ہم اچھوت لوگ


اس جہاں میں آنکھ کھلی تو چند چیزیں اور روایات ایسی لگیں، جیسے ہمیں ورثے میں ملی ہوں۔ خاص طور پر ہر دوسرے کو اپنے برابر مان لینا۔ ہر انسان کی انسانیت کے بناء پر قدر کرنا۔ توہین یا تذلیل انسانی فطری طور پر کبھی بھی قابل قبول نہیں۔ لوگوں سے اختلاف کی بجائے ان کی رائے سے اختلاف رکھنا چاہیے ۔ خیال تو کچھ یوں تھا کہ سارے انسانی نظاموں میں یہ برابری اور مساوات عام سی بات ہو گی۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ایسے خیالات کا ستیا ناس ہو گیا۔ معاملہ یہاں پر رکا نہیں۔ حالات یہاں تک آ گئے کہ ہمیں احساس ہوا کہ ہم تو اچھوت لوگ ہیں۔ ہم سے تو اپنا ماضی بھی کھو گیا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے اچھوت بھائیوں کو اپنے ماضی کے طعنے دیے گئے۔ ہر مقام پر ہمیں نیچا اور پست دکھانے کی کوشش کی گئی۔ عام آدمی کی بنیادی حق بھی چھینا گیا اور یہاں تک پابندی کا شکار ہوئے کہ ہمیں بولنے کی آزادی بھی نہیں دی گئی کیونکہ بولنے پر ہمیں بعد میں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ہر جگہ پر خود کو فوقیت دی گئی اور اپنی اتنی فضیلتیں اور کرامات بیان کیں کہ گویا ہم خدا بھی بھول گئے۔ ہر جگہ ان کے لئے آزادی اور ہمارے لئے پابندیاں۔ وہ انسانی اقدار کی خلاف ورزی کریں تو نئی کرامت اور ہم سے بے خیالی میں میں کچھ سرزد ہو جائے تو گناہ اور سزا۔ ان کی زبان پھسل جائے تو نئی اور مقبول منطق، ہم آیات کا ترجمہ سنائیں پھر بھی بے مطلب۔ ان کے لئے سب کچھ جائز اور ہمارے لئے تھوڑا بھی ناجائز۔

ہم اس عدم مساوات کے نظام کے باغی یہ دستور کبھی نہیں مانتے، کبھی نہیں مانتے۔ میں تھوڑا بہت سوچوں تو مجھ پر فتویٰ اور دوسرا جی حضوری کرے تو اس پر مہربان۔ ہمیشہ سے انھوں نے اچھوت لوگوں پر اپنی برتری دکھائی ہے۔ انہوں نے یہاں تک اپنی فوقیت منوا دی ہے کہ سوال کرنے کا حق بھی مجھ سے چھین لیا گیا ہے۔ وہ جو بھی کرے، صحیح ہے کیونکہ وہ برتر ہے۔ ان کی برتری پر سوال اٹھانے والا میں کون ہوتا ہوں؟

وہ طبیب بھی ہے وہ حکمران بھی، وہ منصف بھی ہے، وہ ملا بھی۔ ہم اچھوت تو ان کی جی حضوری کرنے والے ہیں۔ وہ تو معظم مخلوق ہے اور ہم ذلیل۔ وہ بولے تو کلام خوب، ہم بولیں تو مترادف بھوکنے کے ، ہم حالات کے مارے عدم انصاف کے ایسے امتیازی تقاضے کبھی نہیں مانتے ۔ قابل رحم ہے ایسی سوچ اور خیالات جو آزاد بندوں کو غلام بنانے کے لئے دن رات متحرک ہو۔

یہاں تک کہ نئی نسلوں میں ان کا بڑا اثر ہے۔ میں لعنت بھیجتا ہوں ایسے نظام ایسے دستور پر، جس میں عام آدمی کی قدر نہ ہو۔ ان حالات میں مجھے شرم محسوس ہوتی ہے اپنے انسان ہونے پر۔ یہاں پر کچھ سوالات میں ضرور پوچھوں گا کہ یہ برتری کہاں سے آئی ہے۔

اگر یہ برتری ’محترم‘ کو ورثے میں ملی ہے تو مجھے شک پیدا ہوتا ہے کہ میں غلطی پر ہوں ، یہ برتری انسانوں میں خلاء سے تو نہیں آئی۔ کبھی کبھار تو مجھے فخر محسوس ہوتا ہے اپنے اچھوت ہونے پر کیونکہ مجھ سے انسان کی تذلیل نہیں ہوتی ہے۔ میں مخصوص ’محترم‘ کا دل خوش رکھنے کے لئے دوسرے انسان کا دل نہیں توڑتا۔ میرے لیے ہمیشہ سے انسان برابر رہا ہے۔ ذاتوں میں اونچ نیچ کی سوچ کہاں سے آئی ہے، بھلا محترم سے بہتر کون جانتا ہے۔

محترم صاحب اپنی شناخت پر نظرثانی کریں ایک بار کان کھول کے سن لیں۔ اب کے بعد جی حضوری والے نہ رہیں گے۔ انسانی سوچ بیدار ہو چکی ہے لہٰذا احتیاط سے کام لیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments