مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ حج: منہ ول کعبے شریف


مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ حج، ”منہ ول کعبے شریف“ منفرد نوعیت کی تصنیف ہے۔ مصنف نے جہاں اس میں تمام مناسک حج کو تفصیل کے ساتھ قارئین کے سامنے بیان کیا ہے، وہاں ساتھ ساتھ تاریخ کو بھی مدنظر رکھا ہے۔ وہ جس جس مقام پر گئے، اس کے تاریخی حوالے بھی قارئین کے سامنے بیان کرتے گئے۔ اس لحاظ سے یہ سفرنامہ بہت معلوماتی اور دلچسپ بن گیا ہے۔ مصنف کا بڑا بیٹا ”سلجوق“ جدہ میں نائب کونسل کے عہدے پر تعینات تھا، اس نے باپ اور چھوٹے بھائی ”سمیر“ کو حج کروانے کے لئے اپنے پاس بلایا۔

حج سے پہلے سلجوق نے انہیں جدہ شہر میں خوب سیر کرائی۔ مصنف کے بقول جدہ شہر دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک جدید جدہ، جو ریاض کی نسبت زیادہ لبرل اور فراخ دل ہے، اور دوسرا قدیم جدہ، جو ”بلد“ کہلاتا ہے۔ جدید جدہ میں پر آسائش، صاف ستھری لیکن مردہ زندگی، جبکہ بلد، زندگی کی حرارت سے ہمکتا تھا۔ اس کے علاوہ وہاں ایک علاقہ ”عزیزیہ“ بھی تھا جہاں غیر قانونی لوگ آباد تھے۔ وہاں کا ماحول اندرون پاکستانی علاقوں جیسا تھا۔

سلجوق نے مستنصر صاحب کو ڈاکٹر علی شریعتی کی کتاب ”حج“ ڈاؤن لوڈ کر دی جو انہیں بہت پسند آئی۔ ڈاکٹر علی شریعتی کے مطابق، حج دراصل ایک عورت اور تمام عورتوں میں سے ایک سیاہ فام غلام عورت، جس کا نام ہاجرہ تھا، کو خراج تحسین پیش کرنے کا نام ہے۔ اگر حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیم ؑ، حضرت سارہ کے نسوانی حسد کے باعث ایک نامہرباں، برباد بیاباں میں نہ چھوڑ جاتے۔ تو نہ زم زم ہوتا، نہ کعبہ ہوتا۔ نہ سعی ہوتی نہ شیطان، اور نہ حضرت اسمٰعیلؑ کی آل میں حضورﷺ کا ورود ہوتا اور نہ حج ہوتا۔ تو گویا حج ہاجرہ ہے۔

جدہ میں کچھ دن قیام کرنے کے بعد مصنف مکہ روانہ ہوئے اور حرم میں پہلی مرتبہ حاضری دی، خانہ کعبہ کا دیدار کیا اور لوگوں کو اس کے گرد طواف کرتے دیکھا تو اس منظر کو بیان کرتے ہیں کہ جیسے ایک سیاہ سیارے کے گرد، ایک کہکشاں، ان گنت ستاروں کے جھرمٹ، اپنا اپنا وجود کھو کر ایک روشن ہالہ تخلیق کرتے ہیں اور یہ ہالہ بھی اس کے گرد بہہ رہا ہو۔

سیاہ غلاف سے ڈھکی مکعب نما عمارت جو مکمل نہیں ہے، اس کی اونچائی اور چوڑائی میں فرق ہے، یہ اللہ کا گھر ہے اور انسانیت اس کے گرد گھیرا ڈالے، گھڑی کی سوئیوں کی مخالف سمت رواں تھی۔ نیند میں لے جانے والے سحر کا مدھم سیلاب، رب کے گھر کو اہم بنا رہا تھا۔ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہوئے انسان کو تمام عزیز و اقارب، دوست احباب، زندہ مردہ، سب یاد آتے چلے جاتے ہیں اور انسان ان سب کے لئے دعائیں مانگتا چلا جاتا ہے۔ طواف کے دوران سب مرد اور عورتیں اکٹھے ہوتے ہیں، بہت زیادہ رش، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے، مگر کوئی منفی جذبہ قریب نہیں پھٹکتا، انسان بالکل ریت کے ذروں کی مانند ہوتے ہیں۔

یہاں آ کر انسان کا ایسے دوبارہ جنم ہوتا ہے جیسے اس کے سارے کل پرزے کھول کر ان کی ساری غلاظتوں کو صاف کر کے دوبارہ جوڑ دیا جائے۔ یہ سات پھیرے طواف کے، کیسے ثمر آور ہوتے ہیں۔ انسان روئے، گڑگڑائے، فریاد کرے، دعائیں مانگے، یا بالکل گونگا ہو جائے لیکن بس سات چکر لگائے، طواف قبول ہو جاتا ہے۔ وہاں جا کر کھوٹا سکہ کھرا ہو جاتا ہے، اس پر جما ہو زنگ سات پھیروں میں اترنے لگتا ہے اور طواف مکمل ہونے کے بعد وہ مکمل صاف ہو کر ایسے چمکنے لگتا ہے جیسے ابھی ابھی ٹیکسال سے نکلا ہو، مگر واپس آ کر جب دنیا کے بازار میں چلنے لگتا ہے تو اس پر دوبارہ زنگ چڑھنے لگتا ہے۔

مصنف نے چشم تصور سے یمن کے بادشاہ، ابرہہ کے لشکر اور ابابیلوں کے جھنڈ کو دیکھا، ابرہہ کے سپاہی حضرت عبدالمطلب کے سو اونٹ پکڑ کر لے گئے تو وہ نڈر ہو کر شکایت کرنے پہنچ گئے۔ ابرہہ نے کہا: میں تو خانہ کعبہ مسمار کرنے آیا ہوں، آپ نے اس بارے میں کوئی درخواست نہیں کی؟ حضرت عبدالمطلب نے فرمایا، اے بادشاہ! میں اونٹوں کا مالک ہوں، اس لئے اپنے مال کی بات کی ہے۔ خانہ کعبہ کا مالک رب ہے وہ خود ہی اس کی حفاظت فرمائے گا۔ پس اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت خود فرمائی اور ابابیلوں کے لشکر بھیج کر ابرہہ کی فوج کو تباہ کر دیا۔ قرآن میں اس واقعے کا ذکر تفصیل سے آتا ہے۔ وہ سال ”عام الفیل“ یعنی ہاتھیوں کا سال کہلایا۔

سیڑھی کو دھکیل کر باب کعبہ کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے۔ باب کعبہ فرش حرم سے کافی اونچا، ملتزم کے مقام پر، قد آدم سے بھی ایک ہاتھ اوپر بلندی پر نصب ہے اور غلاف کعبہ اس کو نہیں ڈھانپتا۔ کعبے کے رکھوالے ایک نقرئی چابی سے اس باب کو کھولتے ہیں۔ فتح مکہ کے وقت حضورﷺ نے یہ چابی حضرت عثمان بن طلحہ ؓکے حوالے کی تھی اور فرمایا تھا کہ آئندہ آنے والی سب نسلوں کے لئے اس چابی کی ملکیت برقرار رہے گی۔ آپ ﷺ جب اندر داخل ہوئے تو اپنی ہمراہی کے لئے حضرت بلال حبشیؓ کو چنا۔

آپ ﷺ نے فرمایا، ”حق آ گیا اور باطل مٹ گیا“ ۔ آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ کعبہ کو بتوں سے پاک کر دیں۔ جب آپ ﷺ باہر تشریف لے آئے اور بلالؓ اکیلے اندر رہ گئے تو پھر حضرت عبداللہ بن عمرؓ اندر داخل ہوئے اور بلالؓ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ نے کس جگہ نماز پڑھی تھی، انہوں نے نشاندہی کر دی، اس کے بعد عبداللہ بن عمر جب بھی کعبہ میں داخل ہوتے تو منہ سامنے کی طرف رکھتے، باب کعبہ پشت پر ہوتا اور خانہ کعبہ کی سامنے والی دیوار کا فاصلہ تین ہاتھ کا رہ جاتا، وہ وہیں نماز پڑھتے۔ اب وہاں محراب بنا دی گئی ہے۔ سلجوق کو بھی وہاں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ کعبہ کے اندر داخل ہوتے ہی شاہ و گدا ایک ہو جاتے ہیں۔

حج کے ایام شروع ہوئے تو مصنف نے احرام پہنا، وہ لکھتے ہیں کہ احرام پہنتے ہوئے انسان کی ایک نئی پیدائش ہوتی ہے۔ احرام موت کا ایک استعارہ بھی ہے۔ انسان قبر کو اپنے سامنے پاتا ہے اور اپنا آپ اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ جب آپ دنیاوی لباس اتار کر احرام پہن لیتے ہیں تو آپ پر کچھ پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں۔ احرام پہن کر تمام زائرین حج منیٰ کا رخ کرتے ہیں، منیٰ کا میدان ان دنوں میں خیموں کی ایک بستی بن جاتا ہے۔ منیٰ کے خیموں میں نماز کی پابندی کی فکر میں انسان گہری نیند سو نہیں سکتا، اس کے بدن میں ایک کلاک فٹ ہو جاتا ہے اور ٹن ٹن کرتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments