کورونا ویکسی نیشن کے منتظر لوگ اور جعلساز مافیا


دنیا کے بیشتر ممالک میں کورونا وائرس کی ویکسینیشن کا سلسلہ شروع ہو چکا، تاہم ویکسینیشن مہم کو ابتدائی مرحلے میں کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔ ویکسین کی مساوی تقسیم کے علاوہ ڈیلیوری کے کئی ناقص سسٹمز کی وجہ سے دستیابی کے حوالے سے رکاوٹوں کی نشان دہی منظر عام پر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ سازشی تھیوریز کے نام پر کئی ایسے مفروضے بھی پھیل رہے ہیں، جس کے باعث ویکسین لگانے کے عمل میں سست روی کے امکانات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

امیر ممالک کے مقابلے میں ایسے ممالک جنہیں ایک مخصوص پروگرام و معاہدے کے مظابق کورونا وائرس ویکسین ملنا شروع ہوئی، وہاں بھی دیکھنے میں آیا کہ حکمت عملی کے تحت ترجیحات کے مسائل بھی سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ بنیادی طور پر کورونا وائرس کی ویکسین کی تقسیم کو فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا کہ کورونا سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ متاثرہ مملکت امریکا ڈیلیوری نیٹ ورک کے بہترین نظام کے دعوے کے باوجود سسٹم کی ناکامی پر سوالیہ نشان اٹھے۔

امریکی حکومت کے پاس ویکسین کی تقسیم کے لیے کئی مہینوں کا وقت تھا، لیکن اس کے باوجود پریشان کن مسائل پیش آئے۔ امریکی حکومت نے اکتوبر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ امریکی فوج ویکسین کی تقسیم میں مرکزی کردار ادا کرنے والی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز میں پالیسی کے چیف آف سٹاف پال مینگونے بڑے فخر سے کہا تھا کہ ”ہمارے پاس فوج کی شکل میں دنیا کا بہترین ڈیلیوری نیٹ ورک موجود ہے، جو سینٹرز فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کو چھوٹی سے چھوٹی چیز میں معاونت فراہم کرے گی۔

“ انہوں نے مزید بتایا کہ امریکی فوج عوام کو ٹیکے تو نہیں لگائے گی، لیکن وہ اس بات کو یقینی ضرور بنائے گی کہ ویکسین کا ایک بھی قطرہ ضائع نہ ہو۔ تاہم یہ سسٹم بری طرح ناکام ثابت ہوا۔ فوج کی سخت نگرانی کے باوجود وسکانسن میں سازشی تھیوریز پھیلانے والوں کی باتوں میں آنے والا ایک دوا فروش پانچ سو ویکسینز تباہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس سے یہ بات ضرور ثابت ہوئی کہ ویکسین کی ڈیلیوری کے نظام میں غلطی کی گنجائش موجود تھی، جس کی ذمہ داری انتظامیہ کے کندھوں پر تھی۔ امریکی انتظامیہ نے ویکسین کی فراہمی کے ذمہ داری ایسے اداروں پر بھی ڈال دی، جو اس مقصد کے لئے نہیں بنائے گئے تھے۔

امریکی ریاست اوکلاہوما میں ویکسینیشن کے اپوائنٹمنٹس حاصل کرنے کے لیے ایونٹ مینیجمنٹ کی ویب سائٹ سائن اپ جینیئس اور اسی قسم کی دوسری ویب سائٹ ایونٹ برائٹ اپائمنٹ کے لئے رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوا۔ خیال رہے کہ فلوریڈا کے محکمہ صحت نے ایونٹ برائٹ کا سسٹم ”تیز اور آسان استعمال“ ہونے کی وجہ سے اس کا انتخاب کیا تھا۔ لیکن اپوائمنٹ میں مشکلات میں بے تحاشا مسائل سامنے آئے، ایونٹ برائٹ سمیت دیگر ایونٹ مینیجمنٹ کمپنیوں کے علاوہ ریاستی صحت کے محکمے کی فون لائنز ہمہ وقت مصروف ہونے کے باعث لوگ ان جعلی ویب سائٹس پر موجود معلومات کی تصدیق کرنے سے قاصر رہے، جس کے باعث ٹیکنالوجی سے ناواقف کئی افراد اپنی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

آن لائن فراڈ و جعلسازیوں کی وجہ سے ویکسین کے حصول میں امریکا جیسے ملک کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر ممالک کی جانب سے ویکسین فراہمی کی حکمت عملی پر گہری نظر رکھنے کا دعویٰ کیے جانا لگا ہے، لیکن ویکسین کے حوالے سے مختلف تھیوریوں نے ویکسین کی افادیت پر سوالیہ نشانہ بھی اٹھانا شروع کر دیے ہیں کہ کیا جن دوا ساز اداروں نے ویکسین کی افادیت کے حوالے سے اعلانات کیے تھے، وہ کورونا وائرس سے مقابلے کے سود مند بھی ہوں گے یا نہیں؟

کورونا ویکسین کا تمام ممالک میں استعمال ہونے میں کئی برس درکار ہوں گے، مساوی و منصفانہ تقسیم و پیشگی حصول کے لئے بھاری رقوم کی ادائیگیوں کی وجہ سے ترقی پذیر اور غریب ممالک کو دشواریاں درپیش ہیں تو جلد از جلد کورونا ویکسین کے حصول کے لئے دنیا کے کروڑوں منتظر عوام کے خلاف مافیاز بھی سرگرم ہو چکے ہیں، ذرائع کے مطابق ڈارک ویب سے کے مختلف فورمز، میسنجنگ ایپ پر پیشکشیں زیر گردش ہیں، جو جعل سازی و جھانسا دے کر کورونا علاج کے آن لائن دستیابی کے دعوے کر رہے ہیں۔ جعلساز گروہ اسٹاک کی جانب سے تصویروں کے ساتھ مختلف اشتہارات کو اپنے چینل پر دکھا کر جھانسے سے رقم بٹورنے کی کوششوں پر امریکی تفتیشی ادارے اور انٹرپول نے بھی انتباہ جاری کی ہے۔

گزشتہ دنوں چینی پولیس نے ایک ایسے گروپ کو گرفتار کیا جو جعلی کورونا ویکسین کو پیک کر رہے تھے۔ فارماسیوٹیکل لیول 3 آئٹم لیول سیرلائزیشن فراہم کرنے والے ایڈوانکو کے چیف ایگزیکٹو افسر الف گوئیل نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فارماسیوٹیکل جعل سازی ایک بہت ہی سنگین مسئلہ ہے، جس طرح چین میں جعلی کووڈ ویکسینوں کو ضبط کیا گیا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس عالمی وبائی بیماری کی سنگینی کے باوجود، کچھ ایسے افراد ہیں جو لوگوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا جرم کرتے ہیں جو ویکسین لینے کے لئے بیتاب ہیں۔ اگرچہ ان مخصوص جعلی ویکسین کو چین میں دریافت کیا گیا، لیکن یہ معاملہ ممکنہ طور پر دنیا میں کہیں بھی پھیل سکتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ویب سائٹ کے لئے حاصل کیے جانے والے ڈومین میں کورونا وائرس کے ساتھ ویکسین کے لفظ کو شامل کرنے کے رجحان میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ نومبر میں پہلی ویکسین کی منظوری تک ایسے ڈومین کی تعداد اڑھائی ہزار تھی۔ اطلاع کے مطابق اسلحہ، منشیات اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں لین دین کے لئے استعمال ہونے والے ڈارک ویب کے اگارتھا نامی ایک فورم پر کوکین اور دیگر منشیات کے ساتھ کورونا کی ویکسین بھی فروخت کے لئے دستیاب ہے۔اس کی ایک خوراک کی قیمت 500 سے ایک ہزار ڈالر مالیت کے بٹ کوائن رکھی گئی ہے۔

ماڈرنا، فائزر اور بائیونٹیک کی تیار کردہ ویکسین کی قیمت جعل سازی سے وصول کر رہے ہیں۔ امریکا کے محکمہ صحت، محکمہ انصاف اور دیگر اداروں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ویکسین سے متعلق کسی بھی جعلسازی کی فوری اطلاع کریں اور اس طرح کی جانے والی جع لسازی کی تشہیر سے بھی آگاہ کریں۔ واضح رہے کہ ویکسین کے استعمال کی شروعات امریکا کے فوراً بعد سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے علاوہ یورپ میں بھی کی گئی لیکن ہر ملک میں اب تک سرکاری طور پر ہی اس کا انتظام کیا گیا ہے۔ پرائیویٹ طور پر شاید ہی کسی ملک میں ویکسین مل رہی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments