امریکا دوحہ معاہدے سے پیچھے ہٹا تو بڑی جنگ ہو گی


دہشت گردی و پر تشدد واقعات کے خلاف مہم کے تقاضوں اور امریکی اقدامات کو باریک بینی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں امریکا کی جانب سے اعتراف کیا جا چکا ہے کہ اگر کابل انتظامیہ دوحہ معاہدے کے مطابق عمل درآمد کرتی تو چھ مہینے ضائع نہ ہوتے، اس امر کی اب واضح امکانات سامنے آ چکے ہیں کہ مئی 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج بشمول امریکیوں کا انخلاء ممکن نہیں ہو سکے۔ کابل انتظامیہ و جو بائیڈن انتظامیہ افغانستان میں ہونے والے پر تشدد واقعات کو صرف افغان طالبان سے جوڑتے ہیں، حالاں کہ افغانستان میں افغان طالبان کے علاوہ داعش (خراساں شاخ) اور کئی انتہا پسندوں تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔

لیکن ان تمام واقعات میں ایک امر قدر مشترک ہے کہ امریکا یا نیٹو کی جانب سے افغان طالبان پر الزام عاید کیا گیا ہو کہ اس نے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کے فوجیوں کو نشانہ بنایا۔ جابل انتظامیہ و افغان طالبان کے درمیان چھڑپوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے کیونکہ دوحہ مفاہمتی عمل معاہدے میں کابل انتظامیہ کے ساتھ جنگ بندی طے نہیں کی گئی تھی۔ قیدیوں کے تبادلے میں افغان طالبان کے پانچ ہزار اسیروں کو امریکی احکامات پر کابل انتظامیہ رہا کر چکی ہے، جب کہ مزید 7000 افغان طالبان اسیروں کی رہائی کا معاملہ کابل انتظامیہ کے ساتھ الجھا ہوا ہے اور اب واضح طور پر کہہ بھی دیا گیا ہے کہ کابل حکومت ان قیدیوں کو رہا نہیں کرے گی۔

اس کے ساتھ ہی افغان طالبان کے دعویٰ کے مطابق پہلے مرحلے میں رہا ہونے والے 600 سے زائد افغان طالبان کے رہا کردہ افراد کو گھروں، ہسپتالوں سے دوبارہ گرفتار کرتے ہوئے کابل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان قیدیوں نے معاہدے کے برخلاف دوبارہ جنگی کارروائیوں میں حصہ لیا، کابل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی مزید رہائی سے افغان طالبان کی جنگی قوت میں مزید اضافہ ہو گا۔

افغانستان میں ہر آنے والے دن امن کا بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے، اس پر قابو پانے کے لئے فریقین کے درمیان مصالحتی کردار کے لئے خود اقوام متحدہ کو آگے آنا ہو گا، کیونکہ دوحہ معاہدے کی توثیق بھی اقوام متحدہ نہیں کی ہے ، اس لئے اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ اقوام متحدہ کی خصوصی ٹیم افغان امن کی خصوصی نگرانی کے لئے فریقین کے درمیان الزامات و پرتشدد واقعات میں اضافے کی وجوہ کا تعین کرے۔ جو بائیڈن انتظامیہ ابھی تک اسی شش و پنچ میں ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق افغان طالبان، دہشت گردوں کے مختلف گروپوں کو دوسرے ممالک پر حملوں کی تیاری کے لئے استعمال تو نہیں کرنے دے گی۔

سوویت یونین نے افغانستان میں جارحیت کی تو امریکا نے دنیا بھر سے جہاد کے نام مجاہدین اکٹھے کیے ، ہونا تو یہ چاہیے کہ امریکا اس امر کی یقین دہانی کرائے کہ وہ اپنی پراکسی وار کے لئے افغانستان کی سرزمین، عوام و حاشیہ برداروں کا سہولت کار نہیں بنے گا۔ افغانستان میں اس وقت غیر مستحکم و ریاستی رٹ قائم نہیں ہے، جب تک افغانستان میں عبوری حکومت قائم نہیں کی جاتی تو اس وقت تک افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کسی نہ کسی صورت فروعی مفادات کا شکار رہیں گے اور ان پر غیر ملکی قوتوں کا غلبہ رہے گا۔

اس وقت افغان طالبان کی یہ پوزیشن نہیں کہ وہ میزائل ٹیکنالوجی کی صلاحیت رکھتے ہیں یا پھر ان کے پاس ایٹم بم ہے، اگر عالمی برداری افغانستان میں غیر ملکی انتہا پسندوں کا راستہ روکنا چاہتی ہے تو اسے افغانیوں کو خود مختار بنانا ہو گا اور پاک، افغانستان اور ایران بارڈر مینجمنٹ کو مکمل کرنے کے لئے تعاون کرنا ہو گا، تاکہ کھلی سرحدوں سے نقل و حرکت کو روکا جا سکے اور کوئی ملک ایک دوسرے پر الزامات نہ لگا سکے اور نہ ہی کسی بھی ملک کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کی جا سکے۔

یہ سب کچھ زبانی دباؤ کی وجہ سے ممکن نہیں ہو سکتا ، جو فنڈز جنگ کے لئے استعمال ہو رہے ہیں، انہیں درست مصرف میں لا کر دنیا میں امن کی کوششوں کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔ افغان طالبان دوحہ معاہدے کے تحت، غیر ملکی افواج کو نشانہ نہیں بنا رہے، معاہدے کے مطابق پابندیوں کا مطالبہ اور تمام فوجیوں کی واپسی معاہدے کی اساس ہے۔ بین الافغان مذاکرات تاخیر سے شروع نہ ہونے کی بنیادی وجوہ نام نہاد تشدد کے واقعات میں کمی نہ ہونے کا بھونڈا مطالبہ ہے، کابل انتظامیہ و امن کونسل کے ساتھ افغان طالبان کے ایجنڈے میں معاملات پر گفتگو طے پانے کے بعد تاخیر اور جو بائیڈن کو معاہدہ ختم کرنے پر زور دینا، دراصل خطے میں امن کے قیام کے لئے مشکلات میں اضافہ کرنا مقصود نظر آتا ہے۔

ضروری امر یہ ہے کہ امریکا اپنی مداخلت کو جلد از جلد محدود و ختم کرے تاکہ افغان عوام اپنی روایات کے مطابق آگے بڑھ سکیں، افغانستان، امریکا کی کالونی نہیں ہے کہ جارحیت کے بعد ایسی حکومت بنانے کی خواہش رکھتا ہو کہ وہ ہمیشہ امریکی غلامی میں ان کی حاشیہ بردار رہے۔

پاکستان، امریکی جنگ کی وجہ سے خود بدترین دہشت گردی کا شکار رہا ہے، بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنانے کے زعم میں پورے خطے میں آگ برپا کی ہوئی ہے، پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے تو اسی باعث اس کے سدباب کی کوششوں کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے، یہ ٹھوس حقیقت امریکی انتظامیہ و عالمی برداری کو دل سے تسلیم کرنا ہو گی کہ افغان جنگ میں درحقیقت امریکا نے پاکستان کو جھونکا، 40 برسوں سے پاکستان جنگ کی آگ میں فرنٹ لائن پر ہے، یہ مہم محض پاکستان کے اپنے دفاع کی نہیں رہی بلکہ اس کی کامیابی میں عالمی امن کا مستقبل پوشیدہ ہے، لہٰذا دیگر ممالک کو بھی پاکستان کا ساتھ اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا، پاکستان نے اربوں ڈالر مسلط جنگ میں جھونکے تاکہ پائیدار امن کو یقینی بنایا جا سکے، لیکن وطن عزیز کے خلاف سازشوں کے جال بننے والوں کی گوشمالی کرنے کے بجائے مملکت کے مسائل میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

افغان طالبان کے ساتھ معاہدے کی جزئیات کے مطابق افغان عوام کی خواہش کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، جو وقت کابل انتظامیہ نے مختلف حیلے بہانوں سے ضائع کیا ہے، اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے کہ باقی ماندہ وقت میں عالمی برداری افغان مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کردار ادا کرے۔ افغان، ایران اور پاکستان بارڈر مینجمنٹ نے ناقابل یقین فوائد دیے ہیں، پاکستانی حکام واضح طور پر کہتے رہے ہیں کہ جنوبی افغانستان میں رٹ قائم نہ ہونے سے انتہا پسند بلوچستان میں شورش پیدا کرنے کی سازشیں کرتے رہیں گے، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ زمینی حقائق پر مشتمل ایسی حکمت اختیار کی جائے کہ انتہا پسند عناصر کے لئے کوئی سرحدی علاقہ سہل نہ ہو۔

دوحہ معاہدے کا متن واضح ہے کہ جب افغان طالبان و کابل انتظامیہ بین الافغان مذاکرات میں معاہدہ کر لیں گے تو مستقبل کے روڈ میپ کے ساتھ ’جنگ بندی‘ کا اعلان کیا جائے گا۔ ابھی تک تو باقاعدہ ان نکات پر عمل درآمد ہی نہیں ہو رہا کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع ہو سکے۔

بارنیٹ آر روبین نیویارک یونیورسٹی، افغانستان کے علاقائی پروگرام، بین الاقوامی تعاون کے مرکز، اور امریکی صدر کے سابق سینئر مشیر برائے سکریٹری جنرل برائے افغانستان کے نمائندے اور افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکی خصوصی نمائندے کے ڈائریکٹر نے اعتراف کیا ہے کہ ”افغان طالبان جارحانہ اقدامات پر عمل درآمد کیا ہے، درحقیقت افغان طالبان نے بڑی شہری مراکز میں بم دھماکے اور خود کش حملے کم کیے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ پرتشدد واقعات داعش کا کام ہے۔یکم مئی کی آخری تاریخ کو متعین کرنے مقصد یہی تھا کہ فریقین قیدیوں کی رہائی، تشدد میں کمی پابندیوں کے خاتمے، فوجی دستوں کی واپسی، سیاسی تصفیہ اور جنگ بندی کی جا سکے“ ۔

جنگ بندی، افغانستان کے ہر شہری اور عالمی برادری کی دلی خواہش و مطالبہ ہے، لیکن افغان طالبان ملک کے سیاسی مستقبل کے لئے افغانستان میں ایک ایسی عبوری حکومت کا قیام چاہتی ہے جو خودمختار ہو، کسی بیرونی دباؤ و مفادات کا سامنا نہ ہو اور ذاتی مقاصد کے بجائے قومی اتحاد و یکجہتی کا ماحول بنے۔

افغان طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا میں قائم ہونے والی نئی حکومت فروری 2020 میں طے پانے والے امن معاہدے سے پیچھے ہٹی تو پھر بڑی جنگ ہو گی۔ امریکی نشریاتی ادارے کا دعویٰ ہے کہ دی افغانستان سٹڈی گروپ نے ایک رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ نئی امریکی انتظامیہ افغانستان سے فوج واپس بلانے سے قبل طالبان کو تشدد میں کمی لانے کے لیے سختی سے پابند کریں۔ اپنی رپورٹ میں سٹڈی گروپ نے خبردار کیا کہ اگر تشدد میں کمی لانے کے لیے مجبور کیے بغیر فوجیوں کا انخلاء شروع کیا گیا تو افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے القاعدہ بھی متحرک ہو سکتی ہے۔ اب دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے افغان طالبان و امریکا پر ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، بصورت خطے میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments