ایک کشمیری کا خواب اور قصہ چند ملاقاتوں کا(حصہ دوم)


دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جنگ کے خاتمے پر مہارانی جنداں کور، جو رنجیت سنگھ کی بیوہ تھی اور اپنے سات سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کے نام پر حکمران تھی، نے بے بس ہو کر گلاب سنگھ کو انگریزوں سے جنگ سے پیدا شدہ معاملات پر گفت و شنید کے لئے اپنا وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ جموں تو پہلے سے ہی گلاب سنگھ کی جاگیر میں شامل تھا، اس نے انگریزوں سے باقی ریاست کا سودا بھی کر لیا۔ چنانچہ 9 مارچ 1946 ء کے معاہدہ لاہور، جس کے آرٹیکل 12 میں خالصہ دربار کو گلاب سنگھ کی آزاد ریاست جموں کشمیر کو تسلیم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، 16 مارچ 1946 ء کو گلاب سنگھ اور کمپنی بہادر کے درمیان بدنام زمانہ ‘معاہدہ امرتسر’ طے پا گیا۔ خالصہ دربار سے جنگی تاوان کے بدلے میں، ریاست جموں کشمیر لے کر، 75 لاکھ روپیہ نانک شاہی (انگریزی راج میں رائج الوقت، ایک روپے کا سکہ خالصہ راج کے پونے دو روپے نانک شاہی کے برابر تھا، گویا یہ رقم چالیس لاکھ ہندوستانی روپے تھی) ، کے عوض گلاب سنگھ کو فروخت کر دی گئی۔

یہ بڑی عجیب منطق تھی کہ حملے میں پہل انگریزوں نے کی تھی، یعنی سکھ فوج پر چڑھائی انگریزوں نے کی، جنگ پنجاب میں ہوئی اور جنگی تاوان خالصہ دربار پر ڈالا گیا، لیکن اس کا وبال پوری کشمیری قوم (بیس لاکھ افراد) کو اپنے فروخت ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا اور کشمیری قوم کے ہر فرد کو محض دو روپے میں بیچ ڈالا گیا۔

اقبال نے اسی ضمن میں اپنے آبائی وطن کے بارے میں کہا ہے :
دہقان و کشت و جوئے و خیاباں فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند

(کسان، کھیت، ندی نالے دریا اور باغات ( جنگل اور پہاڑ) فروخت کر دیے گئے۔ ایک قوم کو فروخت کیا گیا اور بہت ہی ارزاں فروخت کیا گیا)

ڈوگرہ دور سے پہلے کی غلامی میں خود کشمیریوں کا بھی ہاتھ تھا۔ وہ اپنے اوپر روا رکھے گئے دور آزادی کے آخری ریاستی شیعہ حکمران، یوسف شاہ چک کے فرقہ پرستانہ اور متعصبانہ ظلم کے خلاف داد رسی کے لئے مغل اعظم اکب کے دربار میں جا پہنچے۔ اس طرح انہوں نے غلامی کی زنجیروں کو خود اپنے گلے کا ہار بنا لیا۔ 167 سال پا بہ زنجیر رہنے کے بعد افغان، جن کی مہارت صرف لوٹ مار تک محدود تھی، سے مدد کے طالب ہوئے۔ پھر وہی ہوا جو افغانوں کی اکثریت پورے ہندوستان میں کرتی آئی تھی۔

افغانوں کی 69 سالہ غلامی کا قلاوہ اتار پھینکنے کو رنجیت سنگھ کو دعوت دی گئی۔ یہ تو بھوکے شیر کو اپنی جھونپڑی میں آنے کی دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اس شیر نے اپنا پیٹ 27 سال تک خوب بھرا۔ اس پورے 261 سالہ دور غلامی میں بلا شبہ کشمیری بیرونی غلامی کے بندھن میں بندھے تھے، جن پر حکومت ایک صوبے دار (گورنر) کے ذریعے کی جاتی تھی۔ لیکن ان کی حیثیت حاکموں کی متعلقہ ریاست میں رعایا یا ایک شہری (Citizen) کی تھی، اگرچہ عملی طور پر انہیں ایک شہری کے حقوق حاصل نہیں تھے۔

معاہدہ یا بیع نامہ امرتسر کے بعد ڈوگرہ راج میں ریاست، ہندوستان کے تاج یا اقتدار کے زیر نگین نہیں رہی تھی۔ اب وہ 1585 ء سے قبل کی کم و بیش انہی جغرافیائی حدود کے اندر ایک آزاد ریاست کی صورت میں بحال ہو چکی تھی۔ لیکن گلاب سنگھ کی ذاتی جاگیر کے طور پر یہ آزاد ریاست، اس کے باشندوں کے لئے غلامی کی بدترین صورت اختیار کر گئی تھی۔ اب کشمیریوں کی حیثیت عرفی ہی تبدیل ہو کر شہری (Citizen) سے ماتحت، مطیع، تابع، غلام یا محکوم یعنی سبجیکٹ (Subject) کی ہو گئی تھی۔ یعنی کشمیریوں کا اپنی ریاست کے ساتھ معاہدہ عمرانی یا معاشرتی سمجھوتہ، ان کی مرضی کے بغیر ہی تبدیل کر دیا گیا تھا۔

اب گلاب سنگھ کشمیر کے سیاہ و سفید کا قانونی مالک بن گیا۔ انگریزوں نے ریاست کشمیر پر اپنی عمل داری (Jurisdiction) قائم ہونے سے پہلے ہی اسے کسی اور کی تحویل میں دے دیا تھا۔ لہٰذا ریاست کشمیر، کمپنی بہادر اور بعد میں تاج برطانیہ کی عمل داری میں کبھی بھی نہ آ سکی۔ اگرچہ اصل معاہدہ، جس پر ہنری ہارڈنگ (گورنر جنرل) اور گلاب سنگھ اور دوسروں نے دستخط کیے تھے، فارسی میں لکھا گیا تھا۔

انگریزوں نے اس معاہدے کی انگریزی میں ایک نقل تیار کر لی تھی، جس پر کسی کے دست خط نہیں تھے۔ بعد میں آنے والے وقت میں، انگریز اس معاہدے کی من پسند تاویلات کر کے ریاست میں من مانی کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن وہ گلاب سنگھ اور اس کے بیٹے رنبیر سنگھ کے دور میں اپنی من مانی کارروائیوں میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ البتہ ایک مختصر سے دور میں مہاراجہ پرتاب سنگھ (رنبیر سنگھ کے بیٹے ) کے اختیارات سلب کر کے انہوں نے ریاست پر اپنی عمل داری کسی حد تک قائم کر لی تھی۔ انہوں نے پرتاب سنگھ کے دور حکومت ( 1885 ء۔ 1825 ء) میں مہاراجہ پر کچھ الزامات عائد کر کے اور مسلمانوں سے ہمدردی کے لبادے میں، ریاست میں 1889 ء میں پہلے ایک انگریز ریزیڈنٹ مقرر کیا اور پھر اس کی نگرانی میں ایک ریجنسی کونسل بنا ڈالی۔ اس کونسل کا صدر پرتاب سنگھ کا بھائی امر سنگھ، اور اراکین میں راجہ رام سنگھ، بہادر سراج کول، راجہ بہادر پنڈت بیگ رام اور ایک انگریز مقرر ہوئے (مسلمانوں کی ہمدردی میں بنائی جانے والی اس کونسل میں ایک بھی مسلمان رکن نہیں تھا)

پرتاب سنگھ کو بے دست و پا کرنے کے باوجود، اس کی والیٔ ریاست کی حیثیت برقرار رہی۔ اپنی مقصد براری کی لئے ریاست کو اپنے ریزیڈنٹ کی وساطت سے اپنی عمل داری میں لانے کا یہ اقدام معاہدہ امرتسر کی سراسر خلاف ورزی تھی اور یہ غیر آئینی تھا، چنانچہ اسے امور ریاست میں بے جا مداخلت تصور کرتے ہوئے جب یہ معاملہ تاج برطانیہ کے علم میں لایا گیا تو دو سال بعد امر سنگھ کو ہٹا کر پرتاب سنگھ کو اس کونسل کا صدر بنایا گیا اور پانچ سال بعد 1896 ء میں اس کے اختیارات جزوی طور پر ہی سہی معاہدۂ امرتسر کی رو سے بحال کر دیے گئے۔

1924 ء میں اسے پھر سے مکمل طور پر ریاست کا با اختیار حکمران تسلیم کر لیا گیا۔ لہٰذا یہ کہنا بر محل ہو گا کہ ریاست کشمیر پر انگریزوں کی برائے نام حاکمیت اعلیٰ (Suzerainty) ، عمل داری اور اختیارات کے بغیر، کچھ معاہدات کے تحت قائم ضرور تھی، لیکن برطانوی قانون ساز ادارے، دارالعوام (House of Parliament) یا دارالامراء (House of Lords) ، ریاست کے بارے میں کسی قانون سازی کے مجاز نہیں تھے۔ ڈوگرہ دور، کشمیریوں کے لئے بڑا اذیت ناک دور ثابت ہوا۔ گلاب سنگھ کا تعلق جموں کے ہندو گھرانے سے تھا۔

اگرچہ گلاب سنگھ کی وفات کے بعد دیوان کرپا رام کی لکھی گئی اس کی سوانح عمری ‘گلاب نامہ’ میں اس کے آباء و اجداد کے سروں پر پانچ ہزار سال کی حکمرانی کا تاج سجانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن یہ بیع نامہ امرتسر پر پردہ ڈالنے کی سعی لاحاصل تھی۔ گلاب سنگھ کا باپ کشور سنگھ جموال، جموں سے لاہور جانے والی سڑک پر جموں سے بارہ کوس کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں ‘اسماعیل پور’ میں چند ایکڑ زمین کا مالک تھا۔ البتہ اس کا چچا، میاں موٹا سنگھ جو جموں میں مقیم تھا، خالصہ دربار سے قربت کی وجہ سے شہرت کا مالک تھا۔ گلاب سنگھ نے لڑکپن میں سولہ سال کی عمر تک اسی کے پاس پرورش اور تربیت پائی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments