امریکہ، افغان طالبان اور امن معاہدہ


افغانستان کے بحران کے حل میں ایک بڑا نکتہ ”افغان امن معاہدہ“ ہے۔ یہ معاہدہ بنیادی طور پر افغان حکومت، افغان طالبان اور امریکہ کا باہمی اتفاق رائے پر مبنی دستاویز ہے۔ اس معاہدے میں پاکستان کا کردار ایک کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔

ماضی میں امریکہ نے پاکستان کو باہر نکال کر عملاً افغان بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی تھی، جو کارگر نہ ہو سکی۔ پچھلے دنوں افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان بھی ایک تحریری معاہدۂ امن کے تناظر میں ہواجو تاریخی عمل تھا۔ 18 برس کے بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کسی تحریری معاہدے کا حصہ بنے ہیں۔

سب سے اہم سوال افغانستان کے امن کی مکمل بحالی کا ہے۔ کیونکہ مسئلہ محض افغانستان کا نہیں بلکہ ان کے داخلی حالات کی بہتری کا براہ راست تعلق پاکستان اور علاقائی استحکام سے بھی جڑا ہوا ہے۔

امریکہ کی نئی سیاسی حکومت اور امریکی صدر جو بائیڈن سابق امریکی صدر ٹرمپ کی داخلی اور خارجی پالیسی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کا اشارہ دے رہے ہیں۔ ان تبدیلیوں میں افغانستان کے تناظر میں ”افغان امن معاہدہ“ بھی ہے۔ دی افغانستان سٹڈی گروپ نے بھی اپنی سفارشات میں امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ افغان امن معاہدے کو آگے بڑھانے سے قبل افغان طالبان پر سختی سے دباؤ ڈالیں کہ وہ نہ صرف اس ماہدہ کی پاسداری کریں بلکہ پرتشدد سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کریں۔

امریکہ میں افغان امن ماہدہ کے حوالے سے مختلف سوچ کا ہونا فطری امر ہے۔ لیکن اہم پہلو یہ ہے کہ جو کچھ اب تک ”افغان امن معاہدہ“ کی بنیاد پر معاملات آگے بڑھے ہیں ان کو مزیدکیسے آگے بڑھایا جائے۔ جو چیلنجز، مسائل یا مشکلات اس امن معاہدے کی صورت میں افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان موجود ہیں ان کو ختم کرنا خود ایک بڑی سیاسی حکمت عملی سے جڑا ہوا سوال ہے۔

امریکہ کی نئی سیاسی قیادت کی نئی سیاسی مہم جوئی کو دیکھتے ہوئے دو پہلو سامنے آئے ہیں۔ اول افغان حکومت نے بھی امریکہ کے سامنے اپنا یہ ہی موقف پیش کیا ہے کہ افغان طالبان تشدد کی سیاست کو جاری رکھ کر ماہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ دوم امریکہ اور افغان حکومت کے طرز عمل پر جوابی ردعمل افغان طالبان نے بھی دیا ہے۔ ان کے بقول افغانستان میں تشدد کو براہ راست طالبان سے جوڑنا درست نہیں۔ ہم معاہدے کے ساتھ ہیں اور اگر امریکہ یا افغان حکومت نے معاہدے کی پاسداری نہ کی یا اسے خراب کر کے ہم پر بداعتمادی کی تو اس کے سنگین نتائج کا سامنا امریکہ اور افغان حکومت کو ہی ہو گا۔ افغان طالبان کے بقول امن معاہدے کی بال امریکہ کی کورٹ میں ہے وہ ہی فیصلہ کرے کہ اسے جنگ اور امن میں کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔

بظاہر کچھ ماہ قبل تک ایسا لگ رہا تھا کہ ”افغان امن معاہدہ“ تمام فریقوں کی مدد سے نہ صرف آگے بڑھے گا بلکہ اس کے مثبت نتائج بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ لیکن امریکہ میں نئی سیاسی قیادت کے آنے کے بعد کچھ نئے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں جو یقینی طور پر افغانستان میں جاری امن کی کوششوں کو پیچھے کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ امریکہ سمیت طاقت کے تمام مراکز کو ایک بنیادی بات یہ سمجھنی ہو گی کہ جو اس وقت امن کی بات چل رہی ہے اس کو پیچھے کی طرف دھکیلنا اور مفاہمت کی بجائے مزاحمتی رویہ یا بداعتمادی کی صورتحال کو دوبارہ پیدا کرنا افغانستان سمیت خطے کے امن کو پیچھے کی طرف دھکیلنا ہو گا۔

جو معاملات طے شدہ ہیں ان سے انحراف کرنے یا اس میں کوئی بڑی نوعیت کی تبدیلی پیدا کرنے کی بجائے جو اس وقت مسائل ہیں ان کو بات چیت کا حصہ بنا کر مسئلہ کا حقیقی حل تلاش کیا جائے۔ امریکہ کو ان تمام کرداروں سے خبردار رہنا ہو گا جو افغانستان میں بھی موجود ہیں ۔ امریکہ سمیت دیگر ممالک میں بھی ہیں جو افغانستان میں صورتحال کو بہتر بنانے کی بجائے اسے پیچیدہ بنا کر مزید خراب کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی ادارے انسٹی ٹیوٹ فارپیس کے جائزہ مضمون میں سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کے بقول امریکہ کی نئی سیاسی قیادت کو جوش یا جلد بازی میں فیصلہ کرنے کی بجائے افعانستان کے حل میں پاکستان کے ساتھ تعمیری تعلقات کو قائم کرنا ہو گا۔ ان کے بقول پاکستان امریکہ کے درمیان تعلقات کی بہتری میں بھارت، چین اور افغانستان براہ راست اثر انداز ہوں گے ۔ اصل میں پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ہر سطح پر بھارت مخالفت کا سامنا ہے۔

بھارت افغانستان کے امن کو بھی پاکستان کی بڑی کامیابی سے جوڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ اس افغان امن معاہدے کو خراب کیا جائے اور اس کے لیے بھارت اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی کا باہمی گٹھ جوڑ بھی ہے۔ اسی طرح بھارت افغانستان کی سر زمین کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ایسے میں امریکی سیاسی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا اپنا کردار اہمیت کا حامل ہو گا کہ وہ پاکستان کو کس عینک سے دیکھے گا اور اس کی ترجیحات میں بھارت اور پاکستان کہاں کھڑے ہوں گے اور خاص طور پر افغان حل میں وہ کس حد تک بھارت کی سیاسی چالوں یا دباؤ کا سامنا کرتا ہے۔

امریکہ کو یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ افغان طالبان اپنی ایک علیحدہ شاخت رکھتے ہیں اور اپنے فیصلوں میں بھی وہ آزاد ہیں۔ پاکستان کا کردار ایک معاونت کار کا ہی ہے۔ ہم طالبان سے بات چیت کر سکتے ہیں یا کسی فریق کو ان کے ساتھ بٹھانے پر راضی کر سکتے ہیں لیکن یہ سمجھنا کہ ہم جو کچھ طالبان کو کہیں گے وہ من وعن ہماری بات ماننے کے پابند ہیں، درست نہیں ہو گا۔ اسی طرح امریکہ کو ماضی کی طاقت اور جنگ پر مبنی پالیسی سے بھی سبق سیکھنا ہو گا کہ مسئلہ کا حل سیاسی ہے اور اسے سیاسی بنیادوں پر ہی حل کرنے میں دانش مندی ہو گی۔

اسی طرح افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار کنجی کی حیثیت رکھتا ہے اور اسے ہر سطح پر تسلیم بھی کیا جانا چاہیے۔ جو لوگ افغانستان کے حل میں پاکستان اور امریکہ میں بداعتمادی پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ امریکہ کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں اور ان سے امریکہ کو خبردار رہنا ہو گا۔

امریکہ کو اس بات کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے کہ افغان حکومت کا خود ”افغان امن معاہدہ“ میں کیا کردار ہے۔ کیونکہ اب تک افغان حکومت پر دباؤ بھی امریکہ کا تھا جو افغان طالبان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ افغان حکومت نئی امریکی حکومت کو دیکھ کر جو سولو فلائٹ اختیار کر رہی ہے وہ بھی معاملات میں خرابی پیدا کرنے کاسبب بن رہی ہے۔ افغانستان میں جو تشدد کی سیاست چل رہی ہے ، اس کو محض افغان طالبان سے جوڑنا اور افغان حکومت کو سیاسی ریلیف دینا درست حکمت عملی نہیں۔

افغانستان میں جو داخلی عدم استحکام اور انتشار یا پر تشدد سیاست چل رہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ افغان حکومت کی اپنی بھی ہے جو کئی محاذ پر کمزوری دکھا رہی ہے۔ افغان حکومت میں ایسے کئی لوگ ہیں جو بھارت کی خواہش پر منفی سیاست کر رہے ہیں اور اس ”امن معاہدے“ کو خراب کرنے کے کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان تو خود اپنے داخلی سطح کے استحکام کی جو جنگ لڑ رہا ہے اسے وہ افغان امن کے ساتھ جوڑ کر بھی دیکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت کی بنیادی ترجیح افغان امن معاہدے کی کامیابی سے جڑی ہوئی ہے۔

اس صورتحال میں سب کی نظریں امریکہ پر ہیں کہ وہ اپنی پالیسی میں نئی سیاسی مہم جوئی اور ٹکراؤ یا نئے سرے سے کچھ کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کرنے کی بجائے جو معاملات پہلے سے چل رہے ہیں ، انہی میں بہتری پیدا کرے۔ امریکہ کا کردار یہی ہونا چاہیے کہ پاکستان سمیت وہ تمام فریقوں کی مشاورت سے آگے بڑھے اور ہر طرح کے ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments