چاہ یوسف کی صدا سے خوفزدہ کون؟


سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو پی ڈی ایم کا مشترکہ امیدوار نامزد کرانے کے بعد حکومتی حلقوں میں افراتفری کا ماحول نظر آنے لگا، اب ایسا کیا ہوا کہ حکمراں جماعت کو پی ڈی ایم کا مشترکہ امیدوار مستقبل میں کسی خطرے کی نشان دہی کرتا نظر آنے لگا ہے اور نظر انداز کیے جانے والے، سابق وزیراعظم سے متعلق پہلے تو کہا گیا کہ مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ سابق وزیراعظم، سینیٹ کی نشست کا امیدوار بنے، لیکن اب حکومتی صفوں میں پیر پگاڑا کی پوتی کے سسر یوسف گیلانی کی پی ڈی ایم کے بطور متفقہ امیدوار نامزدگی پر زبردست ہلچل مچی ہوئی ہے اور وزیراعظم نے ذاتی رابطے شروع کر دیے ہیں۔ وزراء کو خصوصی ٹاسک دے دیے ہیں، حفیظ شیخ نے جہانگیر ترین سے مدد مانگ لی ہے۔

پی پی پی نے وزیراعظم کے خلاف تحریک اعتماد کے آپشن کو استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا، لیکن پی ایم ایل ن کی قیادت شش وپنج کا شکار ہوئی اور نمبر گیم کی وجہ سے اس حکمت عملی کو فی الحال مؤخر کر دیا گیا۔ خیال رہے کہ محترمہ کی شہادت کے بعد پی پی پی میں وزرات عظمیٰ کے لئے امیدواروں کے انتخاب پر قیاس آرائیوں کا سلسلہ عروج پر تھا، مخدوم امین فہیم، شاہ محمود قریشی، احمد مختار وزرات عظمیٰ کے مضبوط امیدوار تھے، لیکن آصف علی زرداری نے مشاورت کے بعد خلاف توقع سابق سپیکر مخدوم یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ کے لئے نامزد کر کے ابہام کو ختم کر دیا۔

یوسف رضا گیلانی ایک انتہائی منجھے ہوئے اور تجربہ کار سیاست دان ہیں، 1975 سے عملی سیاست کا آغاز کیا اور 1983 میں سید فخر امام کو شکست دے کر ضلع کونسل ملتان کے چیئرمین منتخب ہوئے۔

85 کے غیر جماعتی اور 1988 کے جماعتی انتخابات میں رکن قومی اسمبلی بنے، 1988 سے پی پی پی میں اپنا سفر شروع کرنے والے گیلانی کو بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں قومی اسمبلی کا سپیکر بنایا، بطور اسپیکر انہوں نے ایوان کا اعتماد حاصل کر لیا اور آج بھی تمام سیاسی جماعتیں ان کے مثبت کردار کی معترف ہیں۔

سابق صدر زرداری نے بی بی کی شہادت کے بعد سیاسی حکمت عملی پر توجہ مرکوز کی، نون لیگ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا، اے این پی کو اعتماد لیا، مولانا فضل الرحمٰن کا ساتھ حاصل کیا، ایم کیو ایم کو اپنا کر سپرائز دیا، اپنی پارٹی رہنماؤں کو یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنانے پر کچھ اس طرح راضی کیا کہ مخدوم امین فہیم نے انہیں اپنا بھائی قرار دیا اور پارٹی فیصلے پر مکمل اعتماد کا اظہار کر کے پھوٹ ڈالنے کی کوششوں کو دفن کر دیا۔ گیلانی 264 ووٹ لے کر منتخب ہوئے، انہیں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے بھی اعتماد کا ووٹ دیا۔

گیلانی چار سال ایک مہینہ وزیراعظم رہے لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں کالعدم قومی مفاہمتی فرمان 2007 کے مقدمے میں عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوئے، مسلسل عدم تکمیل پر بعدازاں انہیں جرم کا مرتکب قرار دے کر عدالت کی برخاستگی تک کی سزا سنائی گئی، تاہم سپیکر قومی اسمبلی نے وزیراعظم کو اس سزا کی بنیاد پر نااہل قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔ خیال رہے کہ حکومت کی اتحادی جماعت پی ڈی اے کی اہم رہنما فہمیدہ مرزا نے یہ رولنگ دے کر رضا گیلانی کی مستقل نااہلی کا باب بند کر دیا۔

پرویز مشرف کے دور میں غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں احتساب عدالت نے دس برس کی سزا سنائی، تاہم 2006 میں عدالتی حکم پر انہیں رہائی مل گئی۔ 26 اپریل 2012 میں عدالت نے 30 سیکنڈ کی سزا کے بعد وزیراعظم کے عہدے سے عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے معزولی کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ انہی معاملات کو لے کر انہیں نااہل کرانے کی درخواست دائر کی گئی تھی، تاہم توقعات درست ثابت ہوئیں کہ پی ٹی آئی کا اعتراض مسترد ہو جائے۔

گیلانی کی سینیٹ نشست میں کامیابی کے حوالے سے عمران خان کو سرپرائز مل سکتا ہے، کیونکہ جس قسم کی صورتحال بنتی جا رہی ہے، سیاسی پنڈتوں کے مطابق پی ٹی آئی سینیٹ میں اپنا چیئرمین منتخب نہیں کرا سکے گی۔ چیئرمین کو اعتماد کا ووٹ لینا ہو گا، ممکنات ہیں کہ اس پہلے مرحلے میں ہی سینیٹ چیئرمین ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کر سکیں، اور گمان ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرایا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ پی ڈی ایم کی پہلی کامیابی تصور ہو گی، پی ڈی ایم (پی پی پی) کی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے تو اس مرحلے میں کامیابی کے بعد توقعات ہیں کہ دوسرے مرحلے میں پنجاب کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے، کیونکہ سیاست میں سب کچھ ہو سکتا ہے، اس لئے ناممکن نہیں کہا جاسکتا کہ پی پی پی، اپنے شدید ترین اختلافات کے باوجود جب ق لیگ کو اپنا حلیف بنا کر ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ دے سکتی، تو عمران خان کو ہٹانے کے لئے پنجاب دینے کے لئے نون لیگ کو راضی بھی کر سکتی ہے۔

سیاسی پنڈتوں کے مطابق تحریک عدم اعتماد کا تیسرا نشانہ بلوچستان کی حکومت ہو سکتی ہے، کوئی بعید نہیں بیک ڈور رابطوں میں مستقبل کی حکمت عملی طے کر لی گئی ہو، تحریک انصاف جنہیں، نون لیگ کی مخالفت میں لائی تھی۔ وہی ان کے لئے امتحان بن جائیں، کیونکہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا، اس لئے یہاں بھی ناممکن کا تصور نہ کیا جائے۔

پنجا ب و بلوچستان کے ساتھ سینیٹ میں پی ڈی ایم (پی پی پی) کی حکمت عملی کامیاب ہونے پر ہی قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے لئے نمبر گیم برابر ہو سکتی ہے، جس کے بعد قبل از وقت انتخابات کے لئے حزب اختلاف کی تیاریاں شروع ہو سکتی ہیں، یہ نمبر گیم کی سیاست ہے، جہاں ناممکن نظر آتا ہو، وہاں سب کچھ ممکن بن جاتا ہے۔ اس سے متعلق حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق مسئلہ اعتماد کا ہے، جہاں الیکٹیبلز کو یقین ہو گیا کہ اب ان کا سفر یہیں تک تھا تو پھر پی ڈی ایم کے لئے آگے کا راستہ آسان ہے۔

یہ سب آئین کے مطابق ہی ہے، اس میں صرف سیاسی وفاداریوں کو خرید و فروخت کا مسئلہ رہ جاتا ہے اور ملک بھر کی شاید ہی کوئی جماعت ہو، جس نے بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں۔ یوسف رضا گیلانی کا حلقہ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک پھیلا ہوا ہے، پی پی پی کا یہ ترپ کا پتہ کس قدر کارآمد ہوتا ہے، یہ درحقیقت سیاست کی ’پی ایچ ڈی‘ کرنے والے زرداری کا بھی امتحان ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments