شہر خموشاں دے چل وسئیے


پچھلے دنوں شام کی سیر کے دوران ایک انکشاف ہوا کہ جس سڑک پہ پچھلے کئی سال سے گزر رہا ہوں اس کی دائیں فصیل کے اس پار وہ شہر خموشاں ہے جہاں ہم سب نے ایک دن جا کے بسیرا کرنا ہے۔ بقول بلھے شاہ:

شہر خموشاں دے چل وسئیے جتھے ملک سمانا
بھر بھر پور لنگھاوے ڈاڈھا ’ملک الموت مہانا

لفظی ترجمہ: شہر خموشاں میں جا کے بستے ہیں ، جہاں سبھی نے جانا ہے۔ ملک الموت جوق در جوق لوگوں کو وہاں بھجوا رہا ہے

بہت عرصے سے خواہش تھی کہ کچھ وقت وہاں بھی گزارا جائے۔ چونکہ اب پتا چل گیا تھا تو ایک شام سیر کا رخ اسی کی جانب موڑ لیا۔ چلتے چلتے دیکھا کہ شہر خموشاں کی فصیل اور آبادی کے درمیان محض ایک پندرہ فٹ چوڑی سڑک ہے۔ سڑک کے ایک پار زندگی اپنی پوری آب و تاب اور تمام تر رنگینیوں کے ساتھ محو رقص ہے اور صرف ایک سڑک کے فاصلے پہ وہ صاحبان محو استراحت ہیں جو کبھی ایسی ہی زندگی کا حصہ تھے۔

کبھی وہ بھی اسی گھن گرج ، تمکنت اور ہٹو بچو جیسے ماحول کا حصہ تھے۔ ان میں سے بیشتر بھی سوچتے ہوں گے کہ وہ اس دنیا کے لئے ناگزیر ہیں اور ان کے بغیر شاید اس دنیا کے کام رک جائیں گے۔ اور ایسا ہی کچھ ان کی جگہ لینے والے سوچتے ہیں۔ لیکن وقت کیسا بے رحم منصف ہے، جلد ہی سب بتا دیتا ہے کہ جو اہم تھے ، یہ سب ان کے وہم تھے۔ ان کے بغیر بھی زندگی جاری ہے اور موجودہ لوگوں کے بعد بھی ایسے ہی جاری رہے گی۔ چند دن کا غم ہوتا ہے، پھر اس غم کو غلط ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ پہاڑ جیسا غم بھی ہو تو اس وقت تک ہی رہتا ہے جب تک نیند اپنی آغوش میں نہ لے لے یا جب تک گندم کا خمار اپنا اثر نہ دکھا لے۔

لفظ ’انسان‘ کے اور بھی مصادر ہوں گے۔ ان میں سے ایک ’نسیان‘ بھی بتایا گیا ہے۔ نسیان کا تو مطلب ہی بھول جانا اور فراموش کر دینا ہے۔ کیسی سرد مہری ہے لفظ ’فراموش‘ میں۔ ہر کسی کو اپنے کسی پیارے کے لحد تک لے جانے کے سفر کو دیکھنے کا موقع ملا ہو گا اور آنکھوں کے سامنے مٹی کی آخری مٹھی کو ڈھیری بنتے دیکھا ہو گا۔ روایات کے مطابق چالیس قدموں کے بعد ’فراموشی‘ کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے ، یہی بات کافی ہے کہ دفنانے والے سمجھتے ہیں کہ بس اسی کو مرنا تھا ۔ بلھے شاہ نے خوب بند باندھا:

اک اکلیاں جانا ای تیں، نال نہ کوئی جاوے گا
خویش ’قبیلہ روندا پٹ دا، راہوں ہی مڑ آوے گا
شہروں باہر جنگل وچ واسا، اوتھے ڈیرہ پاویں گا

لفظی ترجمہ: اک اکیلے ہی تم جاو گے ، کوئی ساتھ نہ جائے گا۔ تمہارے دوست اور قبیلے والے راستے ہی سے روتے ہوئے واپس آ جائیں گے۔ شہر سے باہر جنگل میں تم اپنا مسکن پاؤ گے

اسی لئے تو مالکِ ہر ہر نے کئی کئی بار یاد دہانی کروائی کہ اپنے مستقل ٹھکانے کی فکر کرو۔ عازم سفر یہاں سے کچھ مال و متاع نہیں لے جا سکتا۔ وہاں درکار سہولیات کا انتظام یہیں سے کر کے جانا ہو گا ، وہاں سے کچھ نہیں ملے گا۔ بقول بلھے شاہ:

اوتھے ہتھ نہ لگدا کجھ وی، ایتھوں ہی لے جاویں گا
لفظی ترجمہ: وہاں سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ، یہیں سے سب لے جانا پڑے گا

وہاں تو صرف اعمال و معاملات کا تول ہو گا اور اس کی شان کریمی کے مطابق فیصلہ۔ اس فیصلے کو اپنے حق میں کرنے کے لئے ہدایات اور پندو نصائح کے بہت سے بند باندھے گئے ہیں ، علماء اور حکماء نے کئی ایک باب اس پہ لکھ رکھے ہیں۔ بلھے شاہ نے ساری بات کا نچوڑ پیش کر دیا کہ:

کراں نصیحت وڈی جے کوئی سن کے دل تے لاوے گا
موئے تاں روز حشر نوں اٹھن ، عاشق نہ مر جاوے گا
جے توں مریں مرن توں اگے مرنے دا مل پاویں گا

لفظی ترجمہ: ایک بڑی نصیحت کرتا ہوں ، اگر کوئی سنے اور دل پہ لگائے۔ مرنے والے تو اب روز حشر ہی اٹھیں گے لیکن عاشق کو موت نہیں آئے گی۔ اگر تم مرنے سے پہلے مر گئے تو ہی مرنے کی قیمت پاؤ گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments