برادران نسبتی یا برادران یوسف؟


دنیا میں خون کے رشتوں کے بعد حساس رشتہ سسرال کا رشتہ سمجھا جاتا ہے۔ کائنات کا ہو یا نہ ہو تعلقات کا حسن اب سسرال تک نہ صرف محدود رہ چکا ہے بلکہ پذیرائی بھی حاصل کر چکا ہے۔ سسرال میں ساس سسر، برادر نسبتی یا خواہر نسبتی کا بھی ایک اپنا رعب ہوتا ہے ۔ اگر وہ داماد یا ان کی فیملی سے پوزیشن یا اسٹیٹس میں تھوڑا یا زیادہ ایڈوانس ہو یا پھر یہ بھی ممکن ہے اگر گھر والی کی پکڑ پائیدار ہو پھر تو سمجھو لاٹری لگ گئی۔

برادر نسبتی پر کچھ لکھنے کے ارادے کی ایک وجہ اس وقت بالخصوص پاکستان میں سیاسی قرابت داری کی وجہ سے اس کی ایک اہمیت بن گئی ہے۔ مجبوراً داماد کو بیوی سے زیادہ اس رشتے کی اہمیت کو سمجھنا ہوتا ہے، نہیں تو گھر کا ماحول جس کی بہتری بیوی کے سپرد ہوتی ہے وہ خراب ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

سیاست کے علاوہ آپ ہر شعبۂ زندگی میں دیکھ لیں، داماد (ضروری نہیں گھر داماد ہو) کسی بھی بڑے عہدے پر فائز ہو، اس سے سب سے زیادہ فیض یاب ہونے والا فرد برادر نسبتی ہوتا ہے۔ میں تھوڑا واضح کردوں یہاں برادر نسبتی سے مراد سماج میں ’ابے سالے‘ جیسی گالی سے اخذ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ برادر نسبتی سے مراد زوجہ کا بھائی ہی ہے۔ اور آج کل آپ لوگوں نے اپنے اردگرد دیکھا ہو گا سوسائٹی میں اگر داماد سیاست دان ہے تو برادر نسبتی کو سیاسی پوزیشن کا ملنا آسان، یا پھر ملک کے کسی ادارے میں سربراہی کا ملنا یقینی ہوتا ہے، اگر داماد سرکاری آفیسر ہو، وردی والا ہو یا بغیر وردی والا، پھر بھی برادر نسبتی کے حصے میں کچھ آنا ہی ہوتا ہے، اگر چھوٹا موٹا سیاسی درباری ہو تب بھی برادر نسبتی کے لیے چھوٹی موٹی ملازمت کا انتظام لازمی امر بن چکا ہے۔ ممکن ہے آئندہ یہ معاملہ نکاح کے دوران باقاعدہ شرط کی شکل اختیار کر جائے۔

کہتے ہیں اس رشتے کو سمجھنے کے لیے یا تو آپ نے کبھی برادر نسبتی بننا ہوتا ہے یا آپ کا کوئی برادر نسبتی بن جاتا ہے۔ یہ واحد گالی ہے جو رشتے میں بدل جانے کے بعد مجبوراً میٹھی لگتی ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ برادر نسبتی کا دار و مدار داماد پر ہوتا ہے، ایک مڈل کلاس داماد سے لے کر وی آئی پی تک جس داماد کے نصیب میں برادر نسبتی ہو وہ یہ سمجھ لیتا ہے شادی سے پہلے بیٹا پیدا ہو گیا ہے جبکہ بیوی کی بہن جس کو خواہر نسبتی کہتے ہیں اس کا ہونا یا نہ ہونا زیادہ اہمیت کا حامل نہیں رہا۔ کیوں کہ عورت ہونے کی وجہ سے اس کو سالی آدھی گھر والی جیسے گھٹیا فقرے تک محدود رکھا گیا ہے۔ لیکن ممکن ہے کہیں ایسا ہو کہ برادر نسبتی پیدا نہ ہونے کی وجہ سے سالی کی اہمیت بڑھ جائے مگر ایسا کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔

اگر آپ شادی شدہ ہیں مگر کوئی سیاست دان، بزنس مین، حاکم، آفیسر، وڈیرہ یا چیئرمین وغیرہ نہیں ہیں تو برائے کرم آج کل برادران نسبتی پر بننے والی فلمیں بیوی کی پہنچ سے دور رکھیں۔ ورنہ برادر نسبتی پر داماد کے کرم کی کھوج نکالی جائے گی اور آپ کو صبح نہار منہ تا رات کو سونے سے پہلے تک سنائی جائیں گی جس کی وجہ سے آپ کو دن کو تارے نہیں بلکہ برادران نسبتی نظر آنے لگیں گے۔ پھر آپ ایمان دار، محدود وسائل، کوشش کروں گا، میں دوسروں کی طرح نہیں ہوں، انحصار نہ میں نے کسی پر کیا ہے نہ کوئی مجھ پر کرے وغیرہ جیسے ڈائیلاگ جھاڑنے میں عافیت سمجھیں گے۔

برادران نسبتی سے مجھے کوئی الجھن نہیں کیوں کہ برادر نسبتی سب کو پیارے ہوتے ہیں۔ مجھے ان کے لیول کا اندازہ بھی بخوبی ہے۔ مگر برادر نسبتی بیوی کا پیارا بھی ہو پھر سمجھ جائیں آپ چاہے وقت کے بادشاہ یعنی حاکم وقت ہی کیوں نہ ہوں  برادر نسبتی صاحب کو فیسلٹیٹ کرنا ہوتا ہے ورنہ آپ فیسلٹیٹ نہیں ہو پاتے۔ پھر لوگ یا گھر والے آپ کی گھر جمائی، برادران نسبتی کا خادم یا کسی بھی وجہ سے عزت نفس مجروح کریں، آپ نے یہ سب کچھ برداشت کرنا ہوتا ہے، برادر نسبتی کی خاطر ہرگز نہیں مگر برادر نسبتی کی بہن کی خاطر۔

کبھی کبھی تو برادران نسبتی بنا سوچے سمجھے داماد سے وہ سب کچھ کرواتے ہیں جس سے داماد کے اچھے خاصے اسٹیٹس کو ٹھیس پہنچ جاتی ہے مگر ایسا وقت بھی گزارنا ہوتا ہے۔ چاچا خمیسہ کہتے تھے جو اپنے والدین کی قدر نہیں کرتا وہ اضافی قدر کی صورت میں سسرال میں ساس و سسر کے بعد برادر نسبتی کو وقت دیتا ہے۔ اب اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں یہ کسی قسم کی کوئی بدعا ہے بہرحال چاچا خمیسہ کہتے تھے۔

اب یہ لحاظ بھی نہیں رہا، پہلے کے زمانے میں برادر نسبتی یا خواہران نسبتی کو پابند کیا جاتا تھا بہن کے گھر زیادہ نہیں جانا یا داماد سے کسی چیز کی ڈیمانڈ کرنا عیب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب پہلے سے ہی داماد کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جاتی ہیں جن میں پہلی شروعات داماد کو بیٹے کا درجہ ملنا ہے۔

تحریر پڑھنے کے بعد برادر نسبتی بمقابلہ داماد کوئی مووی سرچ کرنے کی ضرورت نہیں جبکہ برادر نسبتی کے متعلق تحقیق کے لیے کوئی پرانی کہانی یا کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، آپ اگر شادی شدہ ہیں تو آپ بہتر جانتے ہوں گے، اگر نہیں ہیں تو یہ کہانی یعنی (the power of brother in law) ہر دوسرے گھر، محل، سرکاری دفاتر، سیاسی بیٹھک، حکومتی اداروں، ایوانوں، حاکموں کے گھرانوں میں ملے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments