کوئٹہ کی ایک بیٹی اور ماں جو غم سے ہر روز مرتی ہیں


عتیقہ صادق کے لئے اپنے والد کی آواز اب بھی زندہ ہے لیکن جب پلٹ کر پیچھے دیکھتی ہے تو ان کو نہ پاکر دکھ کے سیاہ چادر تلے لمبی سانس لے لیتی ہے۔ وہ اس لئے پیچھے پلٹ کر دیکھتی ہے کہ والد نے ہمیشہ گھر میں داخل ہو کر پیچھے سے آواز لگا کر اس کو بلایا ہے۔ آٹھ سال بیت چکے ہیں کہ اس کا والد ہزارہ ٹاؤن میں ہونے والے دھماکے میں چل بسا ہے لیکن عتیقہ نے اپنے فون سے والد کا نمبر ڈیلیٹ نہیں کیا ہے۔ اب بھی وہ کبھی کبھار نمبر ڈائل کرتی کہ شاید دوسری طرف سے اس کی آواز سنائی دی۔ جنم لیتے ہی عتیقہ کو جن ہاتھوں نے اٹھا کر سینے سے لگایا تھا وہ انسانی جسم دھماکے میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا تھا۔ بیٹی کو اپنے باپ کا صرف ایک ہاتھ آستین سے چپکا ہوا ملا اور یہ بھی یقین نہیں کہ ہاتھ اس کا تھا بھی کہ نہیں؟

باپ اور بیٹی آج سے آٹھ سال قبل یعنی 16 فروری 2013 کی شام کو جسمانی طور پر ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے بچھڑ گئے۔ شام کا وقت تھا، کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں لوگ میں معمول کے مطابق اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ عتیقہ اپنے ایک رشتہ دار کی عیادت کرنے کے بعد گھر لوٹ رہی تھی کہ اس کے کانوں میں ایک زور دار دھماکے کی آواز گونجی۔ اتنا زوردار کہ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور گھروں کے دروازے دھڑام سے گر پڑے۔

وہ کچھ دیر کے لئے اپنا حواس کھو بیٹھی، آسمان میں دھواں اور مٹی کے بادل اڑ رہے تھے، ہر سو چیخیں سنائی دے رہی تھیں، کچھ ہی دیر میں عتیقہ نے ایسے لوگ دیکھے جن میں سے کسی کا سر کسی کا ہاتھ تو کسی کا پیر زخمی تھا۔ اس کو اپنے بہن بھائیوں کی فکر دامن گیر ہوئی جو اس وقت ٹیوشن سنٹر میں تھے۔ فون سگنل صحیح طور پر فعال نہیں تھے لیکن اس نے بمشکل اپنے بہن بھائیوں سے رابطہ کیا اور ان کو خیریت سے پا کر اس نے سکون کا سانس لیا۔ اس کے 59 سالہ والد عبدالحبیب ایک تندور میں کام کیا کرتے تھے اسی لئے عتیقہ کو یقین تھا کہ وہ دھماکے کی جگہ سے دور خیریت سے ہوں گے۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد اس کی فون کی گھنٹی بجتی ہے اور دوسری طرف سے اپنی ماں کو یہ کہتے ہوئے پاتی ہے کہ آپ کے والد کا کوئی اتا پتہ نہیں چل رہا اور اس کا فون بھی خاموش ہے۔

یہاں سے عتیقہ کے تھکی ماندی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ اور اس کے شوہر موٹر سائیکل پر سوار ہو کر کوئٹہ کے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ دھماکے میں تقریباً 91 افراد ہلاک اور 190 کے قریب زخمی ہوئے تھے جنہیں کوئٹہ کے چار ہسپتالوں تک پہنچایا گیا تھا۔ عتیقہ ایک ایک ہسپتال جاکر اپنے والد کو تلاش کرتی رہی۔ اس دوران وہ بولان میڈیکل کمپلیکس کے ایمرجنسی روم داخل ہوتی ہے جہاں پر مرنے والوں کے جسم کے اعضا پڑے ہیں، کسی کا سر، کسی کا پاؤں، کسی کا چہرہ تو کسی کی ٹانگ، جوتوں کی ایک ڈھیری پڑی ہوئی ہے اور کہیں پر انگوٹھیاں۔ عتیقہ نے ایسی حاملہ عورتیں بھی دیکھیں جن کے پیٹ پھٹ چکے تھے اور اس کے اندر وہ بچے بھی نظر آرہے تھے جنہوں نے ابھی جنم لینا تھا جو بقول شاعر،

اسے ہم دوزخ کا ایک ٹکڑا کیوں نہ کہیں
جہاں جب بھی کوئی کلی کھلتی ہے
تو تند و تیز درانتیوں کی زد میں ہوتی ہے

لیکن یہ کلیاں تو کھلی بھی نہیں تھیں اور رحم مادر میں ہی مرجھا گئیں۔ عتیقہ کہتی ہیں اس منظر کو دیکھ کر اس کا ڈر ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔

عتیقہ کے والد

عتیقہ کو اپنے والد کا نشان کہیں نہیں ملا اور مایوس ہو کر رات کے پچھلے پہر گھر لوٹ گئی۔ صبح ساری لاشیں امام باڑہ پہنچا دی گئیں، عتیقہ اور ماں وہاں بھی پہنچ گئے۔ تابوت قطار در قطار پڑے ہوئے تھے۔ عتیقہ نے ایک ایک میت سے چادر ہٹانی شروع کردی۔ ان میں ایسی لاشیں بھی تھیں جن کے چہرے دھماکے میں مسخ ہوچکے تھے اور پہچاننے کے قابل نہیں تھے۔ بے چہرہ لاشوں کو اوندھے منہ لٹایا گیا تھا۔ عتیقہ کے والد کے گردن پر تل کا نشان تھا اور ایک ایک لاش کو دیکھ کر اس نشان کو ڈھونڈ رہی تھی مگر وہ اپنے والد کو تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ انہیں پتہ چلا کہ مرنے والوں کے کپڑے اور گوشت کے لوتھڑے پاس کے کمرے میں رکھے ہوئے ہیں۔

عتیقہ اور ماں کمرے میں داخل ہوتی ہیں۔ عتیقہ نے چند مہینے قبل کراچی سے اپنے باپ کے لئے نئے کپڑے، انگوٹھی اور جوتے لا کر دیے تھے اور دھماکے کے روز اس نے یہی کپڑے اور جوتے پہنے ہوئے تھے۔

عتیقہ ایک ایک جوتی، انگوٹھی اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو ٹٹول رہی ہے۔ اس نے ایک آدھی قمیض اور آستین دیکھا، الٹ پلٹ کر دیکھا تو خون اور انسانی گوشت سے لتھڑی آستین میں ہاتھ کا ایک ٹکڑا پڑا ملا۔ عتیقہ اس سے ماں کو دکھا کر پوچھتی ہے، امی! ابو نے یہی کپڑے پہنے ہوئے تھے کیا؟ ماں کی جوں ہی نظر پڑتی ہے تو شدت درد سے زمین پر گر کر کہنے لگتی ہے۔ ہاں۔

دونوں نے وہی ہاتھ اٹھایا اور چھوٹے سے ڈبے سے تابوت بنایا، ہاتھ کو اس میں رکھ کر دفنا دیا۔

سلمیٰ اور زینب

ہزارہ ٹاؤن کے اس دھماکے میں بقول لواحقین کے مرنے والوں کے جسم کے گوشت سے بھری تین بوریاں دفنائی گئیں۔ دفنائے ہوئے گوشت کے ان ٹکڑوں میں شاید سلمہ اور زینب کے بدن کے ٹکڑے بھی تھے۔

سولہ سالہ سلمیٰ اور چودہ سالہ زینب دھماکے کے بہت قریب تھیں۔ ان کی ماں زخمی ہوئی۔

زخمی ماں ایک مہینے تک ہسپتال میں زیر علاج تھی اور اسے پتہ نہیں تھا کہ اس کی دونوں بیٹیاں دھماکے میں ہلاک ہو چکی ہیں۔ ہسپتال سے جوں ہی لوٹ کر آئی تو بتایا گیا کہ سلمیٰ اور زینب دھماکے کی نذر ہو گئی ہیں وہ غش کھا کر گر پڑی اور دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا۔

حوار بیگم

حوار بیگم نے آج بھی اپنی دونوں بیٹیوں کی تصویر اور چادر سنبھال کے رکھے ہیں اور جب بھی ان یاد آتی ہے تو چادریں نکال کر چہرے سے لگاتی ہے اور پھر تہہ کر کے واپس رکھ دیتی ہے۔
یہ بات بتاتے ہوئے وہ رونے لگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments