
ایشور مجھے پنر جنم کے بارے میں بتاتے رہے۔

اپنا ماضی یاد کر کے میری پریشانی اور خوف جاتا رہا۔ میں سوچ میں گم اور دکھی تھا۔ میں من ہی من سوچ رہا تھا۔ پچھلے جنم میں بلا بنایا اور اس جنم میں چوہا۔ یہ کیا انرت ( ظلم ) کیا۔ ’

مجھے افسردہ دیکھ کر ایشور بولا۔
’ کیا ہوا۔ ؟‘
میں نے کہا

’آپ نے مجھے کیوں چوہا بنایا۔ کس پاپ یا گناہ کی مجھے سزا دی۔ پچھلے جنم میں آپ سے میں نے کہا بھی تھا کہ مجھے بلا نہیں بننا لیکن اس جنم میں مجھے چوہا بنا دیا۔ یہ ظلم نہیں کیا آپ نے؟‘

میری بات پر ایشور خاموش رہے۔
میں پھر انہیں کہنے لگا
’ آپ مجھ سے زیادتی کرنا کب بند کریں گے۔ آپ کے جو جی میں آئے گا کریں گے!؟
میری باتوں پر ایشور بدستور چپ رہے

’آپ نے میری طرح میرے دوستوں کے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا، پچھلے جنم کی طرح ان کا یہ جنم بھی آپ نے ضائع کر دیا۔‘

ایشور میری باتیں چپ چاپ سنتا رہا۔ پھر آنکھیں موند لیں۔ شاید کوئی جواب نہیں تھا۔
مجھے لگا۔ ایشور اب ضعیف ہو گیا ہے۔ نظر کمزور ہو چکی ہے۔ اس لئے اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔
مجھے گمان ہوا۔ ایشور مجھے بلا بنا کر پچھتا رہا تھا۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میں پھر مخاطب ہوا
’ ایشور۔ ایشور۔‘ میرے بلانے پر وہ چونک گئے۔ آنکھیں کھولیں تو میں نے کہا

’ تو میرا اور میرے دوستوں کا مستقبل کیا ہے۔ کیا ہم جانوروں کے شراپ (بد دعا) سے نکل سکیں گے یا ابھی اور بھٹکنا باقی ہے؟‘

میری بات سن کر ایشور پھر خاموش ہو گیا۔ اس نے پھر اپنی آنکھیں موند لیں۔
میں نے پھر ان سے کہا
’ایشور میں اب انسان بننا چاہتا ہوں اس لئے مجھے اب کوئی راہ قلندری دکھا دے۔‘
ایشور بیٹھے بیٹھے گہری نیند سو گئے اور میں ان کو جگانے کی ابھی تک کوشش کر رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments