میاں بیوی کی جھگڑوں سے عذاب بننے والی زندگی



اللہ نے مرد اور عورت کا ایک جوڑا بنایا، اسے دنیا میں بھیجا، ساتھی بنا کر، ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے لیے، ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے، ایک دوسرے کا سہارا بنا کر، ایک دوسرے کے سکون کے لیے۔ دنیا میں سب سے پہلا رشتہ میاں اور بیوی کا بنا۔ اور پھر اس دنیا میں اس جوڑے سے اور انسان پھیلے یہاں تک کہ آج کی دنیا میں کھربوں انسان ہیں۔

جب اللہ نے ان کے لیے ایک دوسرے میں سکون رکھا ہے تو پھر کیوں ہے اتنا انتشار، بد مزگی، طلاقیں، ہراساں ہونا، گھریلو تشدد، خواہشات کا بوجھ، لوگوں کا بوجھ، زائد ذمہ داریاں؟

کیونکہ لوگ کہتے ہیں عورت عورت کی دشمن ہے تو بھئی لوگ غلط کہتے ہیں۔ مرد اور عورت آپس میں دشمن بن گئے ہیں۔

تم سارا دن کرتی ہی کیا ہو گھر میں!
تم سارا آفس میں ٹھٹھے ہی تو مارتے ہو!
تم گھر کے کام کے ساتھ آرام بھی کرتی ہو، کام کا کیا ہے ،دو تین گھنٹے میں ختم ہو جاتا ہے!
تم بھی تو سارا دن آفس میں کرسی ہی توڑتے ہو!

میرا ہی نہیں میرے گھر والوں کا بھی خیال تمہیں ہی رکھنا ہے، میں رکھوں یا نہ رکھوں لیکن تمہاری ذمہ داری ہے!

میرے گھر والے بھی تمہارے کچھ لگتے ہیں، جنہوں نے اپنی ہیرے جیسی بیٹی تمہیں دی ہے ،ان کی عزت بھی تم پر فرض ہے!

تم اک بیٹا پیدا کیوں نہیں کر سکتی!
تم کہاں اتنے کمانے والے کہ دو سے زیادہ بچوں کو اچھا پال پوس لو!
تمھاری زندگی بس اب مجھ پر اور بچوں پر ہی ختم ہوتی ہے!

تم اپنے گھر والوں سے نہیں ملو گے کیونکہ جب تم ملنے جاتے ہو ہماری لڑائی ہو جاتی ہے، ان فسادی لوگوں سے دور ہی بھلے!

تم نوکری کر کے کیا کرو گی عورت ہو دو پیسے کمانے لگو گی تو میرے ہی سر چڑھ کر ناچنے لگو گی!
تم اپنی اس جاب سے دو بجے فارغ ہو جاتے ہو، کوئی پارٹ ٹائم جاب بھی شروع کر لو، خرچے پورے نہیں ہوتے!
عورتیں تو ہوتی ہی ایسی ہیں بلا وجہ کی چک چک!
مرد کہاں کسی کی سنتے ہیں! بس ان کے آگے ہاں ہاں کرتے رہو!
اف اف اف!
ایسی اور

پتہ نہیں کتنی بے شمار باتیں ہیں جو یہ ایک دوسرے کے ساتھ پورا جیون گزارنے کا وعدہ کرنے والے دو افراد اک دوسرے کو کہتے ہیں۔

رشتہ داروں کی کیا ضرورت ہے، تم دونوں تو خود ہی ایک دوسرے پر تنقیدی جائزہ کے لیے کافی ہو۔ ان کی باتوں سے جو تکلیف ہوتی ہے اس کا گراف تمھارے ایک دوسرے کو تکلیف دینے سے تو کافی کم ہے۔

کیوں بھول گئے ہو کہ جب آدم علیہ السلام کے منع کرنے کے باوجود اماں حوا نے شیطان کے وسوسے میں آ کر اس درخت سے پھل توڑ لیا تھا اور اپنے ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی ملا لیا تھا۔ پھر اللہ کے باز پرس کرنے اور سزا سنانے پر حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا نے لڑنا یا اک دوسرے پر الزام تراشی کرنا نہیں شروع کر دیا تھا بلکہ دونوں نے مل کر توبہ کی تھی۔

اس دنیا میں آ جانے کے بعد بھی انہوں نے ایک دوسرے کو الزام نہیں دیا تھا بلکہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے رہن سہن کا انتظام کیا تھا۔ دیکھنے میں تو اماں حوا پہلے شیطان کی باتوں میں آئی تھی پھرحضرت آدم علیہ السلام کو بھی اکسایا تھا لیکن سزا ملنے پر حضرت آدم علیہ السلام نے سارا ملبہ اماں حوا پر نہیں ڈال دیا تھا، بلکہ اپنے بہک جانے پر بھی اللہ سے معافی مانگی تھی۔

آج کل کے جوڑوں کو تو شاید اس رشتہ کی پہچان ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی خو بصورتی کا علم ہے۔ اس رشتے پر انہوں نے پہلے خود اور پھر معاشرے نے اتنا بوجھ ڈال دیا ہے کہ بس ان کی زندگی لوگوں کی فکروں، ان کے حقوق کی ادائیگی میں اور ایک دوسرے پر الزام لگانے میں ہی گزر جاتی ہے۔

خدارا اس رشتے کو بوجھ مت بنائیں، اللہ نے اس رشتے میں برکت اور محبت رکھی ہے۔ آپ کو ایک دوسرے کا لباس بنایا ہے کس لیے کہ ایک دوسرے کی خامیاں چھپا لو۔

آپ لوگوں کو ایک دوسرے کے دکھ درد کا ساتھی ایسے ہی نہیں کہا گیا بلکہ بنایا گیا ہے نہ کہ ایسا ہو رشتے نبھانے کی ساری ذمہ داری عورت کی ہے اور ہر خواہش پوری کرنا مرد کی۔

مل جل کر رہیں، اک دوسرے کا ساتھ دیں، اک دوسرے کی خامیاں بھول جائیں، خوبیاں یاد رکھیں ورنہ اتنا لمبا سفر پھول اور کانٹوں سے نہیں صرف کانٹوں سے بھرا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments