خواتین کے ختنہ کرنے کا رواج: کیا ریکنسٹریکٹیو سرجری کے ذریعے اعضا کی اصل ساخت بحال ہو سکتی ہے؟


اگرچہ مصر کی شہری باسمہ کامل فرانس کے دارالحکومت پیرس پہنچنے پر اپنا پرس، پاسپورٹ اور دیگر اہم کاغذات کھو بیٹھی تھیں لیکن وہ مقصد جس کے لیے وہ یہاں آئیں تھیں وہ ان کے جوش و جذبے کو مانند نہیں کر پا رہا تھا۔

نو برس کی عمر میں باسمہ کے ختنہ کروائے گئے تھے (دنیا کے چند ممالک میں خواتین کے ختنہ کروانے کا رواج ہے) اور اب وہ ایک مشہور فرانسیسی ڈاکٹر سے ’ریکنسٹریکٹیو سرجری‘ کے بارے میں صلاح مشورہ کرنا چاہتی ہے۔ ریکنسٹریکٹیو سرجری اعضا کی اصل ساخت بحال کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔

ختنے کے عمل نے باسمہ کے ذہن پر بہت گہرا اثر چھوڑا تھا اور وہ نوعمری ہی سے اس سوال کے جواب میں سرکرداں رہی تھیں کہ اُن کے ساتھ بچپن میں جو کیا گیا اس کی وجوہات کیا تھیں؟

وہ اس سوال کا جواب اس لیے بھی ڈھونڈنا چاہتی تھیں تاکہ اپنے ذہن میں اس حوالے سے آنے والے منفی خیالات سے نجات پا سکیں، وہ خیالات جو ایک عرصے سے ان کے ذہن کو جکڑے ہوئے تھے۔

باسمہ نے بی بی سی عربی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں مڈل سکول میں تھی تو قاہرہ میں میری کئی کلاس فیلوز نے مجھے بتایا کہ اُن کے تو کبھی ختنے نہیں ہوئے۔ چنانچہ میں نے اپنے آپ سے سوال پوچھنا شروع کیا کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ 17 برس کی عمر میں میں نے پہلی مرتبہ اس بارے میں اپنی والدہ سے بات کی۔ اب چاہے آپ اُن کو اس کا ذمہ دار سمجھیے مگر حقیقت یہ ہے کہ انھیں بھی معلوم نہیں تھا۔ اُن کے خیال میں بس ایسا کرنا ضروری تھا۔‘

لہذا انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے اور جاب کرنے کے دوران انھوں نے اس شعبے میں کام کرنے والی مصر کی این جی اوز سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ یہ سمجھنا چاہتی تھیں کہ ان جیسی دوسری خواتین ختنہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے نفسیاتی احساس کے ساتھ کیسے نمٹتی ہیں۔ مگر انھیں اپنے سوالوں کے جواب نہ مل سکے۔

یہ بھی پڑھیے

سوڈانی دلہنیں شادی سے قبل ختنہ کیوں کرواتی ہیں؟

مصر میں لڑکیوں کے ختنے: کیا نئی قانون سازی مسئلے کا حل ہے؟

شہزادی لطیفہ: متحدہ عرب امارات میں خواتین کو کتنی آزادی حاصل ہے؟

پھر باسمہ نے اپنے عضوِ مخصوص کی بحالی کے عمل کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور ان خواتین کی کہانیاں پڑھنی شروع کیں جنھوں نے ریکنسٹریکٹیو سرجری کے بارے میں لکھا تھا۔ انھوں اس کے بارے میں سب سے پہلے ایک افریقی امریکی خاتون کے یوٹیوب چینل کے ذریعے پتا چلا۔ اس چینل پر وہ خاتون آپریشن کے بارے میں اپنا تجربات بیان کرتی تھیں۔

مگر اتفاق سے وہ دو برس قبل اُس وقت برطانیہ آ گئیں جب انھیں پڑھائی کے لیے ایک سکالرشپ ملا۔ پھر انھوں نے اسی ملک میں بسنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہاں انھیں پہلی مرتبہ ایک پروفیشنل ڈاکٹر سے بات چیت کرنے کا موقع ملا جس کے بعد وہ اس صدمے کو برداشت کرنے اور اپنے ساتھ جینے کے قابل ہوئیں۔

باسمہ کہتی ہیں کہ ’اپنے نفسیاتی علاج اور صدمے سے نکلنے کے بعد میں نے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ قبول کرنا شروع کیا۔ نفسیاتی تھیراپی نے واقعی مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔ اس نے مجھے اپنے جسم کو قبول کرنے اور زیادہ سمجھنے میں مدد فراہم کی۔ مجھے معلوم ہوا کہ میں مختلف تو ہوں مگر مجھ میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں ہے۔‘

’میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے جسم کے ایک گمشدہ حصے کی وجہ سے میں اپنے جسم سے نفرت نہیں کروں گی۔ میں جانتی ہوں کہ ایک اچھا ساتھی مجھے میرے اسی جسم کے ساتھ قبول کرے گا۔‘

اس سب کے باوجود چند دیگر وجوہات کی بنا پر وہ ریکنسٹریکٹیو سرجری کے بارے میں مزید مشورہ کرنے کے حوالے سے پُرعزم رہیں۔

’یہ اب میرا ذاتی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ مجھ پر ایک ذمہ داری عائد ہو چکی ہے۔ میں نے خود سے یہ کہنا شروع کیا کہ: ختنہ کروانا میرا ذاتی فعل نہیں تھا، لیکن اب میرے پاس ایک آپشن ہے۔ اگر میں نے اب سرجری کروانے کا فیصلہ کیا تو میں اس قابل ہو جاؤں گی کہ اس بارے میں اُن خواتین سے بات کر سکوں جو اس مسئلے کے بارے میں سوچتی تو ہیں مگر معلومات تک مکمل طور پر رسائی حاصل نہیں کر سکتی ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسا میرا معاملہ تھا۔‘

اپنے اعضائے مخصوصہ کے کسی حصے کی بحالی کا خیال ان خواتین کو امید فراہم کر سکتا ہے جو یہ سمجھتی ہیں کہ یہ مسئلہ ان کے لیے پریشانی کا باعث ہے، لیکن بہت سی آوازیں اس کا پہلا نہیں بلکہ آخری انتخاب ہونے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

مجھے اپنا آپ کمتر محسوس ہوتا ہے

باسمہ نے ابھی حال ہی میں قاہرہ کے ایک نئے مرکز کے بارے میں سُنا ہے جو ایسی خواتین کو جراحی اور نان سرجیکل شعبوں میں خدمات پیش کرتا ہے۔ وہ خواتین جو ختنہ کے عمل سے گزر چکی ہوں اور اب اپنی بحالی چاہتی ہوں۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ مالی اعانت کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس سینٹر کی دو بانی ڈاکٹروں، ریحام اواد اور امر سیف الدین، نے بیٹھنے کے لیے جگہ کرائے پر حاصل کی ہوئی ہے اس کے علاوہ ایکس رے مشین، معائنہ کرنے کا ایک کمرہ اور دیگر سامان بھی کرائے پر لیا گیا ہے۔

یہ دونوں ڈاکٹرز تنہا کام کرتی ہیں یعنی کسی نرس یا سیکریٹری کی مدد کے بغیر۔

ڈاکٹر ریحام نے سعودی عرب میں بڑے ہونے کے دوران ہی ختنے کے بارے میں نہیں سنا تھا، اور نہ ہی اپنی تعلیم کے دوران ، جب تک انھوں نے میڈیکل سکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ’انٹرن شپ‘ کا آغاز نہیں کیا تھا۔

ڈاکٹر ریحام نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ ’جب میں پریکٹس کر رہی تھی تو میں نے پہلی مرتبہ ایک حاملہ خاتون کو دیکھا جو اپنے طبی معائنے کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ ‘میں نے دیکھا کہ اُس خاتون کے عضو مخصوصہ میں ٹانکے لگے ہوئے ہیں۔ میں حیران ہوئی اور اس بارے میں پوچھ گچھ کرنے لگی۔ وہاں موجود ڈاکٹر نے مجھے سمجھایا کہ ایسا ختنے کی وجہ سے ہے۔ اس حاملہ خاتون نے مجھے بتایا کہ افریقی ممالک کے چند علاقوں میں ایسا ہونا بہت عام سی بات ہے۔ اور یہ بات سننے کے بعد سے یہ خیال میرے ذہن میں نقش ہو گیا کہ اب میں اس ٹاپک میں سپیشلائیزیشن کروں گی۔‘

ڈاکٹر ریحام اس کے بعد مصر میں چلی آئیں جہاں انھوں نے اپنے ماسٹرز کا مقالہ (تھیسیز) مکمل کیا۔ کچھ عرصے بعد وہ پلاسٹک سرجری کے ماہر ڈاکٹر عمر سیف الدین سے ملیں جو مصر میں ختنہ کے بعد عضو کی بحالی کے لیے سرجری کرنے والے واحد ڈاکٹر تھے۔

انٹرنیٹ پر ہونے والی ویڈیو کال کے دوران ڈاکٹر سیف الدین نے ریحام کو بتایا کہ میڈیکل سکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے بہت سے مہینے مردہ خانے میں موجود ایسی خواتین کی میتوں پر تحقیق میں گزارے جن کی ختنہ کی گئیں تھیں اور چند وہ تھیں جن کے ساتھ یہ عمل نہیں ہوا تھا۔ اس دوران انھیں معلوم ہوا کہ جن خواتین کے ختنہ تھے ان کے کلاٹنگ اور رگوں کو نقصان پہنچا تھا اور وہاں سے ہی انھوں نے ایسے اعضا کی بحالی کی تکنیک کے طور پر دوبارہ کام کرنے کو سمجھا۔

ڈاکٹرز کے مطابق خواتین کی شرمگاہ کے اوپر موجود اوپری حصہ بظاہر جتنا باہر نظر آ رہا ہوتا ہے وہ صرف اتنا ہی نہیں ہوتا بلکہ شرمگاہ کے اندر بھی موجود ہوتا ہے اور ختنہ کے عمل کے دوران یہ ناممکن ہوتا ہے کہ اسے مکمل طور پر جسم سے علیحدہ کر دیا جائے۔

ڈاکٹر سیف الدین کے پاس اس حوالے سے کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ انھوں نے اب تک کتنی خواتین کی ریکنسٹریکٹیو سرجری کی ہے۔

اقوام متحدہ خواتین کی ختنہ کے عمل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے اور ہر برس چھ فروری کو اس پریکٹس کے خلاف دن عالمی سطح پر منایا جاتا ہے۔

مصر نے سنہ 2008 میں خواتین کے ختنہ کے عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ایسا کرنے کو جرم قرار دیا تھا مگر اس کے باوجود یہ عمل مصر میں آج بھی جاری ہے۔

ختنہ

سرکاری اور بین الاقوامی اطلاعات کے مطابق مصر میں بہت ساری خواتین کو اس طرح کے بھیانک عمل کا نشانہ بنایا گیا ہے

ڈاکٹر سیف الدین سے ملاقات میں میں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ آپریٹ کرنے کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں۔

ڈاکٹر سیف الدین نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ‘میں آنے والی خاتون سے سب سے پہلے جس چیز کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ اُن کی اصل شکایت کیا ہے۔ میں پہلا سوال یہ کرتا ہوں کہ ‘آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟’ اور زیادہ تر خواتین کا جواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کمتر محسوس کرتی ہیں۔ اگر کوئی کمتر محسوس کر رہا ہے تو اس کا علاج سرجری نہیں ہے بلکہ نفسیاتی علاج کے ذریعہ اس سے نمٹا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جو آپ کھو چکے ہیں وہ واپس نہیں آنے والا۔ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا کسی خاتون کو ان کی شرمگاہ کی ہیت پریشان اور غمزدہ کر رہی ہے یا عضو کی افعالیت میں کچھ عیب ہے؟ اور اگر عضو ختنہ کی وجہ سے صحیح طرح اپنا فعل سرانجام نہ دے رہا ہوں تو پھر ہم سرجیکل اور غیر سرجیکل دونوں طرح سے علاج کر سکتے ہیں۔’

انھوں نے کہا ہے کہ بعض خواتین اپنے شوہروں سے ملنے والے طعنوں کے سبب تناؤ کا شکار ہو کر ان کے پاس آتی ہیں۔ ‘ہمارے معاشرے میں زیادہ تر مرد فحش فلمیں دیکھتے ہیں اور اس کے بعد وہ اپنی خواتین پر جملے کستے ہیں اور سختی کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین مایوسی کا شکار ہو جاتی ہیں۔’

لہذا جب تک نفسیاتی ماہر اس بات کی تصدیق نہیں کرتا ہے کہ عورت نفسیاتی طور پر علاج کے لیے تیار ہے تب تک وہ سرجری کے بارے میں نہیں سوچتے۔

مگر اس سرجری کی قیمت کتنی ہوتی ہے؟ سیف الدین کا کہنا ہے کہ قیمت ہر مریض کی صورتحال کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔ انھوں نے کوئی لگی بندھی رقم بتانے سے انکار کر دیا۔

‘مسخ شدہ’

ختنہ شدہ عورت کو سرجری کی ضرورت کے احساس میں نفسیاتی عنصر کا بڑا کردار ہے۔

ایک یورپی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے خواتین سے نسلی تعصب کو روکنے کے لیے چلائی جانے والی مہموں میں لفظ ‘مسخ’ (عورت کے عضو خاص کو ختنہ کے ذریعے مسخ کرنا) بڑے پیمانے پر استعمال کرنے سے ان بڑی عمر کی خواتین میں شرمندگی کا احساس پیدا ہوا ہے جو اپنی جوانی میں ہی ختنہ کا نشانہ بنی تھیں۔

یورپ کے بہت سے ممالک میں اب ریکنسٹریکٹیو سرجری کے آپریشن دستیاب ہیں اور اس کی وجہ ان ممالک میں افریقی تارکین وطن کی بڑی تعداد کا آباد ہونا ہے۔

میں نے سویڈن کی یونیورسٹی آف مالے میں بشریات کی پروفیسر سارہ جانڈوٹر کے ذریعہ آن لائن شائع ہونے والا ایک مطالعہ پڑھا، یہ مطالعہ اسی موضوع پر تحقیق کے بعد شائع ہوا تھا۔

مصر، ختنہ

سنہ 2019 میں مصری حکومت نے خواتین اور بچوں کی قومی کونسل کی شریک صدارت میں ‘خواتین کے ختنے کے خاتمے کے لیے قومی کمیٹی’ تشکیل دی

ان کی رائے میں یورپ میں عضو خاص کی بحالی کے آپریشنز کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ ختنے کے حوالے سے وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا بیانیہ ہے جو بعض اوقات فرضی کہانیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور اسی بیانیے کی وجہ سے خواتین کو یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ وہ کسی جسمانی ‘کمی، بے ڈھنگے پن اور جنسی صلاحیت سے محروم ہیں۔’ اس بات سے قطع نظر کہ متعدد تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ سرجری کے بعد بھی بیشتر خواتین کچھ زیادہ بہتر محسوس نہیں کرتی ہیں۔

وہ زور دیتی ہیں کہ وہ اس قسم کے آپریشن کے خلاف نہیں ہیں تاہم اُن کا کہنا ہے کہ خواتین کو اس حوالے سے نگہداشت کے بہت سے دستیاب طریقوں میں سرجری کو صرف ‘ایک آپشن’ کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

ڈاکٹر ریحام نے اس یورپی سیاق و سباق اور مصر کی صورتحال کے درمیان فرق کی وضاحت کی ہے۔ بنیادی فرق نفسیاتی تھیراپی کی ثقافت کا ہے۔

‘مجھے لگتا ہے کہ میڈیا کے ذریعہ نشر ہونے والے بیانیے سے متاثر ہو کر خواتین (جن سے میری ملاقات ہوئی) کی ایک بہت چھوٹی سی تعداد نے سرجری کا سہارا لیا۔ مصر میں جب کسی لڑکی کے ختنہ کیے جاتے ہیں تو عموماً اس کی عمر سات سے دس سال کے درمیان ہوتی ہے، اور اس عمر کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو بہت عرصے تک وہ صدمہ یاد رہے گا جو آپ کو اس عمل کے ذریعے گزار کر دیا گیا۔ نیز یہاں (مصر) کی ثقافت یورپ سے مختلف ہے اور خواتین کو یہ محسوس نہیں ہوتا ہے کہ نفسیاتی علاج بھی ضروری ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘یہاں مروجہ ذہنیت اور نفسیاتی علاج کی ثقافت کی عدم موجودگی بہت سے لوگوں کو یہ باور کروا دیتی ہے کہ شاید اب واحد حل جراحی ہی ہے۔ خواتین کے نفسیاتی پہلو اور جنسی کارکردگی کے درمیان ایک اہم ربط ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آپریشن کی کامیابی کا دارومدار بھی خواتین پر ہی ہوتا ہے کیونکہ آپریشن کے بعد وہ نفسیاتی طور پر بہتر محسوس کرتی ہے اور یہ بہتری اس کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتی ہے۔’

اس حوالے سے یونیسف کا کہنا ہے کہ سرجری کے ذریعے بحالی کا عمل ‘آخری حربہ’ ہی ہونا چاہیے۔

مصر میں یونیسف کے نمائندے جیریمی ہاپکنز کے مطابق ‘صحت کی خدمات بشمول خواتین کے لیے بحالی کی سرجری، ڈبلیو ایچ او کے رہنما اصولوں کے مطابق متعدد بنیادی اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے۔’ ان رہنما اصولوں میں شامل ہیں: زبردستی کیے بغیر عورت کی رضامندی حاصل کرنا، اور یہ کہ آپریشن اس وقت پر کیا جائے جس وقت کو خاتون ترجیح دے (یعنی وہ ذہنی طور پر تیار ہو)، اور یہ کہ سرجری کے فوائد بعض اوقات ختنہ کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔

لیکن آخر میں ان کا کہنا ہے کہ ‘ہماری کوششوں کا زیادہ تر حصہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہونا چاہیے کہ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی لڑکی کے ختنے نہیں ہونے چاہییں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp