ماں بولی اور بچوں میں شعوری ترقی


یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جن بچوں کو درسگاہوں میں ان کی ماں بولی میں پڑھنے کا موقع ملتا ہے، وہ بچے دیگر بچوں کی نسبت شعوری (cognitively) طور پر زیادہ ذہین اور ہوشیار ہوتے ہیں۔

زبان کی اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ زبان محض الفاظ کا ذخیرہ نہیں ہیں بلکہ یہ لوگوں کی ثقافت کی ترجمان ہے اور اس کے الفاظ کی جڑیں روایات اور لوگوں کی روزمرہ کی میل ملاپ اور زمین کی آغوش سے جڑی ہوئی ہیں۔

بچے کی ماں بولی اوراس کے ماحول کا سیکھنے اور تعلیم کے مراحل میں کیا عمل دخل ہے ، اس پرمختلف تھیوریاں سامنے لائی گئیں۔ اور تقریباً ماہرین نفسیات آپس میں متفق ہیں کہ بچے کے سیکھنے میں یہ بے حد مددگار ہوتی ہے وہ اس کے ذریعے آسانی سے علوم اور تصورات سیکھ سکتا ہے۔

اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ اگر کسی کیچ اور پنجگور کے بچے کو درخت پڑھانا یا سمجھانا ہے تو سب سے اچھی تصویر کجھور کے درخت کی ہونی چاہیے کیونکہ کجھور کے ساتھ اس کے جذبات وابستہ ہیں۔

ایک تو انسیت اور قربت کا پہلو ہے، لیکن اس کی دوسری تشریح یہ ہے کہ بچہ ان کو روز دیکھتا ہے اور ان کے ساتھ اس کے اپنے تجربات وابستہ ہوتے ہیں۔ شاید اپنائیت کی یہ کیفیت بچوں کو سیکھنے، سمجھنے، یاد کرنے، دلائل دینے اور منطق کا استعمال کرنے میں آسانی پیدا کرتی ہے۔

اس طرح بچہ اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے کیونکہ وہ اپنا اظہار اور جو کچھ وہ سیکھتا ہے اس کو بہ آسانی منعکس کر سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس وجہ سے ان میں یہ خوبی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ کیسے ہم کاری کریں اور اپنی کمیونٹی کے کاموں میں کس طرح اپنا حصہ شامل کریں۔

ماں بولی کی اہمیت کے حوالے سے بہت ساری تھیوریاں موجود ہیں جو اس کے حق میں دلائل دیتی ہیں کہ ماں بولی ایک ایسا سماجی اوزار/ ٹول ہے جو بچے کی شعوری ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

سوئیس ماہرنفسیات جناب ژاں پیاژے بچے کی شعوری (کاگنیٹیو) ترقی کو عمر کے چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلا اسٹیج سینساری موٹر اسٹیج ہے: یہ پیدائش سے 2 سال کی عمرتک کا مرحلہ ہے۔ اس دوران بچہ (دماغ میں ) سنساری موٹر کے فنکشن اور اپنی حسوں کی مدد سے سیکھتا ہے۔

دوسرا مرحلہ ( 2 سے 7 سال کا دورانیہ) پری آپریشنل اسٹیج ہے، اس میں بچہ چیزوں (آبجیکٹ) کی موجودگی کا مزہ لیتا ہے اور اپنی بات کا اظہار بہتر طور پر کر سکتا ہے۔

تیسرا مرحلہ سات سے گیارہ سال کا دورانیہ ہے جو کنکریٹ آپریشنل اسٹیج کہلاتا ہے۔ اس میں بچہ آئیڈیاز کو لچک (فلیکسیبل طریقے سے ) اور منطق کے ساتھ استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن اس مرحلہ میں ان کی فکر کرنے کی حس بالغ لوگوں کی طرح بیدار نہیں ہوئی ہوتی ہے۔

چوتھا مرحلہ فارمل آپریشنل اسٹیج (گیارہ سال کے بعد کا وقت ) کے بارے میں جناب ژاں پیاژے بولتے ہیں کہ اس مرحلے میں بچہ چیزوں (جن کو چھوا جا سکے ) اور واقعات کے متعلق اپنے دلائل دے سکتا ہے۔

کہتے ہیں کہ جو بچے اپنی ماں بولی کو سیکھنے میں دیر کرتے ہیں (جیسے سماعت سے محروم بچے) انہیں زبان کی گرائمر (سینٹیکس) کے اصولوں کو سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔

ہمارے تعلیمی نظام میں بچے کے داخلہ کا کوئی طے شدہ، مروجہ معیار نہیں ہے۔ اور لگتا ہے کہ والدین کو بچے کی ماں بولی اور تعلیم کے آپسی رشتے کا کوئی خاص ادراک نہیں ہے۔ نہیں تو 3 سے 4 سال کی عمر میں بچے کو سکول بھیجنے کی منطق سمجھ سے باہر ہے۔

بہت سارے ملکوں میں بچوں کے سکول میں داخلے کی عمر طے شدہ ہے۔ کہتے پیدائش سے سات سال تک کا دورانیہ بچے کے لیے ماں بولی کی بنیادوں کو سیکھنے کا مرحلہ ہے۔ یہ وہ دورانیہ ہے جس میں بچہ اپنے گھر اور کمیونٹی کے ماحول میں زبان کی بنیادوں پر ایک حد تک عبور حاصل کر سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جن بچوں نے ماں بولی کے اصول گھر سے ہی سیکھ لیے ہوتے ہیں ، ان کو سکول میں اساتذہ کی ہدایات کو سمجھنے میں کم دشواری ہوتی ہے۔

یہ مانا جاتا ہے کہ بچہ اساتذہ کی ہدایات کو پہلے اپنی ماں بولی میں ترجمہ کرتا ہے اور سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ماں بولی کی اہمیت دونوں صورتوں میں اہم ہے، ماں بولی پڑھائی جائے تو کیا کہنے لیکن اگر دوسری زبان میں پڑھائی جاتی ہے تو ماں بولی ایک رہنما ریفرنس بن جاتا ہے۔

کچھ  اور مسلمہ حقیقتوں کو ہم مانتے ہیں جیسے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی خوبصورتی اس کے حیاتیاتی اور ثقافتی تنوع میں چھپی ہوئی ہے اور بچے کی قابلیت اور اس کی شخصیت میں نکھار اس کی ماں بولی ہی لاسکتی ہے تو اس کے باوجود کیوں زبانوں اور لوگوں کی ثقافتوں کو یہ موقع نہیں دیا جاتا کہ وہ دنیا کی اس خوبصورتی کو برقرار رکھیں اور دنیا کے لیے اچھے شہری پیدا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments